دھرنے کا جھرنا کیوں بہہ نکلا

479

 

ملک میں کیا ہونے جارہا ہے کون ساری ڈوریں ہلا رہا ہے کیا پھر خلائی مخلوق حرکت میں آگئی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے 27 اکتوبر کو آزادی مارچ کا اعلان کردیا۔ برسوں سے دینی قوتوں کو قابل ذکر نہ سمجھنے والے میڈیا نے ان کے مارچ اور دھرنے کو آسمان پر رکھ رکھا ہے۔ حمایت اور مخالفت ہر پہلو سے اسی پر بات ہورہی ہے، الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا دھرنے اور مولانا فضل الرحمن سے بھرا پڑا ہے۔ بات صرف مولانا کے دھرنے کی نہیں ہے بلکہ بہت ساری چیزیں ایک ساتھ چل رہی ہیں۔ عدالتیں درخواستیں لے کر تاریخ پر تاریخ دیتی ہیں لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایسا نہیں کیا بلکہ حکومت کی جانب سے دھرنا روکنے کی درخواست یہ کہہ کر نمٹادی کہ احتجاج بنیادی حق ہے، دوسرے شہری متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔ دھرنے والوں نے قانون کی خلاف ورزی نہیں کی، مفروضے پر کوئی فیصلہ نہیں دے سکتے۔ اس فیصلے کا اثر یہ ہوا کہ حکومتی صفوں میں خوف اور اپوزیشن کے حلقوں میں اعتماد پیدا ہوگیا ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھیں تاجروں کے ایف بی آر کے دفتر جانے کے موقع پر پولیس سے جھڑپ کیوں ہوگئی۔ اگر تاجر احتجاج کرکے منتشر ہوجاتے تو دو تین کالمی خبر بنتی لیکن پولیس لاٹھی چارج نے خبر کو بڑا بنادیا۔ اس میں بھی اہم بات یہ ہے کہ تاجروں نے 28 اور 29 اکتوبر کو ہڑتال کی کال دے دی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن 27 کو چلیں گے اور 31 کو اسلام آباد میںد اخل ہوں گے۔ تاجر 28 اور 29 کو ہڑتال کریں گے۔ ایک خبر ہے کہ قبائلی بھی اسلام آباد کا رُخ کرنے والے ہیں۔ اچانک نواز شریف کی مشکیں بھی کچھ ڈھیلی ہوتی نظر آئی ہیں۔ لگتا ہے کہ دھرنے کا جھرنا اچانک بہنے لگا ہے، لیکن یہ سب کچھ اچانک تو نہیں ہوتا، اگرچہ مشترکہ اپوزیشن کے ابتدائی اجلاسوں میں یہی تاثر تھا کہ سب مل کر حکومت کے خلاف سڑکوں پر آئیں گے لیکن شہباز کے پر کٹ گئے دوبارہ نکلنے میں دیر لگے گی۔ زرداری کا خاندان بھی مشکل میں ہے اس لیے وہ گھر داری میں لگے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود اپوزیشن کی کسی جماعت نے مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کی مخالفت نہیں کی۔ جیو ٹی وی کے سلیم صافی نے ایک پروگرام میں مولانا عطا الرحمن کو بلایا اور ان سے انٹرویو کے دوران تقریباً تمام اہم حتیٰ کہ غیر اہم پارٹیوں کے سربراہوں کو لائن پر لیا بلکہ پی ایس پی کے سربراہ مصطفی کمال کو بھی بلالیا اور سرتوڑ کوشش کی کہ کوئی پارٹی لیڈر مخالفانہ جملہ ہی بول دے لیکن جو مخالف ہیں انہوں نے بھی مخالفت نہیں کی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے تو کھل کر حمایت کی۔ سراج الحق صاحب نے احتجاج کو مولانا فضل الرحمن سمیت سب کا جمہوری حق قرار دیا اور حکومت کو یاد دلایا کہ اس نے تو دعویٰ کیا تھا کہ اپوزیشن آئے ہم کنٹینر دیں گے، پانی پلائیں گے، چائے پلائیں گے۔ تو اب وہ اپنے وعدے کو پورا کریں گھبرا کیوں رہے ہیں۔
ایک طرف تو یہ حالات ہیں کہ اپوزیشن، مولانا فضل الرحمن کی پشت پر ہے۔ میاں نواز شریف چوں کہ پہلے ہی جیل میں ہیں اس لیے انہیں مزید کچھ کھونے کا خدشہ نہیں ہے اس لیے بھرپور حمایت کا اعلان کردیا اور اپنے کارکنوں کو دھرنے میں شرکت کی ہدایت بھی کردی ہے۔ دوسری طرف حکومت اپنے شدید غصے کے باوجود دھرنے یا آزادی مارچ کو روکنے میں کامیاب نہیں ہے بلکہ ہر آنے والا دن اس مارچ کی مہم کو مہمیز دے رہا ہے اور حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ کے پی کے کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے دھمکی دی ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو صوبے سے نکلنے نہیں دیں گے۔ پوری حکومت اور اس کے وزرا ایک ہی قوالی گارہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن مدرسوں کے بچوں کو احتجاج میں لائیں گے۔ تو اس میں غلط کیا ہے۔ جب عمران خان کے کنٹینر کے ساتھ ڈاکٹر طاہر القادری کے منہاج القرآن کے اسکولوں کے طلبہ، اساتذہ حتیٰ کہ چپڑاسیوں کی بھی حاضری ہوتی تھی اور ایک میلہ لگا ہوا تھا تو کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ عمران خان کے 126 دن کنٹینر فلم میں ناچ گانے مخلوط محفلیں اس قوم کی بیٹیوں کی مدد سے سجائی جارہی تھیں ہمارے وزرا کو ذرا بھی شرم نہیں آرہی، مدرسے کے طلبہ کو بھی سیاست اور احتجاج کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ پی ٹی آئی کے کسی رہنما کو یا کسی اور سیاسی جماعت کے کارکنوں کو۔ ہاں قوم کی بیٹیوں کو چوراہوں پر نچانا اور اپنے ہی دھرنے میں ان کی عزت خراب کرنا صرف پی ٹی آئی کا کمال تھا۔ پی ٹی آئی کے ہر وزیر کی زبان پر یہی بات ہے کہ مدرسے کے طلبہ کو سیاست کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی منزل اسلام نہیں اسلام آباد ہے۔ تو کیا عمران خان نے 126 دن تک دھرنا حج عمرے کے لیے دیا تھا۔ وہ اپنی منزل پاچکے اور اب اس مکافات عمل کا شکار ہونے جارہے ہیں جس کی وہ ضد کرتے تھے۔ اس وقت بھی انہیں توجہ دلائی گئی تھی کہ معاملات پارلیمنٹ میں طے کریں لیکن اس وقت ان کے پاس صرف تیس نشستیں تھیں۔ اب مولانا فضل الرحمن کو نشستیں ہارنے کا طعنہ دیا جارہا ہے اور یہ طعنے بھی کون دے رہا ہے جو پارلیمنٹ پر لعنت بھیجا کرتے تھے۔ ان کے وزیر شیخ رشید کہا کرتے تھے آگ لگادو جلا کر راکھ کردو۔ تو پھر اس وقت جمہوریت اور شرم و حیا کہاں گئی تھی۔ اب جو کچھ ہونے جارہا ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ عمران خان کو وہی صورت حال درپیش ہوگی جو نواز شریف کو تھی۔
اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ قومی سطح پر کیا سوچا جارہا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس دھرنے کا زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو ہوگا۔ اگر یہ کامیاب ہوتا ہے اور حکومت گرتی یا ہلتی ہے۔ جیسا کہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ حکومت کے جانے تک نہیں جائیں گے۔ اگر حکومت گئی تو پنجاب میں (ن) لیگ اور سندھ میں پی پی بھرپور فائدہ اٹھائے گی۔ ہاں مولانا فضل الرحمن کو بھی کے پی کے اور بلوچستان میں فائدہ ہوگا۔ تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ کیا مولانا ان ہی دونوں پارٹیوں کو فائدہ پہنچانے نکل کھڑے ہوئے ہیں جن کو عمران خان چور ڈاکو کہتے ہیں اور ان کے خلاف مقدمات کی بھرمار ہے۔ ہاں اس کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔ کچھ باتوں کو سامنے رکھ کر موازنہ کرنا ہوگا۔ مولانا فضل الرحمن کی سیاست سے اختلاف کیا جاسکتا ہے بلکہ بہت سے معاملات میں اختلاف کیا جانا چاہیے۔ خصوصاً پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو فائدے پہنچانے کے حوالے سے لیکن ایک بیلنس شیٹ بھی بنائی جائے تو بہتر ہوگا۔ اس بیلنس شیٹ کے مطابق سب سے بڑا الزام نواز شریف کے مخالف یہ لگاتے ہیں کہ وہ مودی کے یار تھے۔ لیکن پیپلز پارٹی نے بھی بھارتی حکمرانوں سے محبت کا مظاہرہ کیا اور پی ٹی آئی نے بھی وہی کیا۔ اس معاملے میں تینوں برابر ہیں۔ سودی کاروبار کے معاملے میں نواز شریف سود کے حق میں عدالت چلے گئے۔ پیپلز پارٹی بھی اسی بنیاد پر معیشت چلاتی رہی۔ لیکن اس معاملے میں پی ٹی آئی نے سب کو مات دے دی ہے۔ پوری معیشت سرتاپا سود میں ڈوب چکی ہے۔ یہاں سے فرق شروع ہوتا ہے۔
عمران حکومت پر سب سے بڑا الزم جس کا ثبوت وہ خود بار بار فراہم کرتے ہیں مذہب بیزاری کا اور اسلام دشمنوں کی سرپرستی کا ہے۔ حکومت کے وزرا اسلام کے خلاف ہر وقت ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں ان کا لیڈر مدینہ کی ریاست کا نام لیتا ہے اور فواد چودھری سے لے کر عاشق اعوان تک سب مولانا یا مذہبی جماعت کے نام پر اسلام کو بُرا کہتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی بھی کم نہیں رہی لیکن شیری رحمن حدود آرڈیننس کے خلاف بات کرکے ملک میں ٹک نہیں سکیں انہیں کافی عرصے باہر رہنا پڑا۔ یہاں تک کہ ان کی حکومت ختم ہوگئی۔ لیکن پیپلز پارٹی کو جو اعزاز حاصل ہے پی ٹی آئی نے اس کے الٹ کام کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے بانی نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوایا تھا اور پی ٹی آئی کے بانی اور وزیراعظم قادیانیوں کی سرپرستی کے ریکارڈ قائم کررہے ہیں، کبھی قادیانی مشیر کا تقرر ہوتا ہے تو کبھی کوئی یہ کہتا ہے کہ قادیانی بھی مسلمان ہیں۔ نواز شریف بھی قادیانیوں کو ہمارے بھائی کہہ چکے تھے۔ کشمیر کے حوالے سے زبانی دعوے سب ہی کرتے رہے لیکن بھارت نے عمران کے دور میں جو بڑا کام کیا ہے اس امتحان میں عمران خان فیل ہوگئے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ پاکستان نے کشمیر سرنڈر کردیا ہے۔ معاشی پالیسیوں کے اعتبار سے تاجر صنعتکار، دکاندار، تنخواہ دار سب ہی پریشان ہیں۔ ڈالر کو پَر نہیں راکٹ لگ گئے۔ سونا مہنگا، پٹرول مہنگا، بجلی مہنگی، گیس مہنگی، لاقانونیت کا دور دورہ چھوٹا بڑا کوئی مقدمہ حل نہیں ہوتا، چار سو افراد کا قاتل پولیس والا بھی آزاد، 260 لوگوں کو زندہ جلانے والے بھی آزاد، درجنوں مقدمات والے حکومت میں یا میئر بنے ہوئے ہیں۔ ایسے میں لوگ مولانا فضل الرحمن کی سیاست سے اختلاف ایک طرف رکھ کر اس حکومت کے خلاف احتجاج کو کامیاب ہی ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک اور سوال ہے اور باعث حیرت ہے کہ اگر عمران خان سلیکٹڈ ہیں اور بالکل ہیں… تو پھر یہ دھرنا کون کس کے خلاف کامیاب کروا رہا ہے۔