کوٹا سسٹم سندھ کے لیے تباہ کن

1051

جب کسی معاشرے میں کسی طبقے کے ساتھ کھلی ناانصافی ہونے لگے تو یقین کرلینا چاہیے کہ معاشرے کو تعصب کی آگ میں جھونکا جارہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی یقینا قومی پارٹی ہے اور یہ طویل عرصے سے وفاق کی سیاست کرنے والی جماعت کا دعوٰی بھی کرتی ہے۔ لیکن تھوڑا سا غور کیا جائے تو یقین ہونے لگتا ہے کہ یہ وفاق کے نام پر صرف صوبہ سندھ کی سیاست کرتی ہے، مگر اسے کل بھی متعصب جماعت نہیں کہہ سکتے تھے اور آج بھی نہیں کہہ سکتے۔ پاکستان پیپلز پارٹی تو ’’قومی‘‘ پارٹی ہے لیکن ہم اسے سندھی قوم پرستوں کی جماعت کہیں تو کسی سندھی کو برا نہیں لگے گا مگر ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی کے مرکزی اور غیر سندھی یا پنجابی، پشتون اور بلوچ رہنماؤں کو یہ بات ناگوار گزرے۔ پاکستان پیپلز پارٹی بنیادی طور پر لاڑکانہ کی پارٹی ہے کیونکہ اس کی بنیاد لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے اور سابق صدر جنرل ایوب خان کے منہ بولے بیٹے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کو ڈیڈی کہتے تھے، یہی وجہ تھی کہ بھٹو ایوب خان دور کی کابینہ میں بھی شامل تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بھٹو کی سیاسی تربیت ایوب خان نے کی تھی۔
ایوب خان کے منہ بولے بیٹے ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی جب پہلی بار اقتدار میں آئی تو اس نے سندھ میں کوٹا سسٹم رائج کرکے پہلی بار سندھ کو تقسیم کیا یہ تقسیم اگرچہ شہری اور دیہی کے نام پر کی گئی لیکن دراصل یہ کراچی، حیدرآباد اور سکھر میں رہنے والے ان ’’شہریوں‘‘ کے لیے تھی جو پاکستان کے قیام کے لیے لاکھوں افراد کی جانوں کی قربانی دے کر بھارت سے ہجرت کرکے بڑی تعداد میں سندھ میں منتقل ہوئے تھے۔ انہی لوگوں نے اپنی تعلیمی اور دماغی صلاحیتوں سے سندھی، پنجابی، بلوچ اور پشتون قوموں میں تقسیم سر زمین کو ’’ایک قوم‘‘ کا ملک بنایا تھا۔ مگر ذوالفقار علی بھٹو نے صرف سندھیوں کو ’’اپنی قوم‘‘ سمجھتے ہوئے پورے سندھ میں شہری اور دیہی کی بنیاد پر کوٹا سسٹم رائج کیا جو آج تک جاری ہے۔ اس کوٹا سسٹم کے تحت میرٹ کا قتل سندھ کے تعلیمی ہی نہیں بلکہ تمام اداروں میں ہوتا رہا ہے اور اب تو سندھ کی طرح اس صوبے کے دارالحکومت میں کو بھی شہری اور دیہی میں تقسیم کردیا گیا ہے جس کا مقصد سندھی بھائیوں کو تعلیمی اداروں میں تعلیم کے ساتھ ملازمتوں کے لیے بھی آسانیاں فراہم کرنا ہے۔ یہ سب کچھ دراصل کوٹا سسٹم کے نام پر باصلاحیت اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو نہ صرف کالجوں و یونیورسٹیوں میں داخلے سے روکنا ہے بلکہ تمام سرکاری اداروں میں سندھیوں کو زیادہ سے زیادہ ملازمتیں فراہم کرنا ہے۔ گو کہ اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والوں کے لیے میرٹ بھی ہے اور کوٹا بھی۔ جو لوگ میرٹ پر نہیں آسکتے انہیں امتحانات اور ملازمتوں کے ٹیسٹ و انٹرویو میں فیل ہونے کے باوجود کوٹے کی بنیاد پر ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں داخلے کا موقع مل جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے رواں گیارہ سالہ دور میں کوٹے اور میرٹ کے خلاف بھی بہت کچھ چل رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں سندھ سیکرٹریٹ اب ’’لاڑکانہ‘‘ کی شکل اختیار کررہا ہے۔ نااہل لیکچرار کا اندرون سندھ کے تعلیمی اداروں سے کراچی میں تقرر کرنے کا سلسلہ عروج پر ہے جس سے مقامی اساتذہ کے ساتھ طالب علم بھی تشویش کا شکار ہیں سوال یہ ہے کہ صدیوں سے آباد سندھ کے سندھی اگر تعلیم اور اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں مطلوبہ سہولت اور وسائل ہونے کے باوجود پیچھے ہیں تو اس میں کسی کا کیا قصور ہے؟۔ اگر 72 سال بعد بھی سندھی لیڈرز مسلسل حکومتوں میں رہنے کے باوجود اپنے سندھی بھائیوں کی ذہنی اور تعلیمی صلاحیت نہیں بڑھا سکے اور ان کے لیے بہتر تعلیم اور ملازمت کے مواقع پیدا نہیں کرسکے تو اس میں کسی اور کا کیا قصور ہے؟ یہ سراسر ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے اراکین میں بھی اکثریت ان افراد کی ہوتی ہے جو کوٹے کی بنیاد پر تعلیم اور ملازمتیں حاصل کرتے ہیں۔ تب ہی یہ شکایت عام ہے کہ سندھ کے بیش تر اداروں اور سندھ پبلک سروس کمیشن میں ’’کوٹا سائیں کوٹا‘‘ کے تحت سب کچھ چل رہا ہے۔ سندھ کے مختلف محکموں کے 70 سیکرٹریز میں سے صرف چھ یا سات غیر سندھی ہیں۔ دیگر تو کراچی کی گلیوں اور سڑکوں سے بھی واقف نہیں ہوںگے۔ سندھ حکومت سرکاری ملازمتوں کے لیے صرف سندھیوں کو ترجیح دینے کے واسطے جو کچھ کررہی ہے اس کا اندازہ اس نوٹیفیکشن سے لگایا جاسکتا ہے۔
6 فروری کو سندھ حکومت کے محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن نے ’’Recruitment against the post of BS 5 to BS 15‘‘ (گریڈ 5 تا 15 تک بھرتیاں) کے عنوان سے نوٹیفیکشن جاری کیا۔ جس میں واضح کیا گیا ہے کہ ان اسامیوں کے لیے میٹرک، انٹر اور گریجویٹ کی سطح پر تین ٹیسٹ ہوںگے اور یہ ٹیسٹ انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سکھر میں ہوںگے۔ نوٹیفیکشن کے مطابق صوبے میں گریڈ 5 سے 15 کی اسامیوں پر بھرتیوں کا عمل شروع کردیا گیا ان کا ٹیسٹ آئی بی اے سکھر لے گا اس مقصد کے تحت صوبے میں تمام محکموں میں خالی اسامیوں کے اعداد وشمار فوری طور آئی بی اے سکھر کو دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ نوٹیفیکشن کے مطابق گریڈ ایک تا 4 تک کی آسامیوں پر براہ راست بھرتیاں ضلعی ریکروٹمنٹ کمیٹی کے ذریعے ہوںگی۔ سکھر آئی بی اے کے ذریعے بھرتیوں کے نوٹیفیکشن سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ یہ بھرتیاں صرف اندرون سندھ کے لوگوں کو ملازمتیں فراہم کر کے لیے دی جارہی ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اندورن سندھ کے لیے ان اداروں میں بھرتیاں کرنے کے انہیں شہری اداروں میں کھپایا جارہا ہے۔ جو معروف سروسز رولز کے خلاف بھی ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے نئے چیف جسٹس گلزار احمد سے لوگوں کو دیگر اقدامات کے ساتھ یہ بھی امید ہے کہ وہ سندھ میں کوٹا سسٹم کے تحت ہونے والی ناانصافیوں اور اندرون سندھ کی اسامیوں کے لیے کوٹے کی بنیاد پر ملازمتیں حاصل کرکے کراچی کے اداروں یا مختلف محکموں میں تقرر کرانے کے بڑھتے ہوئے سلسلے کا نوٹس بھی لیں گے تاکہ کراچی اور حیدرآباد کی اسامیوں کے لیے بھرتی ہونے والے افراد کے ساتھ ناانصافی کا سلسلہ ختم ہوسکے۔ اگر سختی سے اہلیت یا میرٹ کا اصول اپنایا جائے تو اس میں سندھی بھائیوں کا بھی فائدہ ہے جو محنت اور تعلیم پر توجہ دیں گے اور صرف کوٹا پر بھروسا کرکے نہیں بیٹھے رہیں گے۔ یہ کوٹا سسٹم 73ء کے آئین میں صرف 10 سال کے لیے نافذ کیا گیا تھا مگر 47 سال سے جاری ہے۔ کوٹا سسٹم صرف سندھ میں ہے، کسی اور صوبے میں نہیں۔ سندھ اور سندھی بھائیوں کے خیرخواہ یاد رکھیں کہ کوٹا سسٹم نالائقوں میں اضافہ کررہا ہے۔