شمالی کوریا؛ انسانی حقوق کی پامالی

304

امریکا کے ساتھ کشیدہ تعلقات اور جوہری پروگرام کی وجہ سے گزشتہ کئی سال سے بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا کرنے والا شمالی کوریا دنیا میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی کرنے والوں میں سے ایک ہے۔ شمالی کوریا کے باشندے مسلسل غیر منصفانہ قید، جبری مشقت، فاقہ کشی، تشدد اور یہاں تک کہ موت تک کی سزا تک کا ہدف بنتے ہیں۔ گزشتہ سال اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے دفتر کی جاری کردہ رپورٹ میں 1950 سے اب تک شمالی کوریا میں جبری گمشدگیوں اور اغوا کے واقعات کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 80 فی صد متاثرین کی دل شکن گواہیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیسے یہ جرائم ان کے لیے طویل مدتی صدمات کا باعث بنے۔ خاندانوں کی پوری نسلوں نے اس غم میں زندگیاں گزاری ہیں کہ نہ جانے ان کے شریک حیات، والدین، بچوں اور بہن بھائیوں کے ساتھ کیا بیتی۔ رپورٹ میں کہا گیا لوگوں کو جبراً لا پتا کیا جانا بیک وقت بہت سے حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور اس کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ رپورٹ میں 1950 سے 2016 تک جبری گمشدگیوں اور اغوا کے کئی طرح کے واقعات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ان واقعات کی دو اقسام ہیں۔ ان میں ایک شمالی کوریا کے اندر اس کے شہریوں کی ناجائز گرفتاری سے متعلق ہیں۔ ان لوگوں کا کسی کو اتا پتا نہیں اور ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی بھی کسی کو خبر نہیں ہوئی۔ دوسری طرح کے واقعات غیر ملکیوں کی جبری گمشدگی سے متعلق ہیں۔ ’’یہ زخم بھرتے نہیں‘‘ کے عنوان سے اس رپورٹ میں متاثرین اور ان کے خاندانوں کو پہنچنے والے شدید اور متواتر نفسیاتی نقصان کی تفصیلات دی گئی ہیں۔

حقوق کی ان پامالیوں سے خاندانوں پر شدید معاشی اثرات بھی مرتب ہوئے اور خاص طور پر وہ خاندان زیادہ شدت سے متاثر ہوئے جن کے اغوا ہونے والے افراد مرد تھے۔ ان حالات سے جنم لینے والی پسماندگی اور غربت نے خاندانوں کی پوری نسلوں کو بری طرح متاثر کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق اداروں نے شمالی کوریا کی ریاست پر جبری گمشدگیوں کے الزامات کی تفصیلی روداد تیار کی ہے اور اس کے نتائج 2014 کے تحقیقاتی کمیشن کے نتائج کی تصدیق کرتے ہیں۔ سی او آئی نے قرار دیا تھا کہ شمالی کوریا کی حکومت 1950 سے لوگوں کو جبر لا پتا کرنے کی ریاستی پالیسی پر کار بند رہی ہے۔ 17 دسمبر 2011 کو اپنے والد کی وفات کے بعد کم جونگ ان برسراقتدار آیا۔ 2013 میں اپنے چچا اور 2017 میں سوتیلے بھائی سمیت کم جونگ ان نے ابھی تک ذاتی طور پر جن لوگوں کے قتل کا حکم دیا ہے، ان کی تعداد ممکنہ طور پر سیکڑوں میں ہے۔

ایک آمر مطلق کے طور پر شمالی کوریا پر اپنی حکومت کے ابتدائی 12 سال میں کم جونگ ان ابھی تک سنگین ہلاکتوں کے اس ریکارڈ تک نہیں پہنچ سکا جو اس کے دادا کم ال سنگ اور والد کم جونگ ال نے قائم کیے تھے۔ مگر اقتدار کے یہ بارہ سال شمالی کوریا میں رہنے والے لوگوں کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوئے ہیں۔ کورونا وائرس کے دوران چین کی شمالی سرحد کی بندش سے یہ ملک باقی دنیا سے مزید کٹ کر رہ گیا تھا اور یہاں سے بھاگنے والوں کا راستہ بھی بند ہو گیا تھا۔ دریں اثنا خوراک کی غیر یقینی صورتحال جاری ہے جس کا مطلب ہے کہ بچوں کی ایک پوری نسل غذائی کمی کا شکار ہے۔ کم جونگ ان کے دور حکومت میں ناکافی اور غذائیت سے عاری خوراک کی وجہ سے بیماریوں کا شکار ہو کر مرنے والوں کے ٹھوس اعداد و شمار بتانا مشکل ہے لیکن میں یہ پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ کم جونگ ان اپنے باپ اور دادا کی بھیانک ہلاکتوں کو بھی پیچھے چھوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کم جونگ ان کے اقتدار کے یہ بارہ سال انہی مظالم اور ناکام پالیسیوں کا تسلسل ہیں جس نے شمالی کوریا کے باشندوں کو گزشتہ بہتر سال سے خوف اور بھوک کے خطرے سے دو چار رکھا ہے۔

کم جونگ ان کے دور حکومت میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا تسلسل اور میزائیل پروگراموں میں نئی پیش رفت دیکھنے کو ملی، جس کی بنیاد کم کے خاندان نے رکھی تھی۔ شمالی کوریا نے گزشتہ دس سال میں 130 سے زائد میزائل داغے جن میں تین بین البراعظمی بیلسٹک میزائل دھما کے بھی شامل تھے۔ چار نیو کلیئر تجربات میں سے آخری 2017 کے دوران تھرمونیوکلیئر بم تھا۔ کم جو نگ کا بنیادی ہدف جنوبی کوریا کو اپنی جوہری طاقت سے کمزور کرنا ہے تا کہ وہ عظیم جو شے انقلاب یعنی جنوبی حصے کو اپنے اندر شامل کرکے جزیرہ نما کوریا کو شمالی کوریا کی شرائط پر متحد کرنے کے اپنے عظیم قومی فریضے کو سر انجام دے سکے۔ ایک جوہری جنگ چاہے محدود ہی کیوں نہ ہو وہ لاکھوں کی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکت کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ ایک خوفناک قدم ہے۔ جو کم ال سنگ اور کم جونگ ال کی قیادت میں پہلے ہی اٹھایا جا چکا ہے۔ کم جونگ ان کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے دنیا پر بڑی تباہی مسلط کرنے کی اضافی صلاحیت پیدا کر لی ہے۔