انڈونیشیا:مشکلات کے بھنورمیں

187

آبادی کے لحاظ سے انڈونیشیا مسلم دنیا کا سب سے بڑاملک ہے۔ملک کی جغرافیائی نوعیت بھی عجیب ہے۔ ہزاروں چھوٹے بڑے جزائرپرمشتمل یہ ملک نسلی،نظریاتی اورسیاسی تنوع کاحامل ہے۔ کورونا وبا کے دوران معیشت کوجونقصان پہنچاہے اس نے سیاست اورمعاشرت کوبھی شدیدنقصان پہنچایا ہے۔ حکومت اس نقصان کے اثرات کادائرہ محدودرکھنے کے نام پر چند اقدامات کررہی ہے، جو اگرچہ ضروری ہیں مگراِن کے نتیجے میں چند خرابیاں بھی پیداہورہی ہیں۔ سیاسی سطح پراچھی خاصی ہلچل محسوس کی جاسکتی ہے۔
انڈونیشیا میں کورونانے مکمل طورپردم نہیں توڑا۔ ایسے میں حکومت کا79قوانین پر نظرثانی کا فیصلہ حیرت انگیزاورپریشان کن ہے۔ پارلیمان نے 5 اکتوبر کو اومنی بس بل کی منظوری دی ہے، جس پر اپوزیشن کاکہناہے کہ اس کے ذریعے محنت کشوں کے حقوق اورمراعات پرڈاکا ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کاکہناہے کہ ملک کوروناوباسے نمٹنے کی بھرپورتیاریاں کر رہاہے اورایسے میں صدر جوکو ویدودو کی طرف سے متعدد قوانین میں ترامیم کاڈول ڈالا گیا ہے، جو سیاسی بحران کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
انڈونیشیاکے طول و عرض میں لاکھوں محنت کش سڑکوں پرآگئے ہیں۔ مظاہرین کاکہناہے کہ حالات پہلے ہی بہت خراب ہیں، ایسے میں آجروں کونوازنے کی پالیسی مزیدخرابیاں پیدا کرے گی۔ مزدور انجمنوں کے علاوہ شہری آزادی یقینی بنائے رکھنے کے لیے کام کرنے والی انجمنوں نے بھی قوانین میں اصلاحات کی کوشش کوخطرناک اور مزدور دشمن قرار دیا ہے۔ 5 اکتوبر کو 907 صفحات پرمشتمل جس اومنی بس بل کی منظوری دی گئی ہے، جس کے تحت محنت کشوں سے متعلق قوانین کے ساتھ محصولات کے قوانین پربھی نظر ثانی کی جانی ہے۔ 7 سیاسی جماعتوں نے اس بل کی حمایت کردی ہے اور سابق صدرسسیلوبومبانگ یدھویونوکی ڈیموکریٹک پارٹی اوردی اسلامک پراسپیرس جسٹس پارٹی نے اس بل کے خلاف ووٹ دیا ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ ملک کوایسے قوانین کی ضرورت ہے جن کی مددسے معیشت کوتیزی سے فروغ دیا جا سکے۔ حکومتی ارکان کاکہناہے کہ سرخ فیتے کی لعنت کوختم کرنالازم ہوچکا ہے کیونکہ اس لعنت کے باعث ہی کاروباری ماحول بہتربناناممکن نہیں ہوپا رہا۔ بیورو کریسی ہرمعاملے میں غیرمعمولی حدتک مداخلت کرتی ہے،جس کے نتیجے میں سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اورملک بھرکے آجر بھی مشکلات محسوس کرتے ہیں۔ سرخ فیتہ ہی محصولات کے نظام کو بھی درست اندازسے چلانے میں کامیابی یقینی نہیں ہونے دے رہا۔ ملک کوبیرونی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔ بعض قوانین اوران کے تحت متعین قواعدوضوابط معاملات کوالجھارہے ہیں۔ صدر جوکو ویدودو کا کہنا ہے کہ ملک کوبیرونی سرمائے کی ضرورت ہے اوروہ بھی بڑے پیمانے پر۔ یہی سبب ہے کہ حکومت قوانین کی اصلاح کے ذریعے کاروباردوست ماحول یقینی بناناچاہتی ہے۔
انڈونیشیاکی حکومت کا کہنا ہے کہ کوروناوبانے بہت سی مشکلات پیداکی ہیں مگر بلی کے بھاگوں چھینکاٹوٹا کے مصداق چند اچھے مواقع بھی پیداہورہے ہیں۔ انڈونیشیاکی معیشت کوبھرپورکارکردگی کے قابل بنانے کی ضرورت ہے۔ عالمگیرسطح پر سرمایے کی فراہمی سے جڑے ہوئے کئی بڑے ادارے چین سے رختِ سفرباندھ رہے ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ یہ ادارے انڈونیشیاکا رخ کریں اور اس کے لیے لازم ہے کہ سرمایہ کاری کے حوالے سے پرکشش مراعات یقینی بنائی جائیں۔
بل پرتنقید 2 حوالوں سے کی جارہی ہے۔ ایک طرف تو مزدور انجمنیں یہ کہہ رہی ہیں کہ نئے قوانین سے مزدوروں کے حالات بدتر ہوجائیں گے اوردوسری طرف ماحول کاتحفظ یقینی بنانے کے لیے کام کرنے والے غیرسرکاری ادارے یہ کہتے ہیں کہ حکومت نے ماحول کوپہنچنے والے نقصان کی پروا نہ کرتے ہوئے کاروباری برادری اورسرمایہ کاروں کوایسے منصوبوں کے لیے گرین سگنل دے دیاہے، جن سے بارانی جنگلات کوشدید نقصان پہنچے گا۔
اومنی بس بل کوپارلیمان میں ووٹنگ کے لیے پیش کیے جانے سے پہلے ہی میڈیا میں اس کے حوالے سے بہت کچھ آچکا تھا۔ اپوزیشن نے مخالفت کی تیاری کی اور مزدور انجمنوں نے بھی اس کے خلاف جانے کااعلان کیا تو حکومت نے منصوبہ تبدیل کرتے ہوئے اپوزیشن کی اعلان کردہ 3 روزہ ہڑتال سے قبل ہی یہ بل پارلیمان میں پیش کرکے منظورکرالیا۔ مزدور انجمنوں کاکہناہے کہ اس کے باوجودقوانین میں ناپسندیدہ ترامیم کے خلاف احتجاج جاری رہے گا۔ انڈونیشن فیڈریشن آف ٹریڈیونینزکے صدرسعیداقبال کاکہنا ہے کہ ملک بھرکے مزدور کورونا کے ہاتھوں پہلے ہی شدیدمعاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ انہوں نے بے روزگاری اورمہنگائی کا سامنا کیا ہے۔ اب آجروں کو نواز کر حکومت مزدوروں کے لیے مشکلات بڑھا رہی ہے۔ ایک طرف تو ان کی تعطیلات گھٹائی جارہی ہیں اور دوسری طرف بلاجواز نکالے جانے کی صورت میں انہیں اب 32کے بجائے19ماہ کی تنخواہ ملاکرے گی۔ ہانگ کانگ سے شائع ہونے والے جریدے نے ایک تجزیے میں لکھاہے کہ قوانین میں متنازع نوعیت کی ترامیم سے صدر جوکو ویدودو کی حکومت مزدوروں کواپنے سامنے جھکاناچاہتی ہے تاکہ وہ اپنے حقوق کے لیے کچھ زیادہ مطالبات نہ کرسکیں۔ حکومت کومزدوروں کے لیے مشکلات بڑھانے کے بجائے ایساماحول پیداکرناچاہیے،جس میں وہ زیادہ دل جمعی سے کام کرسکیں۔ معیشت کودوبارہ مستحکم کرنے کے لیے ایسا کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔
سرمایہ کاری کوفروغ دینے کے لیے انڈونیشیائی حکومت ماحول کوپہنچنے والے نقصان کوبھی نظر انداز کررہی ہے۔ ماحول کا تحفظ یقینی بنانے والے ملکی اداروں کے علاوہ بعض عالمی تنظیمیں بھی انڈونیشیا کی حکومت پرزوردے رہی ہیں کہ بیرونی سرمایہ کاری کوفروغ دینے کے نام پرماحول کو داؤ پرنہ لگایاجائے اوربالخصوص بارانی جنگلات کاتحفظ یقینی بنانے پر زیادہ توجہ دی جائے کیوںکہ ایسانہ کرنے کی صورت میں اگرماحول کوزیادہ نقصان پہنچ گیاتوآگے چل کرسرمایہ کاری شدیدمتاثرہوگی۔ اپوزیشن کاکہناہے کہ سرخ فیتے کی لعنت نے قومی معیشت کوبہت حدتک جکڑ رکھا ہے۔ اس وقت ملک کو ایسے معاشی ڈھانچے کی ضرورت ہے جس میں بیوروکریسی کی مداخلت کم سے کم ہو۔
کورونا کے دوران انڈونیشیاکوبھی بحرانی کیفیت کاسامناکرناپڑا۔ معیشت کوبھی نقصان پہنچااورصحتِ عامہ کانظام بھی شدیدمتاثرہوا۔ حکومت کواس حوالے سے زیادہ متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ صدر ویدودو کے لیے بہتر اور محفوظ راستہ یہ ہے کہ وہ قوانین میں ترمیم کے نام پرکسی طبقے کی حق تلفی سے گریزکریں۔عالمی مالیاتی فنڈ نے بھی خبردارکیاہے کہ ملک کوجتنے بھی بحرانوں کاسامناکرناپڑتاہے،ان کے حتمی نتائج توغریب عوام ہی کو بھگتناپڑتے ہیں۔ اس حوالے سے معاملات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ غیرمعمولی منصوبہ بندی لازم ہوچکی ہے۔ اگر محنت کشوں کے لیے مراعات کم کردی گئیں توان کی کارکردگی متاثرہوگی اوردوسری طرف سیاسی سطح پربھی بے چینی پیدا ہوگی۔ آبادی کاایک بڑاحصہ پہلے ہی افلاس کی زدمیں ہے۔ غریبوں کو اُمید چاہیے۔ انہیں بنیادی سہولتوں کے ساتھ بہترزندگی بسرکرنے کے لیے کچھ اوربھی درکار ہے۔ یہ وقت بے چینی اوربے یقینی کوپھیلنے سے روکنے کا ہے۔ اگرمعاملات درست کرنے میں فہم وفراست کامظاہرہ نہ کیاگیا توقوم پرستی اورانتہاپسندی کوفروغ ملے گا۔