!!گوادر کو حق دو

795

دنیا میں سب سے آسا ن کام ہے اپنے سر سے بلا کو ٹال دینا۔ بچپن سے آبادی گھٹائو، وسائل بڑھائو جیسے مبہم نعرے سڑکوں پر آویزاں دیکھتے آرہے ہیں۔ اب فواد چودھری نے نیا شوشا چھوڑا ہے کہ ملک میں وسائل اور مواقع کم ہیں، اس لیے نوجوان زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع تلاش کرنے باہر جائیں، پچھلے سال بھی 11 لاکھ بے روزگار اس عظیم مقصد کے لیے باہر جا چکے ہیں۔ چور ی، ڈاکے اور دیگر جرائم پر سزا ملتی تھی، لیکن اب کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ پرانی بات چھوڑیے، ہم نے بدقسمتی سے گزشتہ دو تین ماہ میں قتل و غارت کی بہت سی کاروائیاں دیکھی ہیں۔ ناظم جوکھیو کے قاتلو ں کو سزا ہوئی! نہ کراچی میں سندھ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری کے قاتلوں کو پکڑا گیا اور نہ ہی لاہور میں ملک شاہنوار کے دن دہاڑے قتل کی لرزہ خیز واردات پر قانون حرکت میں آیا۔ یاد رکھیں!! سزائیں اس لیے دی جاتی ہیں کہ لوگ عبرت حاصل کریں۔ ہمارے ہاں چلن یہ ہے کہ اگر کہیں غلطی سے کسی مجرم کو سزاملتی بھی ہے تو ضامن کورٹ روم ہی سے بااثر افراد کو چھڑا کر لے جاتے ہیں۔ اس کی واضح مثال گزشتہ دنوں بلیو ورلڈ سٹی کے سی ای او کی ہے جنہیں ان کے ذاتی غنڈے پولیس کی تحویل سے چھڑا کر لے گئے۔ ہمیں اندازہ بھی نہیں ہے کہ ہم کسی مجرم کو پکڑا کر ملزم بنانے کا سوچ ہی رہے ہوں تو بلیک میلنگ کے لیے کوئی ہماری ویڈیو منظر عام پر لے آئے اور پھر ہمیں نہ صرف کیس بلکہ پوری فائل ہی ردی کی ٹوکری میں ڈالنی پڑ جائے۔ ماضی قریب میں ہم مریم نواز اور جسٹس ثاقب نثار کی ویڈیوز ملاحظہ کر چکے ہیں۔
گزشتہ اور گزشتہ سے پیوستہ حکومتوں میں حالات تقریباً سازگار تھے۔ معاملہ فہمی عروج پر تھی۔ روزگار کے مواقع بھی تھے۔ انوسٹمنٹ اور زرمبادلہ میں ترقی ہو رہی تھی۔ مگر اب جو حالات ہیں وہ ناگفتہ بہ ہیں۔ پراپرٹی اور رئیل اسٹیٹ ہی کو دیکھ لیں۔ سی ڈی اے نے علیم خان کی پارک ویو سٹی کو اسلام آباد میں کام کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے جبکہ باقی سوسائٹیوں کے این او سی کینسل کر دیے ہیں۔ عمران خان نے ٹھیک کہا تھا کہ میں امیروں اور غریبوں کے لیے ایک ہی نظام بنا ئوں گا۔ اب ایسا ہے کہ ہر امیر تو اپنی چاہت کو حاصل کر لیتا ہے مگر غریب کے لیے بھی چونکہ وہی قانون ہے کہ اسے بھی چھین کر یا رشوت سے اپنا حق لینا ہے تو یہ استحقاق چونکہ غریب کو تو حاصل نہیں ہے اس لیے اس میں تو عمران خان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ امیروں کو کھلی چھوٹ اور غریبوں کو بھی کھلی چوٹ۔ حساب برابر۔ قرآن میں سود خور کے حوالے سے بڑی وعیدیں آئی ہیں مگر پاکستان میں حکمران سودی کاروبار میں شراکت اور حصو ل کے لیے آمادہ کرتے نظر آتے ہیں۔ حکومت وقت ارض وطن کو ایک ویسٹرن پرافٹ ایبل ادارے کے طور پر چلارہی ہے۔ حکومت کے تمام منصوبے کاغذوں، رپورٹوں، سوشل میڈیا پر چل رہے ہیں۔ حکومت جن خاندانوں کو بھی راشن، قرضہ، کھانایا ماہانہ بنیادوں پر پیسے دے رہی ہے یہ سب کا سب مختلف فلاحی تنظیموں کے آسرے پر ہورہا ہے۔ حکومت نے اخوت کیساتھ مل کر سود سے پاک قرضہ دینا شروع کیا ہے اور تین سال میں 10 سے 15 کروڑ کی غریب آبادی میں سے اب تک صرف 17,000 افراد کو قرضے فراہم کیے گئے ہیں۔
عمران خان کے تین سالہ دور اقتدار میں ہر پاکستانی پر قرضے کا بوجھ 1لاکھ 33 ہزار سے بڑھ کر 2 لاکھ 35 ہزار پر پہنچ گیا ہے۔ حکومت پاکستان کا قرضہ 50 کھرب روپے ہوگیا جس میں 20 کھرب کا اضافہ عمران خان حکومت کے صرف تین سال میں ہوا۔ کشکول توڑنے کے بجائے اس کا سائز ہی بڑھا دیا گیا۔ حکومت دوسری بار پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے سعودی عرب سے 3 ارب ڈالرز کی بھیک حقارت امیز شرائط کے ساتھ لینے پر آمادہ ہوئی ہے۔ لگتا ہے جیسے پورے ملک پر جمود طاری ہے۔ ہر طرف مہنگائی اور بے روزگاری کا فضاء ہے، لیکن کوئی سڑکوں پر کوئی نہیں ہے!!
مگر اب کی بار طاری جمود اور سکوت ٹوٹا ہے۔ خامشی نے اس وقت ضبط کے بندھن کو پاش پاش کر کے رکھ دیا جب بی بی سی، سی این این، فاکس اور اے بی سی جیسے بڑے اداروں نے بلوچستان کے مولانا ہدایت الرحمن کو بلوچستان کے حقوق کے لیے کھڑے ہونے اور بہت بڑی تعداد میں خواتین کو باہر نکالنے پر کوریج دی۔ ’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک کے روح رواں مولانا ہدایت کے ان جائز مطالبات ’’غیر قانونی ٹرالرنگ، بارڈر ٹریڈ، چیک پوسٹس اور شراب خانوں پر پابندی‘‘ کو فوراً تسلیم کرنا چاہیے۔ مولانا ہدایت الرحمن بلوچوں کے حقوق کے لیے 17 دن سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ اب اگر اس بار ملکی سیاست کے ایوانوں نے بلوچستان کے حقوق پر کان نہ دھرے، تو سمجھ لیجیے کہ پاکستان میں اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہونا مشکل ہو جائے گا۔ گزشتہ 50 سال کی توانا آواز مولانا ہدایت الرحمن کے جائز مطالبات کو تسلیم کر کے برابری، اخوت اور انصاف کی بنیاد رکھنا ہوگی۔