اسرائیلی قبضے کیخلاف فلسطینیوں کی مسلح مزاحمت عالمی چارٹر کے تحت جائز ہے، سینیٹر مشاہد حسین

360

استنبول: سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ فلسطینیوں کی وحشیانہ اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت مکمل طور پر جائز ہے۔

ترکی میں فلسطین اسرائیل تنازع پر بین الاقوامی کانفرنس  سے خطاب کرتے ہوئے ایگزیکٹو بورڈ آف پارلیمنٹرینز فار فلسطین کے رکن  سابق سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ فلسطین پاکستانی ڈی این اے کا حصہ ہے ۔

قبل ازیں 3 روزہ کانفرنس کا افتتاح صدر اِردوان نے کیا جس میں 80 ممالک کے ارکان پارلیمنٹ اور سیاسی رہنما شرکت کر رہے ہیں۔

مشاہد حسین سید نے مزید کہا کہ  پاکستان کے تمام لوگ اور سیاسی جماعتیں فلسطین کے منصفانہ کاز کی حمایت کرتی ہیں، کیونکہ فلسطین کے بارے میں پاکستان کی پالیسی سب سے پہلے بابائے قوم  قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کی آزادی سے پہلے بھی واضح کردی تھی ۔

اسرائیل کی طرف سے غزہ کی نسل کشی کی مذمت کرتے ہوئے مشاہد حسین نے اسے جدید تاریخ میں پہلی براہ راست  نسل کشی قرار دیا۔ انہوں نے  مزید کہا کہ    سوائے رائے عامہ کے مسلم حکومتوں اور مغربی ممالک دونوں نے فلسطینیوں کو مایوس کیا۔

مشاہد حسین سید نے کہا کہ حماس کی طرف سے 7 اکتوبر کو شروع ہونے والے الاقصی طوفان  آپریسشن نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے افسانے کو توڑ کر عالمی سیاسی منظر نامے کو تبدیل کر دیا ہے، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں۔

فلسطین کی حمایت کا پاکستان کا ٹریک ریکارڈ پیش کرتے ہوئے مشاہد حسین نے کہا کہ پاکستان واحد غیر عرب ملک ہے جس نے 1967 اور 1973 میں دو عرب اسرائیل جنگوں میں حصہ لیا۔ نیز یاسر عرفات کی قیادت میں پی ایل او کو پہلی مرتبہ 1974 میں لاہور اسلامی سربراہی اجلاس میں مدعو کیاگیا۔

مشاہدحسین  نے فوری جنگ بندی اور مقبوضہ بیت المقدس کو اس کا دارالحکومت بنانے کے لیے ایک آزاد فلسطین کے قیام کے لیے اقدامات پر زور دیا۔

کانفرنس میں شرکت کرنے والے پاکستان کے پارلیمانی وفد میں سینیٹر مشتاق احمد، ایم این ایز شہریار مہر، چوہدری شہباز اور جنید اکبر شامل ہیں۔پاکستانی مندوبین نے صدر اردوان اور ترک پارلیمنٹ کے اسپیکر ڈاکٹر نعمان قرطولموس سے بھی ملاقاتیں کی۔