خدا سے خالی دنیا (آخری حصہ)

705

ابھی جو مطابقت اور مزاحمت کی بات ہورہی تھی اسے تھوڑا آگے بڑھانا چاہیے اور اپنی صورت ِ حال پر منطبق کر کے دیکھنا چاہیے۔ اس وقت عالمِ اسلام میں دو طرح کے ورلڈ ویوز غلبہ رکھتے ہیں۔ایک ورلڈ ویو تاریخ اور جدیدیت سے مطابقت کو ضروری جانتا ہے جبکہ دوسرا ورلڈ ویو مزاحمت یا ٹکراؤ لازمی مانتا ہے۔ مزاحمت والوں میں مطابقت کا ادنی سا امکان اور تصور بھی ناپید ہے جبکہ دوسری طرف مطابقت کو ضروری سمجھنے والے گروہ میں جدیدیت کے بعض اصول ومظاہر کی مزاحمت کے کچھ عناصر یقینا پائے جاتے ہیں لیکن یہ لوگ ان عناصر کو کسی محدود ترین تصادم کے بھی اسباب بنانے سے گریز کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی بنیاد پر تصادم کے بجائے تطبیق کی صورتیں نکالی جائیں۔ یعنی جدیدیت کی ننانوے باتیں مان کر اس سے اپنی ایک بات منوانے کی عاجزانہ کوشش بھی کر دیکھی جائے۔ یہ دونوں گروہ دین اور تاریخ یا دین اور آدمی کے مطلق اساس اور تغیر آشنا تعلق کی ماہیت کو نہیں سمجھتے۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ دونوں کا تصورِ دین، تصور ِ انسان اور تصور ِ تاریخ ہول ناک حد تک بے روح اور مکینکل ہے۔ امت ِ مسلمہ کے اجتماعی شعور پر مسلط اسی کمزوری سے جدیدیت فائدہ اٹھا رہی ہے اور مسلمانوں میں ذہنی، اخلاقی، جمالیاتی اور عملی سطحوں پر اپنی جگہ بنانے میں روز ایک نئی کامیابی حاصل کر رہی ہے۔ اگر ہماری غفلت اور غیر سنجیدگی کا خدانخواستہ یہی عالم رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے دینی معلم بھی جدیدیت فراہم کرے گی، داعی بھی اس کا ٹھپا لگوا کر نکلیں گے اور مجاہد بھی وہی جھنڈا اٹھائیں گے جسے جدیدیت کے کارخانے میں بنایا گیا ہوگا۔ آنکھیں کھلی ہوں تو ان مناظر کی تمہیدی جھلکیاں آج بھی دکھائی دیتی ہیں۔ مغرب نے اپنے ساختہ پرداختہ مجاہدین اور اپنے مرعوب ومسحور مصلحین کے درمیان بڑی مہارت سے ایک رزم گاہ بنا دی ہے جس میں مجاہدین کی شکست اس پورے منصوبے میں طے شدہ ہے۔ اپنے ہم مقصد مصلحین کو فاتح بنا کر ’دین کیا ہے‘ کا تیار شدہ جواب ان ’مہذب و مرتب‘ مصلحین سے دلوایا جائے گا اور اس لاچار، بے بس، حیران پریشان اور ہر طرح کے احساسِ کمتری میں مبتلا کر دی گئی امت سے منوایا جائے گا۔ اسٹیج لگ چکا ہے، کرداروں کی رونمائی کروائی جا چکی ہے، ناظرین اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے ہیں، اب بس ڈراما شروع ہونے کا انتظار ہے۔ یہ کھیل ایسی تکنیکی مہارت اور نفاست کے ساتھ پیش کیا جائے گا کہ ناظرین اسے کسی رکاوٹ اور ہچکچاہٹ کے بغیر اپنے اندر جذب کرلیںگے اور اسکرپٹ کے عین مطابق خود اس کھیل کا حصہ بن جائیں گے۔ تو خدا کے لیے حالتِ انتظار میں گم اور گنگ ان ناظرین کا حصہ نہ بنو اور جدیدیت کے بنائے ہوئے اس ہال میں داخل ہونے کا ٹکٹ لینے کے لیے قطار بندی کرنا چھوڑ دو ورنہ تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
جدیدیت ہم سے یہ منوانا چاہتی ہے بلکہ ہمیں یہ یقین دلانا چاہتی ہے کہ اسلام کو چھوڑ کر بھی مسلمان رہا جا سکتا ہے۔ تم خود کو مسلمان سمجھتے ہو، بس اتنا کافی ہے، کتابی عقائد و احکام کے جھنجھٹ میں پڑنا غیر ضروری ہے۔ یہ محض اٹکل اور قیاس نہیں ہے، آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ کتنی تیزی کے ساتھ جدید تعلیم یافتہ طبقات میں اسلام کو صرف فرد کا دین بنایا جا رہا ہے۔ انگریزی کو پہلی زبان کے طور پر اختیار کر لینے والوں کی بہت بڑی اکثریت ہے جو خدا کو مانتی تو ہے مگر اپنے خالق کی حیثیت سے نہیں بلکہ اپنی تخلیق کی حیثیت سے۔ اب ظاہر ہے کہ اس خدا کے احکام کی کیا حیثیت ہوگی جو رومانوی تخیل کے باہر وجود ہی نہیں رکھتا۔ ان لوگوں سے اگر گر پڑ کر یہ منوا بھی لیا جائے کہ خدا ایک موجود فی الخارج ذات ہے تو بھی یہ بندگی کے مزاج کو قبول نہیں کرسکتے اور خدا کے ساتھ ان کے تعلق کا ہر انداز سرپرستانہ ہوگا۔ یعنی ہم نے خدا کو مان کر گویا اس پر احسان کیا ہے اور ہم تصدیق نہ کرتے تو اس کا موجود ہونا محال تھا۔ یہ سب مسخرے پن کی باتیں ہیں لیکن انہیں ہنس کر نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ جدیدیت مذہبی شعور کی جو بھی اسٹرکچرنگ کر رہی ہے وہ آدمی سے ایسی ہی باتیں کہلوائے گا۔
دوسری طرف مسلمانوں کا وہ طبقہ ہے جس نے جدیدیت کو بڑی حد تک قبول کر لیا ہے اور اس انداز ِ نظر کو اختیار کر لیا ہے جو جدیدیت کا ذہنی اور نفسیاتی خاصہ ہے۔ مثلاً یہی دیکھ لیجیے کہ جدید نظامِ تعلیم کو من وعن قبول کر کے ہم نے کون سا تیر مارلیا۔ مطلب، ڈان اخبار پڑھ سکنے کی جیسی تیسی قابلیت دلوانے والی انگریزی سے زیادہ ہم میں کون سی صلاحیت پیدا ہوئی۔ زبان دانی اور لفظ شناسی کے بغیر ذہن کی نشو ونما ممکن ہی نہیں ہے لیکن ہمارا یہ حال ہے کہ ہمیں جو بھی زبان آتی ہے اس کی مدد سے زیادہ سے زیادہ اخبار پڑھا جاسکتا ہے۔ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو آخر کس چیز پر اتنا گھمنڈ ہے کہ ہماری پوری روایت ان کے لیے ذہنی اور تہذیبی پسماندگی کا استعارہ بن گئی ہے! یہ لوگ جدیدیت کے کاسہ لیس ہیں، جدیدیت کے نمائندے نہیں۔ ہمارے یہاں کی اکثریت نے خود کو جدیدیت کے تنور میں جھونک دیا ہے لیکن اس تنور کا ایک شعلہ بھی ان کی حرارت سے پیدا نہیں ہوا۔ یہ ہمیشہ گداگر رہیں گے اور ہمیشہ مسخرے رہیں گے۔ مغربی ذہن ہمارے پروفیسر کو جتنی حقارت سے دیکھتا ہے، اتنی حقارت سے ہمارے عالمِ دین کو نہیں دیکھتا۔ کیونکہ وہ یہ جانتا ہے کہ دینی عالم اپنی روایت کا علم رکھتا ہے جو ہم نہیں رکھتے۔ مغربی ذہن جانتا ہے کہ ہمارے یہاں فزکس کا بڑے سے بڑا پروفیسر فزکس کے جنگل میں ایک تنکا بھی اگانے کی لیاقت نہیں رکھتا۔ تو بھائی، جدید مغربی تعلیم نے بھی ہمارے یہاں مسخرے اور بونے پیدا کرنے کے علاوہ کیا کِیا ہے۔ کیسی شرم ناک صورت ِ حال ہے کہ ہم اپنے بونے ہونے کی حفاظت کر رہے ہیں اور اپنے قامت کو بلند کرنے کے لیے اللہ کے قرب کی جو سیڑھی ہر وقت ہمیں میسر ہے، اس کو نظر انداز کیے جارہے ہیں۔ یعنی پاتال میں دھکیلے جانے پر راضی ہیں اور آسمان کی پرواز کا سامان رکھتے ہوئے بھی اس کی طرف سے بے خبر اور بے پروا ہیں۔ تو یہ کوئی چھوٹی بے وقوفی ہے! کون کہا ہے کہ جدید علوم حاصل نہ کرو۔ کئی نئے علوم ایسے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ بہت سے دنیاوی علوم ایسے ہیں جن میں پیچھے رہ جانے سے ہم اپنا دینی نقصان کر رہے ہیں۔ ہمیں دنیا اور آدمی کو سمجھنے کے لیے اور دنیاوی زندگی کو خوش حال اور بامعنی بنانے کے لیے اور تاریخ کی کسوٹی پر پورا اترنے کے لیے اپنے زمانے میں مروّج علوم ضرور حاصل کرنے چاہییں ورنہ دیگر اقوام کے مقابلے میں ہماری پس ماندگی
محض دنیاوی نہیں رہے گی، دینی بھی بن جائے گی۔ تو بس مقصود دینی ہونا چاہیے، علم چاہے کوئی بھی ہو۔ مقصود دینی ہو تو ہر علم دینی ہے۔ تو نہ صرف یہ کہ ہم میں سے کم ازکم ایک جماعت کو دنیاوی کہلائے جانے والے علوم سیکھنے چاہییں بلکہ ان میں ایک مجتہدانہ اور خلّاقانہ تصرف اور بصیرت بھی پیدا کرنی چاہیے۔ یہ نہایت شرم کی بات ہے کہ سیکڑوں سال سے مسلمانوں نے کوئی نیا علم تو دور کی بات ہے، کوئی نئی تھیوری بھی ایجاد نہیں کی۔ اس وجہ سے ذہن کی ایسی پستی ہم پر مسلط ہوچکی ہے جس کا اظہار دینی علم میں بھی ہونے لگا ہے۔ بڑے عالم بھی پیدا ہونے بند ہوگئے ہیں۔ اور ہماری شامت ِ اعمال سے اور ہماری ہمہ گیر غیر سنجیدگی کی وجہ سے یہ بندش اتنی عام ہے کہ الا ماشاء اللہ کہنا بھی رسمی سا لگتا ہے۔ ذہن اپنے زمانے کے علوم سے پروان چڑھتا ہے، یہاں محض حافظے تک محدود علم کار آمد نہیں ہے۔ آج علمِ دین کو محض حافظے سے حاصل کرنے کی جو عادت ڈال رکھی ہے اس نے ذہن کو ایسا پودا بنا رکھا ہے جسے پانی نہیں مل رہا۔ اور ذہن ہی کیا، دینی تعلیم کی موجودہ سطح پر بے چارے قلب کا بھی یہی حال ہے۔ تو خیر، ہمارے لیے بہت ہی زیادہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہم اپنے اندر تعلق باللہ کے جوہرِ اصلی کو بیدار کریں اور اسے ذہن اور زندگی کے ہر گوشے میں بر سرِ عمل لائیں۔ لیٹے رہیں، بیٹھے رہیں، سب اچھا ہے، بس اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کے شعور میں رہیں اور اس کے نتیجے میں وارد ہونے والی ذمے داریوں کو شوق اور محنت سے ادا کریں۔ جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا کہ اب ہم سب کو اس کا عزم کرنا چاہیے اور اس پر قائم رہنا چاہیے کہ میں ہر اس عمل کو ترک کروں گا، ہر اس عمک کو رد کروں گا اور ہر اس خواہش کو مسترد کروں گا جو مجھے اللہ سے دور کرنے والی ہوگی۔ تو بھائی، یہ عہد تو کرنا چاہیے اور اس میں کوئی پیر ، کوئی مرشد، کوئی استاد آپ کا نگران نہیں ہے، بس اللہ دیکھ رہا ہے اور خود آپ کا نفس ِ لوّامہ اور آپ کا ضمیر آپ کی نگرانی کر رہا ہے۔ اگر آپ اپنے آپ سے سچے ہیں اور خود فریبی کے مریض نہیں ہیں تو یہ میتھڈ اختیار کریں۔ یہ بہت فطری ہے اور اس میں آپ کی کوئی تحقیر بھی نہیں ہے۔ آدمی اپنے آپ کو ٹوکتے وقت زیادہ خود تعظیمی محسوس کرتا ہے۔ اس میں اصلاح بھی تکریم کے ساتھ ہے۔ اور ایسی اصلاح زیادہ پر اثر اور مستقل ہوتی ہے جس میں آدمی کو کسی حقارت کا نشانہ نہ بنایا جائے۔