قانون کے بجائے پرچی کی حکمرانی؟

768

امریکا میں سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے چیرمین سینیٹر باب مینینڈز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان میں شہریوں بالخصوص دہری شہریت رکھنے والے افراد کی پکڑ دھکڑ افسوسناک ہے۔ وائس آف امریکا کو جاری کیے گئے بیان میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال تشویشناک ہے اور حالیہ عرصے میں ہونے والی من مانی گرفتاریاں قابل مذمت ہیں۔ اپنے نظریات کا اظہار کرنے والے افراد کی من مانی گرفتاریاں ناقابل برداشت اور جمہوری اقدار سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ تمام پاکستانیوں کے آئین میں درج حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اطلاعات کے مطابق کئی افراد کو باضابطہ الزامات کے بغیر حراست میں رکھا گیا ہے۔ ان میں سے کئی افراد دہری شہریت رکھنے والے امریکی ہیں انہیں کم ازکم قانونی نمائندگی تک رسائی حاصل نہیں۔ امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ کا یہ بیان اپنی نوعیت کا پہلا احتجاجی تبصرہ نہیں بلکہ اس سے پہلے تواتر کے ساتھ امریکیوں کی طرف سے پاکستان کے رواں سیاسی بحران پر کھلے انداز میں اظہار خیال کیا جارہا ہے۔ اس سے پہلے امریکی کانگریس کے درجنوں ارکان نے سیکرٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن سے بھی پاکستان کی صورت حال میں اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد تو بہت آگے نکل کر پاکستان کی سیاسی صورت حال پر تبصرہ آرائی میں مصروف ہیں۔ ایک اور رکن کانگریس شیلا جیکسن بھی اس حوالے سے اپنا موقف دے چکی ہیں۔ یوں امریکا اور پاکستان کا بحران ایک ساتھ چل رہا ہے۔ اس بحران کے آغاز میں عمران خان نے امریکی اہلکار ڈونلڈ لو کا سائفر لہرا کر اپنی حکومت کے خلاف سازش کا بیانیہ اپنایا تھا۔ جس کے بعد سے پاکستان کے بحران میں امریکا کا ذکر آتا ہی رہا ہے۔ ایک سال کے بعد یہ مداخلت ایک نئے انداز سے سامنے آئی ہے۔ اب امریکا سے عمران خان کی حمایت میں بہت
طاقتور آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔ سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ کی آواز ان میں سب سے زیادہ بلند ہے۔
امریکا میں اس وقت ڈیموکریٹس کی حکومت ہے۔ ڈیموکریٹس کے دور میں انسانی حقوق اور شہری آزادیوں پر زور دیا جاتا ہے۔ ڈیموکریٹس کسی ملک میں غیر جمہوری حکومتوں کے قیام پر بھی خاموش نہیں رہتے۔ ان کے اندر ایک دبائو اس حوالے سے اپنا کام کرتا رہتا ہے۔ اس کے برعکس ری پبلکن ان باتوں پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ انہیں جمہوری یا آمرانہ حکمرانوں کی حیثیت سے اتنی ہی غرض ہوتی ہے جتنی کہ امریکی قانون میں اجازت ہوتی ہے۔ ڈیموکریٹس کے لیے پاکستان کی موجودہ صورت حال میں کلی طور پر بے حس ہوجانا ممکن نہیں ایسے میں جب کہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانی بھی اس بحران میں کسی نہ کسی انداز سے شامل ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت جس اسٹائل کے تحت کام کر رہی ہے۔ یہ پاکستان کے لیے زیادہ نیک نامی کا باعث نہیں۔ اس طرز حکمرانی سے پاکستان کا امیج جو پہلے ہی اچھا نہیں مزید خراب ہو رہا ہے۔ بالخصوص خواتین قیدیوں کے ساتھ ہونے والے واقعات نے اس تاثر کو گہرا کیا ہے کہ حکمران طبقات سیاست میں خواتین کی اس قدر بڑے پیمانے پر دلچسپی اور سرگرمی سے خوش نہیں۔ اس لیے خواتین کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے حکومت زیادہ سخت گیری اپنائے ہوئے ہے۔ خواتین کی سیاست سے آمد سے وہ ’’اسٹیٹس کو‘‘ ٹوٹنے کے خدشات ہیں جو پچھتر سال سے الیکٹبلز نامی مخلوق کے سہارے قائم ہے۔ حالات یہی رہے تو الیکٹبلز کا فسوں بھی ٹوٹ سکتا ہے اور ان کی پچھتر سالہ بالواسطہ حکمرانی بھی ختم ہو سکتی ہے۔ جب نوجوان ان بھاری بھرکم شخصیات سے باغی ہوجائے گا تو الیکٹبلز کس کام کے رہیں گے؟ یہ وہی الیکٹبلز ہیں جن کی واپسی کا مطالبہ پی ڈی ایم ہیئت مقتدرہ سے کرتی چلی آرہی تھی۔ خواجہ آصف نے اپوزیشن کے دنوں میں کہا تھا کہ ہمارا اسٹیبلشمنٹ سے صرف یہ مطالبہ ہے کہ اپنے ان پچاس ساٹھ لوگوں کو عمران خان کی حمایت سے دست کش کر کے واپس بلائے جو اس حکومت کا سہارا دیے ہوئے ہیں۔ حق بہ حق دار رسید کے مصداق اب یہ پچاس ساٹھ تو کیا ایک سو سے زیادہ الیکٹبلز واپس جا چکے ہیں اور الیکشن کے لیے اپنے چاقو چھریاں تیز کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود اگر کام نہ بنا تو یہ یکسر ایک نئی صورت حال ہوگی۔ یہ پاکستانی سیاست کی نئی حرکیات کا آغاز ہوگا۔ جیلوں میں پڑے یہ کیسے مجرم ہیں جو ایک پرچی پڑھ کر قانون کی گرفت سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ ایک پرچی نے قانون پر سبقت اور فوقیت حاصل کر لی ہے۔ پرچی پڑھتے ہوئے قانون شکنوں کے تمام جرائم معاف ہوجاتے ہیں اور وہ دوسرے ہی دن سیاست میں حصہ لینے لگتے ہیں۔ حقیقت میں یہ حکومت کا بیانیہ کمزور کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ اس سے یہ تاثر گہرا ہورہا ہے کہ ملک میں قانون کے بجائے اس وقت پرچی کی حکمرانی ہے گویا کہ نظریہ ٔ ضرورت کی حاکمیت ہے۔ ایک پرچی قانون پر بھاری پڑ گئی ہے۔ اگر کوئی مجرم ہے تو وہ ایک فوٹو اسٹیٹ کاغذ کو پڑھتے ہی پاک پوتر ہوجاتا ہے۔ ان مضحکہ خیز رویوں سے پاکستان اور پاکستان کے قانون کا مذاق بن رہا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مکمل ڈیڈ لاک پیدا ہوچکا ہے۔ دونوں متحارب فریقوں کے درمیان کوئی نقطہ ٔ اتصال بنتا اور قائم ہوتا نظر نہیں آتا۔ عمران خان کی طرف سے مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا جس پر حکومت نے ترنت جواب دیا کہ وہ مذاکرات نہیں کریں گے۔ یہ وہی رویہ ہے جو موجودہ اپوزیشن نے حکومت ہوتے ہوئے
اپنایا تھا۔ عمران خان صاحب ’’چوروں کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا‘‘ کے مسلسل اعلانات کرکے اپوزیشن جماعتوں کو دھتکار رہے تھے۔ شاید یہ ان کے اعتماد کی بلندی کا اظہار تھا اور پاکستان جیسے ملک میں کسی سویلین تو کیا کسی فوجی حکمران کو بھی اس قدر بڑھی ہوئی خود اعتمادی راس نہیں آئی۔ عمران خان جب اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے اور ان کے ساتھ نہ بیٹھنے کے اعلانات کر رہے تھے تو اپوزیشن ملکی اسٹیبشلمنٹ کے ساتھ پردوں کے پیچھے لندن سے راولپنڈی تک مذاکرات میں مصروف تھی۔ خواجہ آصف نے ایک بار اسمبلی میں اسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ تم سے مذاکرات کون کر رہا ہے ہم تو ان سے مذاکرات کر رہے ہیں جب یہ کامیاب ہوں گے تو تمہارے سر پرآسمان گرے گا۔ بعد میں یہی بات صحیح ثابت ہوئی۔ عمران خان کو علم نہیں ہوا اور اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ میں مذاکرات کامیاب ہو چکے تھے جس کے نتیجے میں حکومت کی تبدیلی عمل میں آگئی۔ اب مذاکرات کے معاملے میں یہی روش بیتے کل کی اپوزیشن اور آج کی حکومت نے اپنار کھی ہے۔ حکومت عمران خان کی مذاکرات کی پیشکش کو اسی طرح رعونت سے مسترد کررہی ہے جس طرح ڈیڑھ سال پہلے عمران خان کیا کرتے تھے۔ حکومت اس وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے اور انہیں یہ زعم ہے کہ وہ ایک صفحے پر ہے۔ یہ زعم بے جا بھی نہیں کیونکہ حکومت اور ہئیت مقتدرہ اس وقت ایک صفحے پر ہے مگر کچھ ہی عرصہ پہلے اس صفحے پر ایک اور طاقت کا نام تھا اور اسے بھی زعم تھا کہ وہ ایک صفحے پر ہے۔ اس ایک صفحے کی خود اعتمادی نے عمران خان کو تنہا کر دیا تھا۔ اب پی ڈی ایم کی حکومت وہی غلطی دہرا رہی ہے۔ وہ ایک صفحے کی سہولت کے باعث حددرجہ خود اعتمادی کا شکار ہے۔ حکومت کو یہ غلط فہمی ہے کہ یہ ایک صفحہ تاحیات چلے گا۔ پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں صفحہ پھٹتے زیادہ دیر نہیں لگتی۔