متنازع امریکی اعلان اور فلسطینی اتھارٹی کے فیصلے

210

مرکز اطلاعات فلسطین
گزشتہ ماہ امریکا نے مشرق وسطیٰ کے لیے اپنے نام نہاد امن منصوبے ’’صدی کی ڈیل‘‘ کا اعلان کیا تو اس پر فلسطینی اتھارٹی سمیت دنیا بھر خصوصاً مسلم ممالک کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا۔ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے کہا گیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ طے معاملات بہ شمول اوسلو سمجھوتے کے تمام معاہدے ختم کررہی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے عالم اسلام اور عرب اقوام سے اپیل کی گئی کہ وہ امریکا کے سنچری ڈیل منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے فلسطینیوں کا ساتھ دیں۔
فلسطینی اتھارٹی کے وزیر برائے سول امورحسین الشیخ نے الجزیرہ ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ فلسطینی اتھارٹی 1993ء میں طے پائے اوسلو سمجھوتے سمیت تمام معاہدوں کو ختم کرنے کی تیاری کررہی ہے۔ تاہم دوسری طرف عملاً فلسطینی اتھارٹی نہ صرف اسرائیل کے ساتھ سیکورٹی اور انٹیلی جنس شعبے میں مدد کررہی ہے بلکہ امریکا کے صدی کی ڈیل منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے اس کی مدد گار اور سہولت کار ثابت ہو رہی ہے۔ مرکز اطلاعات فلسطین کی ایک رپورٹ کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے قوم کی صفوں میں یکجہتی کے لیے کی جانے والی مساعی کو سبوتاژ کیا جا رہا ہے۔ فلسطینی شہریوں کی سیاسی بنیادوں پر پکڑ دھکڑ اور حراستی مراکز میں انہیں تشدد کا نشانہ بنانے اور فلسطینیوں کے تعاقب میں اسرائیلی فوج کی بھرپور مدد کی جا رہی ہے۔
قول و فعل میں تضاد
تجزیہ نگار ابراہیم المدہون نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ فلسطینی اتھارٹی کے عزم اور سیاسی بیانیے میں صاف تضاد ہے، جو محمود عباس کے قول و فعل میں پایا جا رہا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ طے پائے معاہدے ختم کرنے کے دعوے اپنی جگہ مگر عملاً اسرائیل کے ساتھ سیکورٹی تعاون میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے انٹیلی جنس ادارے قابض صہیونی ریاست کے جاسوس اداروں کے دست وبازو بنے ہوئے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کے افسران براہ راست اسرائیلی ریاست کی وفاداری میں کام کررہے ہیں۔ وہ اسرائیل کے نقشے میں رنگ بھرتے اور اسرائیلی فوج کی طرف سے دی گئی مہمات میں حصہ لیتے ہیں، حالاں کہ فلسطینی نیشنل کونسل اور ایگزیکٹو کمیٹی دونوں اسرائیل کے ساتھ سیکورٹی تعاون ختم کرنے پر زور دے چکے ہیں۔ایک دوسرے سوال کے جواب میں المدہون نے کہا کہ اس وقت غرب اُردن میں اسرائیلی فوج کے خلاف نبرد آزما فلسطینیوں کو رام اللہ اتھارٹی کی معاونت ملنی چاہیے مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ فلسطینی سیکورٹی اور انٹیلی جنس ادارے اسرائیل کو تکلیف پہنچانے والے کسی بھی مزاحمتی عمل کو روکنے میں دشمن کی مدد کررہے ہیں۔
سیاسی جرم
غرب اُردن میں شہریوں کی فریڈم کمیٹی کے چیئرمین خلیل عساف نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی کے سیکورٹی اداروں کے ہاتھوں سیاسی بنیادوں پر شہریوں کی گرفتاریوں کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو صرف اس لیے حراست میں لینا کہ ان کا تعلق فلسطینی اپوزیشن جماعتوں سے ہے، ‘سیاسی جرم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ وقت میں فلسطینیوں کی صفوں میں اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے جب کہ شہریوں کی گرفتاریاں اور سیاسی انتقام فلسطینی قوتوں کی صفوں میں پائی جانے والی خلیج کو مزید گہرا کررہا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی نہیں بدلی
تجزیہ نگار عبدالستار قاسم نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل کے حوالے سے موقف میں تبدیلی کی بات خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے سیکورٹی اداروں اور اس کے اعلیٰ عہدیداروں کی ذمے داریوں میں اسرائیلی ریاست کا دفاع شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ طے پائے معاہدوں میں کوئی تبدیلی نہیں کرے گی کیونکہ اس طرح کے کسی بھی اقدام سے فلسطینی اتھارٹی کو مشکلات کا سامنا کرنے کا اندیشہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اپنا موقف نہیں بدل سکتی ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کےسربراہ محمود عباس کہہ چکے ہیں کہ وہ غیرمسلح ریاست چاہتے ہیں۔ وہ فلسطینی مزاحمتی قوتوں کی مسلح جدو جہد کے بھی خلاف ہیں مگر ان کا یہ موقف فلسطینی قوم اور قومی وحدت کے خلاف ہے۔