پاکستان کو سالانہ 5.8 ٹریلین روپے کی ٹیکس چوری کا سامنا

214
Increase

اسلام آباد: پاکستان کی ٹیکس چوری (ریونیو گیپ) کا تخمینہ مالی سال 2022-2023 کی سالانہ بنیاد پر تقریباً 5.8 ٹریلین روپے لگایا گیا تھا، جو کہ جی ڈی پی کا 6.9 فیصد بنتا ہے۔

اس بات کا انکشاف وزیر اعظم شہباز شریف اور ا سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کو ایک پریزنٹیشن کے دوران کیا گیا، جس کے مطابق اسمگلنگ اور دیگر ذرائع سے پیٹرولیم مصنوعات کی چوری کا تخمینہ 996 ارب روپے ہے۔

دریں اثنا، ملک کے ریٹیل سیکٹر میں 888 ارب روپے، ٹرانسپورٹ سیکٹر 562 ارب روپے، انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) 498 ارب روپے، اسمگل شدہ اشیاء 355 ارب روپے، برآمدات 342 ارب روپے اور رئیل اسٹیٹ میں 148 ارب روپے سالانہ کی بنیاد پر چوری ہوئی۔

“دیگر” زمرے میں ٹیکس چوری کا تخمینہ 1.607 ٹریلین روپے سالانہ تھا۔

پریزنٹیشن میں انکشاف کیا گیا کہ سب سے زیادہ ٹیکس چوری سیلز ٹیکس میں ہوئی جو سالانہ بنیادوں پر 2.9 ٹریلین روپے تک جا سکتی ہے۔ مزید برآں، کسٹم میں فرق تقریباً 0.6 ٹریلین روپے (600 بلین روپے) سالانہ رہا جس میں انڈر انوائسنگ اور اسمگلنگ بھی شامل ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنی تشخیصی رپورٹ میں تجزیہ کیا ہے کہ پالیسی کی سطح پر ٹیکس کا فرق بہت زیادہ نہیں تھا اور یہ جی ڈی پی کے زیادہ سے زیادہ 12.9 فیصد تک جا سکتا ہے۔

کل محصولات اور اخراجات کے درمیان تعمیل کا فرق بھی تھا، وفاقی ٹیکس محصولات جی ڈی پی کے 9.1 فیصد جبکہ وفاقی غیر ٹیکس محصولات جی ڈی پی کے 1.2 فیصد پر تھے۔

پریزنٹیشن میں یہ بھی بتایا گیا کہ صوبائی ٹیکسوں نے جی ڈی پی میں تقریباً 1 فیصد کا حصہ ڈالا جبکہ کل محصولات جی ڈی پی کا 11.4 فیصد رہا۔

دریں اثنا، جی ڈی پی پر وفاقی اخراجات 12.9 فیصد اور صوبائی اخراجات 6.1 فیصد کے لگ بھگ رہے، اس طرح کل اخراجات جی ڈی پی کے 19 فیصد تک پہنچ گئے۔ ملک کی کل آمدنی اور اخراجات کے درمیان جی ڈی پی کا 7.6 فیصد کا فرق ہے۔