نیا نظریۂ جنس اور اس کی لسانی بنیادیں (آخری حصہ)

563

اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ سیکس اور جینڈر کے الفاظ کو الگ کرنے والوں نے کوئی جواز تو دیا ہو گا۔ تو یہ جواز کسی طبی تحقیق سے نہیں آیا بلکہ فلسفے اور سماجی علوم کا سہارا لیا گیا۔ بیسویں صدی کے وسط میں فیمینسٹ فلسفیوں نے ان دونوں کو الگ قرار دینا شروع کر دیا تھا۔ ایسا اس لیے ہوا کہ فیمینزم بھی ان ہی چیزوں پر ضرب لگاتا ہے جن پر نظریہ ٔ جنس ضرب لگاتا ہے۔ مردوں اور عورتوں کی الگ شناخت اور ان کا معاشرے میں علٰیحدہ کردار دونوں تحریکوں کا مشترک نشانہ تھا۔ لہٰذا 1940ء کی دہائی میں سیمون ڈی بیو ویر سے لے کر 1970ء کی دہائی میں کیٹ ملیٹ تک کئی فیمینسٹ فلسفیوں نے سیکس اور جینڈر کو الگ قرار دیا۔ ساتھ ساتھ سماجی علوم کے میدان میں بھی مغربی فلسفی اس پر طبع آزمائی کر رہے تھے۔
ایسے میں دو ماہرین ایسے تھے جن کا کام اس نظریے کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ رابرٹ اسٹولر ایک سائکا ٹرسٹ تھا۔ جان منی(John Money) سماجی علوم کے شعبے سے تعلق رکھتا تھا اور نفسیات دان تھا۔ اس کی تحقیق نے سیکس اور جینڈر کے الگ ہونے کے نام نہاد سائنسی ثبوت دیے۔ ان ثبوتوں کی کوئی حقیقت نہیں تھی۔ درحقیقت جان منی ایک فراڈیا اور ایک درندہ تھا جس کی شخصیت کے تمام تاریک پہلوئوں کو یہاں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ صرف اس کی جعلی تحقیق کا محدود تذکرہ ہو سکتا ہے۔
کینیڈا میں پیدا ہونے والے جڑواں بچوں بروس اور برائن کو پیدائش کے کچھ ماہ بعد ختنے کی غرض سے اسپتال لایا گیا جہاں ڈاکٹروں کی غلطی کے سبب بروس کے اعضاء ایک طبی حادثے میں مجروح ہو گئے۔ بروس کے مستقبل کے لیے فکر مند والدین جان منی کے ہتھے چڑھ گئے۔ یہ مسئلہ دیکھ کر اس شیطان صفت انسان کے ذہن میں ایک منصوبہ آیا۔ اس کی نظر میں یہ اچھا موقع تھا یہ ثابت کرنے کے لیے کہ جینڈر کا تعین سوچ سے ہوتا ہے۔ اس وقت تک دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرتی تھی کہ جنس ڈی این اے سے ہی طے ہوجاتی ہے۔ بچہ لڑکوں جیسا رویہ اختیار کرے گا یا لڑکیوں جیسا، یہ چیزاس کی جبلت میں ہوتی ہے۔ مگر جان منی کی رائے یہ تھی کہ جینڈر اور سیکس الگ ہیں۔ جینڈر جبلت میں نہیں ہوتا۔ اگر بچے کو بجائے یہ بتانے کے کہ وہ لڑکا ہے، یہ سوچ دی جائے کہ وہ لڑکی ہے اور اس کی لڑکیوں کی طرح پرورش کی جائے، تو وہ لڑکی ہی بن جائے گا۔ اس کو ثابت کرنے کے لیے اس نے بروس کو آپریشن کے ذریعے بظاہر لڑکی بنا دیا اور اس کی لڑکی کی طرح پرورش ہونے لگی۔ جبکہ اس کے بھائی کی ایک لڑکے کی طرح پرورش ہوتی رہی۔ ان کے تیرہ سال کی عمر کو پہنچنے تک جان منی دونوں بچوں کا مشاہدہ کرتا رہا۔ اس تجربے نے سائنسی اخلاقیات کے پرخچے اڑا دیے۔ وہ بچوں سے زبردستی فحش حرکات کرواتا۔ اس نے ان پر جو شیطانی تجربات کیے وہ ناقابل بیان ہیں۔
مگر بروس نے کبھی ایک لڑکی کی شناخت کو قبول نہیں کیا۔ اس کو یہی بتایا گیا تھا کہ وہ لڑکی ہے، پھر بھی اس کا رویہ اور عادتیں لڑکوں والی رہیں۔ ایک لڑکی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوششوں کے خلاف اس نے مزاحمت کی۔ یعنی یہ تجربہ بری طرح ناکام ہو گیا اور اس سے یہی ثابت ہوا کہ جنس انسان کی جبلت میں ہوتی ہے۔ اس کا تعلق سوچ سے نہیں ہوتا۔ مگر جان منی نے ڈھٹائی سے جھوٹے نتائج کا اعلان کر دیا کہ اس کا تجربہ کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے۔ سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچ گیا اور اس تحقیق کو جنس کے بارے میں علم کا ایک نیا باب سمجھا گیا۔ یہ تجربہ تب ختم ہوا جب بروس نے کہہ دیا کہ اگر اسے دوبارہ جان منی کے پاس لایا گیا تو وہ اپنی جان لے لے گا۔ اس کے بعد جب بروس کو یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ وہ ایک لڑکا ہے تو اس نے فوراً اپنی اصل جنس کی طرف لوٹنے کا فیصلہ کر لیا۔
اس تجربے کی ناکامی پر تقریباً تیس سال تک پردہ پڑا رہا۔ جب یہ معاملہ کھلا تو جان کولاپینٹو نامی ایک صحافی نے اس پر As Nature Made Him The Boy Who Was Raised as a Girl کے عنوان سے ایک کتاب لکھی اور اس پر دستاویزی فلمیں بنیں۔ مگر جان منی نے نہ معافی مانگی اور نہ ہی حقائق کی درستی کی۔ لبرل تہذیب سے اٹھتی سرانڈ کا اندازہ لگانے کے لیے یہی کافی ہے کہ مغرب آج بھی جینڈر کا تصور دینے اور ہم جنس پرستوں کی حمایت پر اس بدکردار مجرم کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔
بہت سے باطل نظریات کی خام سہی مگر فکری بنیادیں موجود ہیں۔ مگر نظریہ ٔ جنس کے دلائل عقل عام کے آگے خود زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ صرف الفاظ کے الٹ پھیر پر یہ نظریہ قائم ہے اور اسی لیے اس کی ایجاد کردہ زبان کا انکار ضروری ہے۔ جب تک ان لسانی بنیادوں کی جڑیں نہ کاٹی جائیں اس نظریے کا مقابلہ ممکن نہیں۔