لوگ پاکستان کیوں چھوڑ رہے ہیں؟

1674

اردو کے سب سے بڑے نقاد محمد حسن عسکری نے آندرے ژید کا ایک فقرہ اپنے مضمون میں کوٹ کیا ہے۔ آندرے ژید نے انسانوں کو مشورہ دیا ہے کہ اپنے خیالات چھوڑ دو، اپنے احساس ترک کردو اور کچھ نہیں تو اپنا مکان ہی بدل لو۔ بلاشبہ خیالات کو چھوڑنا آسان نہیں لیکن اپنے مجموعی ماحول کو چھوڑنا تو ناممکن ہے۔ اس لیے کہ انسان کے مجموعی ماحول میں اس کا مذہب ہوتا ہے۔ اس کے عقاید ہوتے ہیں۔ اس کی تہذیب ہوتی ہے۔ اس کا کلچر ہوتا ہے۔ اس کی زبان ہوتی ہے۔ اس کے رشتے ناتے ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے زمانے تک آتے آتے صورت حال یہ ہوگئی ہے لوگ پلک جھپکتے میں اپنا ملک چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ ایک ہولناک خبر ہے کہ ہر سال لاکھوں پاکستانی پاکستان چھوڑ کر کسی نہ کسی مغربی ملک میں آباد ہوجاتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 2015 میں 9 لاکھ 47 ہزار پاکستانیوں نے پاکستان چھوڑا۔ 2016 میں 8 لاکھ 39 ہزار پاکستانیوں نے ترک وطن کیا۔ 2022 میں 8 لاکھ 32 ہزار مغربی ممالک میں آباد ہوئے۔ 2023 میں 8 لاکھ 63 ہزار پاکستانیوں نے پاکستان کو خدا حافظ کہا۔ (دی نیوز 18 جنوری 2024ء)
ترک وطن اتنا مشکل ہوتا ہے کہ رسول اکرمؐ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مکہ سے مدینے ہجرت کی مگر آپؐ تمام عمر مکے کو یاد کرتے رہے۔ اس لیے کہ مکے میں آپؐ کا بچپن تھا۔ آپؐ کی جوانی تھی۔ مکہ ہی میں آپؐ کی شادی ہوئی تھی اور مکے ہی میں آپؐ کو نبوت ملی لیکن اب لاکھوں پاکستانی کسی داخلی کشمکش کا شکار ہوئے بغیر ترک وطن کررہے ہیں۔ حالانکہ پاکستان میں ان کا بچپن ہے۔ ان کی جوانی ہے۔ پاکستان میں ان کا مذہب ہے۔ ان کا کلچر ہے۔ ان کا خاندان ہے۔ ان کے دوست ہیں۔ ان کے عزیز واقارب ہیں۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ آخر پاکستانی پاکستان چھوڑ کر کیوں جارہے ہیں؟
اسلامی تہذیب کی تعلیم یہ ہے کہ بچوں کو مذہب اور محبت کی اقدار پر پالو۔ مگر اب ہم اپنی نئی نسلوں کو طاقت اور سرمائے کی اقدار پر پال رہے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ دنیا دھوکے کی ٹٹی یا Smoke Screen کے سوا کچھ نہیں۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ اگر دنیا مچھر کے پر کے برابر بھی اہم ہوتی تو کافروں اور مشرکوں کا اس میں کوئی حصہ نہ ہوتا۔ لیکن اب والدین پہلے دن سے اپنی اولاد کے دل میں دنیا کی محبت پیدا کرتے ہیں۔ عزیز واقارب بچوں کو سمجھاتے ہیں کہ دنیا ہی سب کچھ ہے۔ اساتذہ بچوں کو تعلیم دیتے ہیں کہ اچھی طرح پڑھو تا کہ اچھی طرح دنیا کما سکو۔ ذرائع ابلاغ دنیا کی محبت کو نظریہ حیات بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم ایسی نسلیں پیدا کررہے ہیں جن کے لیے مذہب، تہذیب، تاریخ، والدین عزیز واقارب اور دوستوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ ان کے لیے اہمیت ہے تو طاقت کی۔ ان کے لیے افادیت ہے تو سرمائے کی۔ ان کے لیے عشق ہے تو دنیا کا۔ مگر یہ مسئلے کا صرف ایک پہلو ہے۔
مسئلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا۔ پاکستان کے اسلامی نظریے نے جسے عرف عام میں دو قومی نظریہ کہا جاتا ہے وقت کی واحد سپر پاور برطانیہ اور ہندو اکثریت کو شکست دی تھی۔ اس نے محمد علی جناح کو قائداعظم بنایا تھا۔ اس نے بھیڑ کو ایک قوم میں ڈھالا تھا۔ چناں چہ یہ نظریہ پاکستان کو ایک ایسی ریاست بناسکتا تھا جو پوری دنیا کے لیے ایک نمونہ، ایک مثال اور ایک ماڈل ہوتی۔ مگر پاکستان کے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے ملک کے نظریے کو اہمیت ہی نہ دی۔ چناں چہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کے امکانات سامنے ہی نہ آسکے۔ نہ پاکستان میں قرآن و سنت بالا دست ہوئے۔ نہ پاکستان میں انصاف قائم ہوا۔ نہ پاکستانی معاشرے میں اسلامی اخوت و مساوات پیدا ہوئی۔ نہ یہاں اچھی تعلیم کا بندوبست ہوسکا، نہ یہاں معیشت مستحکم ہوسکی۔ نہ یہاں فلاحی ریاست کا قیام عمل میں آسکا۔ چناں چہ پاکستان کے لوگوں میں پاکستان کی نظریاتی محبت اور کشش پیدا ہی نہ ہوسکی۔ وطن پرستی یا قوم پرستی اسلامی نقطہ نظر سے بدترین چیز ہے مگر پاکستان جرنیل اور ان کے پیدا کردہ سیاست دان تو پاکستانی قوم کو قوم پرست بھی نہ بناسکے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے پاکستان کو حقیقی معنوں میں نظریاتی ریاست بنادیا ہوتا تو لوگ پاکستان میں بھوک سے مرجاتے مگر وہ کبھی پاکستان کو چھوڑ کر کہیں نہ جاتے۔ کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ غزہ میں حماس کی پیدا کردہ مذہبی عصبیت اتنی توانا ہے کہ اسرائیل نے پورے غزہ کو ملیا میٹ کردیا ہے مگر غزہ کا ایک باشندہ بھی غزہ کو چھوڑ کر جانے کے لیے تیار نہیں۔ غزہ کی پوری آبادی غزہ سے چمٹی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ غزہ میں حماس کے خلاف پانچ لوگوں نے بھی یہ کہہ کر مظاہرہ نہیں کیا ہے کہ تم نے ہمیں اسرائیل کے ہاتھوں مروا دیا ہے۔ یہ ہوتی ہے نظریاتی وابستگی۔ یہ ہوتی ہے نظریاتی محبت۔
ملک اور قوم ایک خاندان کی طرح ہوتے ہیں اور خاندان کی کشش غیر معمولی ہوتی ہے۔ اتنی غیر معمولی کہ جانوروں تک کو اس کا شعور ہوتا ہے۔ ابھی چند روز پہلے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ افریقا کے کسی ملک میں ہاتھی کا ایک بچہ تالاب میں پانی پیتے ہوئے تالاب میں پھنس گیا۔ یہ دیکھ کر ہاتھیوں کا سارا جھنڈا اس کے گرد جمع ہوگیا اور سارے ہاتھی اس بچے کو نکالنے کی کوشش کرنے لگے اور کئی گھنٹوں کے محنت کے بعد وہ بچے کو تالاب سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کو کہتے ہیں خاندان۔ اسی لیے سلیم احمد نے کہا ہے۔
کشش گھر کی بلائے گی تو کوئے نامرادی سے
پلٹ کر آئیں گے خانہ خراب آہستہ آہستہ
مگر پاکستان کے پست مزاج اور خود سر جرنیل اور ان کے پیدا کردہ سیاست دان پاکستان کو 75 برسوں میں بھی ایک خاندان نہیں بنا سکے۔ چناں چہ خاندان کے حوالے سے پاکستان کا حال جون ایلیا کے اس شعر جیسا ہے۔
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
چونکہ ہم خاندان نہیں بن سکے۔ اس لیے 1971 میں بنگالیوں نے پاکستان کو خیرباد کہہ دیا۔ لیکن پاکستان کے جرنیل بنگالیوں کو ٹھکانے لگانے کے باوجود بچے کھچے پاکستان کو بھی ایک خاندان نہ بناسکتے۔ اس کا ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ ہم ایک قوم نہیں ہیں۔ ہم پنجابی ہیں، مہاجر ہیں، سندھی ہیں، پشتون ہیں، بلوچ ہیں، سرائیکی ہیں، فوجی ہیں، سویلین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں خاندان کی کشش ثقل موجود نہیں۔
انسان کے لیے عزت انتہائی اہم ہوتی ہے مگر پاکستان میں جرنیلوں کے سوا کسی کی کوئی عزت نہیں۔ جرنیل جب چاہتے ہیں سول وزیراعظم کو اقتدار سے محروم کردیتے ہیں۔ انہوں نے 1970ء کے انتخابات کے بعد شیخ مجیب کو وزیراعظم بنانے کے بجائے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا۔ انہوں نے بھٹو کو پھانسی دے دی۔ انہوں نے کھڑے کھڑے جونیجو کو وزیراعظم ہائوس سے نکال دیا اور اب وہ عمران خان کی عزت خراب کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ عام آدمی کا تجربہ یہ ہے کہ ایک عام پولیس والا جب چاہتا ہے گلی میں اسے روک کر ذلیل کردیتا ہے۔ ایک ٹریفک کانسٹیبل تمام کاغذات درست ہونے کے باوجود اس کا چالان کردیتا ہے۔ سرکاری دفتر میں ایک معمولی کلرک اس کا جائز کام بھی نہیں کرتا اور اس سے دفتر کے چکر لگواتا رہتا ہے۔ چناں چہ شہریوں کی بڑی تعداد ملک کے مجموعی نظام سے عاجز آئی ہوئی ہے اور موقع ملتے ہی ملک سے بھاگ کھڑی ہوتی ہے۔ عام لوگوں کا علم اور مشاہدہ انہیں بتاتا ہے کہ مغربی ممالک میں عام آدمی کی بھی عزت ہے۔ اسے انسانی وقار حاصل ہے۔
پلڈاٹ کے ایک سروے کے مطابق جب پاکستان کے طلبہ سے پوچھا گیا کہ ان کے ملک چھوڑنے کی بنیادی وجہ کیا ہے تو 52.4 فی صد نے کہا کہ پاکستان سخت معاشی حالات سے دوچار ہے۔ چنانچہ پاکستان میں ان کا کوئی اکیڈمک اور پیشہ ورانہ مستقبل نہیں۔ جبکہ 20.5 فی صد طلبہ نے کہا کہ وہ بہتر معاشی مستقبل کے لیے دوسرے ملک جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کے 35.8 فی صد، اسلام آباد کے 36.5 فی صد، آزاد کشمیر کے 43.6 فی صد اور بلوچستان کے 42 فی صد طلبہ پاکستان چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔ طلبہ میں ’’عزت‘‘ کا احساس بھی شدید ہے اور پاکستان کے 43.6 فی صد طلبہ عزت حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک آباد ہونا چاہتے ہیں۔ سروے کے مطابق سندھ میں عزت کے لیے ملک چھوڑنے والے طلبہ کی تعداد 55.9 فی صد اور بلوچستان میں 51.9 فی صد ہے۔ (دی نیوز 18 جنوری 2024ء)
ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والے برسوں میں ماحولیاتی جبر کے نتیجے میں جنوبی ایشیا اور افریقا سے 14 کروڑ افراد اپنے ملک چھوڑ کر بیرون ملکوں میں آباد ہوسکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق نقل مکانی کا رجحان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے۔ 1990ء میں عالمی سطح پر نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد صرف 2.8 فی صد تھی۔ تاہم 2020 تک یہ تعداد بڑھ کر 3.6 فی صد ہوگئی ہے۔