اسموگ، سردی اور لانگ مارچ

772

سردی جوں جون بڑھ رہی ہے، اسموگ بھی اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ پنجاب کے کئی شہر ان دنوں اسموگ کی شدید لپیٹ میں ہیں اور صوبائی حکومت نے شہریوں کو اس کے اثرات سے بچانے کے لیے سرکاری محکموں اور تعلیمی اداروں کے ہفتہ وار اوقات کار کو نصف کردیا ہے، یعنی ہفتے میں تین دن کھلیں گے اور تین دن بند رہیں گے۔ ساتویں دن ہفتہ وار چھٹی اس کے علاوہ ہوگی جبکہ لاہور ہائی کورٹ نے اسموگ کو کورونا سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے اور صوبائی حکومت کو اس سے نمٹنے کے لیے خصوصی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اسموگ درحقیقت دھوئیں اور دھند کا ملغوبہ ہے۔ دھواں کھیتوں میں فصلوں کی باقیات جلانے اور کارخانوں کی چمنیوں سے پھیلتا ہے اور سردی کی دھند سے مل کر فضا میں ایک ایسی کثافت پیدا کردیتا ہے جس میں سانس لینا دشوار ہوجاتا ہے۔ اسموگ سے گلے اور ناک کے متعدد وبائی امراض جنم لیتے ہیں اور آدمی کا زندہ رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اہل پنجاب ان دنوں ایسی ہی مشکل سے گزر رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ڈینگی نے بھی قیامت ڈھا رکھی ہے، ہر روز ایک دو جانیں لے رہا ہے اور ہاں کورونا ابھی گیا نہیں، اس کی چوتھی لہر اگرچہ دم توڑ رہی ہے لیکن اس کے اثرات ابھی باقی ہیں اور کورونا کے ایکٹو کیسز میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس میں شک نہیںکہ حکومت نے کورونا کی ویکسی نیشن مہم بڑی سرگرمی سے چلائی ہے اور اس کے نتیجے میں وہ ملک کی آبادی کے ایک قابل ذکر حصے کو ویکسین لگانے میں کامیاب رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ویکسی نیشن مہم میں اربوں کی کرپشن کی خبریں بھی عام ہیں۔ خیر کرپشن تو ہمارے کلچر کا حصہ ہے اس کے بغیر کوئی کام مکمل نہیں ہوتا۔ موجودہ حکومت تو کرپشن ختم کرنے کا دعویٰ لے کر اقتدار میں آئی تھی لیکن اس دعوے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کرپشن کا ریٹ بڑھ گیا ہے اور اس کا جادو سر چڑھ کے بول رہا ہے۔ کورونا سے جہاں غربت بڑھی ہے وہیں امیروں کی دولت میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ امیروں اور غریبوں کے درمیان ایک گہری خلیج حائل ہوگئی ہے۔
خیر چھوڑیے اس قصے کو آیئے سردی کی بات کرتے ہیں۔ کراچی میں تو ابھی تک پنکھے چل رہے ہیں لیکن باقی ملک میں سردی اپنا رنگ جمارہی ہے۔ سردی کے ساتھ ساتھ گیس کی قلت نے پورے ملک میں ایک بحران پیدا کر رکھا ہے۔ حکومت کو معلوم تھا کہ سردیوں میں گیس کی کھپت بڑھ جاتی ہے اور ملک کو اضافی گیس کی ضرورت پڑتی ہے لیکن اس نے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کوئی پیشگی قدم نہیں اٹھایا۔ نتیجہ اس کا ہمارے سامنے ہے پورے ملک میں گیس کی ہاہاکار مچی ہوئی ہے صنعتوں کی گیس بند کی جارہی ہے اور گھریلو صارفین کو صرف کھانے پکانے کے اوقات ہی میں مختصر وقت کے لیے گیس فراہم کرنے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔ وہ دن ہوا ہوئے جب پاکستان میں گیس وافر مقدار میں ہوا کرتی تھی اور گھریلو صارفین فراخ دلی سے سردیوں میں ہیٹر بھی چلاتے تھے اور گیزر بھی استعمال کرتی تھے، لیکن اب یہ دونوں چیزیں عیاشی میں شمار ہوتی ہیں، یہی کیا کم ہے کہ ان کے چولہے نہ ٹھنڈے ہونے پائیں اور انہیں دو وقت کی روٹی ملتی رہے، ابھی سردی کا آغاز ہے اور بعض علاقے اس سہولت سے بھی محروم ہوگئے ہیں اور حکومت کا سیاپا کررہے ہیں۔ سردی کو تو خیر اس سے کوئی غرض نہیں کہ ملک میں گیس ہے یا نہیں۔ ابھی دسمبر اور جنوری آنے دیں یہ حسبِ موسم خوب پڑے گی اور لوگوں کے نام پوچھے گی ایسے میں قدرت کا دست شفقت ہم جیسے انسانوں کو حوصلہ دے گا اور سورج جو چند مہینے پہلے تک آگ برساتا تھا، ہمارے لیے حرارت اور راحت کا ذریعہ بن جائے گا۔ شدید سردی میں دھوپ سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہے، جن ملکوں میں موسم سرما کے دوران کئی کئی مہینے سورج نہیں نکلتا وہاں کے لوگ مٹھی بھر دھوپ کو ترستے ہیں۔ سورج نکل آئے تو جشن منایا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں اور دفاتر میں چھٹی ہوجاتی ہے اور لوگ غسل آفتابی (سن باتھ) کے لیے ساحلوں کا رخ کرتے ہیں۔
اب کچھ سیاست کا ذکر بھی ہوجائے، ان دنوں طبعی موسم بلاشبہ سرد ہورہا ہے لیکن سیاسی موسم میں گرمی پائی جاتی ہے اور ایک ہلچل مچی ہوئی ہے۔ حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نہایت عیاری سے تینتیس (33) بل کیا منظور کروائے ہیں کہ سیاسی درجہ حرارت نقطہ عروج کو پہنچ گیا ہے، اپوزیشن اس زبردستی کی قانون سازی کو کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں ہے اور سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔ حضرت مولانا نے دیکھا کہ لوہا گرم ہے تو انہوں نے فوراً پی ڈی ایم کا سربراہ اجلاس بلالیا۔ لانگ مارچ اس اجلاس کے ایجنڈے کا سب سے اہم آئٹم تھا، اس پر بات تو ہوئی لیکن لانگ کب ہو اور کیسے ہو اس پر اتفاق رائے نہ ہوسکا اور معاملہ لٹک گیا، دیکھا جائے تو لانگ مارچ کا معاملہ گزشتہ تین سال سے تعطل کا شکار چلا آرہا ہے۔ حضرت مولانا فضل الرحمن نے تو عمران خان کی حکومت بنتے ہی اس کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کردیا تھا لیکن جب کوئی بھی ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوا تو حضرت مولانا اکیلے ہی لانگ مارچ لے کر نکل کھڑے ہوئے اور اسلام آباد کے نواح میں کئی دن تک دھرنا دیے بیٹھے رہے اس لانگ مارچ اور دھرنے میں ان کی جماعت کے کارکن اور دینی مدارس کے طلبہ بڑی تعداد میں شامل تھے۔ حضرت مولانا کا کہنا تھا کہ وہ عمران خان کا استعفا لیے بغیر نہیں ٹلیں گے۔ عمران خان کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور ان کے اعصاب جواب دیے جارہے تھے کہ چودھری برادران بروئے کار آئے اور انہوں نے حضرت مولانا سے مذاکرات کرکے انہیں جھوٹے وعدوں کے ذریعے کچھ اس طرح شیشے میں اتارا کہ وہ اسلام آباد سے خالی ہاتھ راضی خوشی واپس چلے گئے۔ دراصل چودھریوں نے انہیں یہ لارا دیا تھا کہ عمران خان تین ماہ کے اندر استعفا دے دیں گے اور قومی حکومت تشکیل دی جائے گی جس میں حضرت مولانا کو بھی اہم ذمے داری سونپی جاسکتی ہے۔ حضرت مولانا کو اور کیا چاہیے تھا لیکن جب تین مہینے کیا چھے مہینے گزر گئے اور کوئی ہل چل نہ ہوئی تو حضرت مولانا نے چودھریوں سے رابطہ کیا اور انہیں وعدہ یاد دلایا۔ چودھری برادران نے ہنس کر جواب دیا ’’مولانا رات گئی بات گئی کون سا وعدہ کیسا وعدہ؟‘‘ حضرت مولانا سٹپٹائے اور تلملائے تو بہت لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا اور دوبارہ لانگ مارچ کرنا یا دھرنا دینا تنہا ان کے بس میں نہ تھا، چنانچہ ان کی کوششوں سے اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم تشکیل دیا گیا اور حضرت مولانا اس کے سربراہ قرار پائے۔ انہوں نے پی ڈی ایم کے ہر اجلاس میں لانگ مارچ اور اجتماعی استعفوں کی تجاویز ایجنڈے میں رکھیں۔
ان تجاویز پر بحث تو ہوئی لیکن کبھی ان پر اتفاق رائے نہ ہوسکا۔ پی ڈی ایم کے حالیہ سربراہ اجلاس میں بھی حالات جوں کے توں رہے اور کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی ایک ہم جماعت پیپلزپارٹی عمران حکومت کے لیے ایک سہولت کار کی حیثیت رکھتی ہے۔ دونوں ایک ہی کشتی میں سوار ہیں اور اپنے پانچ سال پورے کرنا چاہتی ہیں۔ پیپلز پارٹی نہ اجتماعی استعفوں پر آمادہ ہے نہ لانگ مارچ ہی اسے ’’وارا‘‘ کھاتا ہے۔ حضرت مولانا کے لیے لانگ مارچ اس لیے ضروری ہے کہ بقول شخصے اس کے اخراجات کے لیے پیشگی رقم بھی وصول کی جاچکی ہے لیکن جوں جوں سردی بڑھے گی لانگ مارچ کا امکان کم ہوتا جائے گا لہٰذا مارچ کا موسم لانگ مارچ کے لیے سازگار ہوگا۔ پیرپگارا مرحوم مارچ کے حوالے سے کہا کرتے تھے کہ اس میں ڈبل مارچ ہوگا۔ بعض اوقات ان کی کہی ہوئی بات سچ بھی نکل آتی تھی۔ اب ہمارے دوست کہتے ہیں کہ آئندہ مارچ میں ممکن ہے ڈبل مارچ نہ ہو، کوئی سنگل مارچ ہی ہوجائے اور حضرت مولانا کا لانگ مارچ پھر دھرے کا دھرا رہ جائے۔