تعلیمی معاملات پر حکمرانوں کا غیر سنجیدہ طرز عمل

362

قوموں کا عروج و زوال تعلیم اور بہترین تعلیمی نظام سے مربوط ہوتا ہے ایک بہترین تعلیمی نظام کی تشکیل اور ترتیب کے لیے ضروری ہے کہ نظام تعلیم سے وابستہ افراد اس کی اہمیت، افادیت اور ضرورت کو سمجھنے کی اہلیت کے حامل ہوں۔ کسی بھی شعبے کو چلانے کے لیے اس شعبے کے ساتھ جذباتی لگائو رکھنے والوں کو اہمیت دی جاتی ہے، لیکن بڑی فکر مندی کی بات ہے کہ جو شعبہ ملک کے تمام شعبوں کے لیے ماہرین تیار کرکے ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم اور فعال کردار ادا کرتا ہے اس شعبے کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے پیارے رسول ؐ کو جب خا لق کائنات نے رحمت العالمین کے عظیم منصب سے نوازا تو وحی ربانی کے جو کلمات مبارکہ سکھائے جس کا ترجمہ ہے، پڑھو (اے نبیؐ) نام لے کر اپنے رب کا جس نے پیدا کیا۔ پیدا کیا جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے۔ پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے۔ جس نے علم سکھا یا قلم کے ذریعے سے۔ سکھایا انسان کو جو وہ نہیں جانتا تھا۔ اسی طرح آقائے دوجہاں سیدنا محمد ؐ نے ارشاد کیا علم حاصل کرنا ہر مومن مسلمان مر دو عورت پر فرض ہے۔
ہمارا المیہ ہے کہ ہم آج تک حصول علم کی اہمیت کو نہ تو جان سکے اور نہ ہی ہمارے صاحبان دانش نے قوم اور ہمارے حکمرانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ علم حاصل کرنے مقصد یہ نہیں کہ فیل یا پاس ہونے یا اعلیٰ نمبروں سے کامیابی ہی حصول علم کا مقصد بنا لیا جائے ہمارے ہاں یہ شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ علم حاصل کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم علم کی جس شاخ کا بھی مطالعہ کریں اس کے حوالے سے ہمیں مکمل معلومات اور آگاہی حاصل ہونا ضروری ہے کہ ہم جس مضمون کا بھی مطالعہ کر رہے ہیں اس کا نفس مضمون کیا ہے اور یہ معاشرتی ترقی اور اصلاح میں کس حدتک مفید ہے جب علم دینے والے اور علم حاصل کرنے والے اس فکر کے ساتھ علمی محاذوں پر توجہ مرکوز کریں گے تو ہمارے طالب علموں کی ایسی فکری رہنمائی ہو سکے گی کہ ہمارے نوجوان ہر الجھے ہوئے کام کو سلجھانے کی صلاحیت کے حامل ہوں گے، ہمارے طالب علم جس محدود پیمانے پر کسب علم کے لیے کام کرتے ہیں اس کا مظاہرہ ہمیں ہر سال امتحانات کے ایام میں بخوبی دکھائی دیتا ہے جب ہمارے طالب علم قبل از امتحان اول تو نوٹس اور حل پرچہ جات کی تلاش میں دکھائی دیتے ہیں ساتھ ہی یہ کوشش بھی جاری رہتی ہے کسی طرح ایک تو امتحانی مرکز گھر کے قریب بن جائے تاکہ اپنی اور والدین کی محنتوں سے امتحانات کے پرچے با آسانی نکل جائیں ساتھ ہی اکثر والدین بھی اپنے نو نہالوں کو نہم جماعت میں داخلہ کراتے وقت اسکول والوں سے معلوم کرتے ہیں کہ آپ کے اسکول کا امتحانی سینٹر کہاں بنتا ہے یعنی ابھی داخلہ بھی نہیں کرایا اور پاس کرانے کی فکر پہلے۔ ساتھ ہی ہمارے بے شمار طلبہ اپنی تعلیم کے بجائے زمانے کی دیگر دلچسپیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اس کے ساتھ ہی ہمارے اکثر اساتذہ بھی غیر ذمے دارانہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں، ہونا تو یہ چاہیے کہ اساتذہ والدین کی رہنمائی کریں اور ساتھ والدین کو ان کی ذمے داریوں سے بھی آگاہ کریں کہ وہ اپنے بچے کی تعلیم اور تربیت میں اپنے حصہ کا کردار ادا کریں۔ آج کل دیکھنے میں آ رہا ہے کہ والدین کی خواہش ہے کہ ان کا بچہ شاندار کامیابی حاصل کر لے لیکن اس کامیابی کے لیے انہوں نے کیا کردار ادا کیا اس سے بھی انہیں آگاہی ضروری ہے۔
دوسری توجہ طلب بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے سے تعلیمی نظام میں سزاء کا تصور ہی ختم ہوتا جا رہا ہے اس کا سب سے برا اثر محدود آمدنی والے افراد پر پڑا ہے کیوں کہ جن کے پاس وسائل ہیں وہ تو اپنے گھر پر ہر مضمون کا استاد بلا کر اپنے بچے کی بہترین تعلیم کا انتظام کر لیتے ہیں لیکن جن کے پاس وسائل محدود ہوتے ہیں ان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اتنے بہتر طریقے سے اپنے نو نہال کی تعلیم کا انتظام کر سکیں اس طرح کم آمدنی والے افراد کے بچے اکثر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں لیکن جب ہمارے تعلیمی نظام میں سزا کا تصور پوری طرح مو جود تھا اساتذہ اپنے طالب علم کو سزا کے عمل سے گزار کر اسے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کر دیتے تھے لیکن جب آج کسی استاد سے یہ بات کی جائے کہ آج کا طالب علم تعلیم پر توجہ کیوں نہیں دے رہا ہے اور اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا آپ اپنی ذمے داریاں احسن طور پر پوری نہیں کر پا رہے ہیں تو اکثر اساتذہ کہتے ہیں کہ اب ہمارے ہاتھ میں ہے ہی کیا طالب علم تو اپنی مرضی کا مالک ہوگیا ہے طالب علم کو کام دیا جاتا ہے تو اس کی مرضی ہے کرے یا نہ کرے جو طالب علم اپنی ذمے داری محسوس کرتے ہیں اساتذہ کی ہدایات کے مطابق کام کرکے لاتے ہیں اور جو غیر ذمے دار اور نا سمجھ ہیں وہ اساتذہ کی ہدایت کو نظر اندازکر دیتے ہیں اور کوئی نہ کوئی عذر پیش کر دیتے ہیں اس طرح ہمارا طالب علم خراب ہو رہا ہے اور اگر اساتذہ کی ہدایت نظر انداز کرنے والے طالب علم کو کوئی استاد اپنی ذمے داری کو محسوس کرتے ہوئے سرزنش کرتا ہے تو طرح طرح کے مسائل پیدا کیے جاتے ہیں۔
عصر حاضر میں شعبۂ تعلیم بری طرح سے متاثر ہے ہمارے ذمے دار اساتذہ اس بات پر ملول ہیں کہ ہمارے ہونہار طالب علموں کا مستقبل داو پر لگا دیا گیا ہے ہمارے آج کے بے شمار طالب علموں کو یہ تک نہیں معلوم کے ان کی درسی کتب میں کیا کچھ تحریر ہے اور اساتذہ اس بات پر پریشان کے جن طلبہ نے پڑھا ہی نہیں وہ آگے کیا کریں گے۔ علم حاصل کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ معاشرے کہ لیے ایسے جو ہر قابل تیار کیے جائیں جو عصری چیلنجز کا عقل و دانش کی بنیاد پر مقابلہ کرنے کی اہلیت کے حامل ہوں لیکن ہم دیکھ رہے ہیں ہمارے پاس ایسے ماہرین کی کمی ہے جو وقت کی نزاکتوں کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہوں اور ان کی مذہبی اور ملی وابستگی بھی غیر متزلزل ہو تعلیم کے حوالے سے لیے جانے والے فیصلوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ہماری قیادت خلفشار کا شکار ہے کبھی امتحانات دیے بغیر طلبہ کو اگلے درجوں میں ترقی دے دی گئی اور کبھی نصاب کو مختصر کرنے کی بابت قوم کو علم سے دور کرنے کی خبر بھی بڑے فخر و انبساط کے ساتھ سنائی گئی۔ ہمارے حکمرانوں کو خالق کائنات کی اس حکمت کو اچھی طرح سے سمجھ لیناچاہیے کہ اس نے اپنے پیارے حبیبؐ کو جب منصب خاتم النبیین سے نوزا تو ساتھ ہی علم کی اہمیت اور افادیت سے آگاہی دیتے ہوئے کتاب حکمت بھی عطا کر دی تاکہ رہتی دنیا تک انسان جان لے کہ دنیا میں رہنے بسنے اور ترقی منازل طے کرنے کے لیے لازم ہے کہ کسب علم کیا جائے کیوں کہ اسی علم کی ہی بنیاد پر تو انسان بھلائی اور بہتری کے معاملات سیکھنے، سمجھنے اور صراط مستقیم کی راہ کی جانب گا مزن ہو سکتا ہے۔
مشاہدے میں ہے کہ ہمارے ملک میں مستقبل کو تابناک بنانے کی منصوبہ سازی تو ضرور ہوتی ہے لیکن اس کے بھی معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اب جیسا کہ ہمارے دانش مندوں نے فیصلہ کیا ہے کہ سلیبس کو محدود کر کے امتحانات کا انعقاد یقینی بنایا جائے اس کے ساتھ ہی امتحانات منعقد کرنے کے ذمے داروں نے ایک محدود اور منتخب نصاب طلبہ کی آسانی کے لیے جاری کر دیا۔ ہمارے حکمرانوں کی ذمے داری ہے کہ سب سے پہلے شعبہ تعلیم کو بہتریں بنیادوں پر استوار کرکے اس کے لیے ایسے افراد کا انتخاب کیا جائے جو انتہائی محنت، لگن، جانفشانی اور قومی تعمیر کے جذبے کے ساتھ نظام تعلیم کے خد و خال کو درست کریں تاکہ ہم مستقبل کے لیے ایسے ہو نہار تیار کر سکیں جو ثانی، جابر بن حیان، الخوارزمی، بو علی سینا، حالی، غالب و اقبال بن کر قومی زندگی میں اپنا فعال کردار ادا کرسکیں۔