کراچی کہ ایک شہر تھا عالم میں انتخاب

617

میر تقی میر کے دور میں دلّی اجڑی تو میر تقی میر لکھنو سدھار گئے اور وہاں انہوں نے دلّی کا مرثیہ لکھا۔ انہوں نے لکھا
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلّی کہ ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کے برباد کردیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
دلّی کا یہ مرثیہ کراچی کے بارے میں بھی پوری طرح درست ہے۔ کراچی کبھی واقعتا عالم میں انتخاب تھا اور واقعتا یہاں روزگار کے منتخب افراد رہتے تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کراچی کو اسٹیبلشمنٹ اور اس کی پیدا کردہ ایم کیو ایم نے لوٹ کے برباد کردیا۔ کراچی کے عالم میں انتخاب ہونے کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم کو ملک کا دارالحکومت منتخب کرنے کی ضرورت پڑی تو ان کی نظر نہ لاہور پر گئی نہ ڈھاکا پر۔ انہوں نے پشاور کی طرف دیکھا نہ کوئٹہ کی طرف۔ ان کی نگاہ انتخاب ٹھیری تو کراچی پر جو اس وقت ملک کی واحد بندرگاہ تھا۔ جو قائداعظم کے زمانے میں ملک میں بین الاقوامی شہرت کا حامل واحد شہر تھا۔ 1947ء میں کراچی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ پورا ہندوستان اجڑا تو کراچی آباد ہوا۔ دیکھا جائے تو آج بھی کراچی کی اہمیت یہ ہے کہ وہ ملک کو قومی آمدنی کا 70 فی صد فراہم کرتا ہے۔ ملک کی کُل برآمدات کا 55 فی صد حصہ کراچی مہیا کرتا ہے۔ یعنی ملک کی ساری ترقی و خوشحالی کا انحصار کراچی کے فراہم کردہ وسائل پر ہے۔ پنجاب ترقی کررہا ہے تو کراچی کے وسائل سے۔ کے پی کے فروغ پا رہا ہے تو کراچی کے وسائل سے۔ بلوچستان میں ترقیاتی کام ہورہے ہیں تو کراچی کی آمدنی سے۔ دیہی سندھ کی معاشی نشوونما ہورہی ہے تو کراچی کے سرمائے سے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ملک کی بقا اور سلامتی کے حوالے سے دفاع انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مسلح افواج کو جو مالی وسائل مہیا کیے جاتے ہیں ان میں کراچی کا حصہ پورے ملک سے زیادہ ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے پاکستان کی جانب ہجرت کرنے والوں کی اکثریت پاکستانی پنجاب میں آباد ہونا چاہتی تھی مگر اس وقت کے وزیر آبادکاری و مہاجرین غضنفر علی نے دلّی، یو پی، راجستھان اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں سے آنے والے مہاجرین کی ٹرینوں کو لاہور میں ٹھیرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس کی تفصیل ممتاز نقاد اور شاعر سلیم احمد نے اپنی مشہور زمانہ نظم مشرق میں اپنے اور انتظار حسین کے مکالمے کے ذریعے پیش کی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔
صبح کی نرم و نازک سی پہلی کرن
شوخ رنگوں کی تتلی کی مانند
اپنے چمکتے ہوئے پَر کھول کر
میرے چہرے پر منڈلا رہی تھی
انتظار اپنی مخصوص آواز میں
جو گلے کی خرابی کے باعث نہیں
ویسے ہی
بیٹھی بیٹھی سی لگتی ہے
یہ کہہ رہا تھا
اٹھو یار
تم تو بہت سو چکے
اب اٹھو چائے پی لو
خبر ہے ہماری ٹرین اب کہاں جائے گی؟
کہاں؟
میں نے آنکھوں کو ملتے ہوئے
چائے کی ایک چسکی لگا کر کہا
ارے اب یہ سرگودھا جائے گی
سرگودھا کیوں؟ مگر ہم تو لاہور جائیں گے
کیوں؟
مگر ہم تو لاہور ہی جائیں گے
تمہیں کچھ خبر ہے
غضنفر علی خان نے
گاڑی کو لاہور میں داخلے کی اجازت نہیں دی
اجازت نہیں دی!
مجھے چائے کا ذائقہ کچھ کسیلا لگا
غضنفر علی کون ہے
میں تو اقبال کے شہر آیا ہوں
داتا کی نگری میں آیا ہوں
یہ وہ شہر ہے
جس کی خاطر مجھے
خوں کے سیلاب میں سے گزرنا پڑا ہے
کراچی کے عالم میں انتخاب ہونے کا اندازہ اس کی ممتاز شخصیات سے بخوبی کیا جاسکتا ہے، کراچی محمد حسن عسکری کا شہر تھا، مفتی رفیع عثمانی کا شہر تھا، مولانا ایوب دہلوی کا شہر تھا، سلیم احمد کا شہر تھا، قمر جمیل کا شہر تھا۔ محمد حسن عسکری کی عظمت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ گزشتہ پانچ سو سال میں اردو نے محمد حسن عسکری سے بڑا نقاد پیدا نہیں کیا۔ عسکری صاحب جیسا نقاد نہ عسکری سے پہلے کوئی تھا، نہ عسکری کے زمانے میں کوئی ان جیسا تھا، نہ عسکری کے بعد کئی ان جیسا سامنے آیا، نہ مستقبل قریب میں عسکری کے جیسا نقاد پیدا ہونے کا کوئی امکان ہے۔ عسکری کا علم قاموسی یا Encyclo pedic تھا۔ وہ مشرق و مغرب کے علوم گھول کر پی گئے تھے۔ ہماری تاریخ میں ان جیسا مطالعہ صرف اقبال کا تھا۔ گو عسکری صاحب مغرب کو اقبال سے زیادہ بہتر جانتے تھے۔ مفتی رفیع عثمانی ہمارے بڑے علما میں سے ایک تھے۔ انہوں نے معارف القرآن کے عنوان سے آٹھ جلدوں میں قرآن مجید کی تفسیر لکھی ہے۔ عسکری صاحب اس تفسیر کو اتنا پسند کرتے تھے کہ وہ اس کا ترجمہ انگریزی میں کررہے تھے مگر وہ معارف کی صرف پہلی جلد کا ترجمہ کرسکے۔ ملک الموت نے عسکری کو یہ منصوبہ مکمل کرنے کی اجازت نہیں دی۔ مولانا ایوب دہلوی کو رازیٔ دوراں کہا گیا ہے۔ یہ مبالغہ ہے مگر ایسا مبالغہ جس کے بغیر مولانا ایوب دہلوی کی اہمیت بیان نہیں ہوسکتی۔ مولانا تحریر کے بجائے تقریر کے آدمی تھے۔ انہوں نے تقدیر کے مسئلے پر ایسی تقریر چھوڑی ہے کہ برصغیر کا کوئی عالم اس موضوع پر اس طرح کلام نہیں کرسکا۔ سلیم احمد نے تنقید کو تہذیب بنادیا ہے۔ وہ غزل کے بڑے شاعر تھے۔ ظفر اقبال جیسے شاعر نے اپنی شاعری میں ان کی طالب علمانہ پیروی کی ہے۔ سلیم احمد نے ریڈیو کے لیے پونے دو سو ڈرامے لکھے۔ انہوں نے 30 سے زیادہ فلموں کے مکالمے تحریر کیے۔ انہوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے تعبیر جیسا سیریل تحریر کیا۔ انہوں نے نسیم حجازی کے ناولوں آخری چٹان اور شاہین کی ڈرامائی تشکیل کی۔ سلیم احمد کی کتاب اقبال ایک شاعر اقبال پر لکھی جانے والی سب سے اچھی کتاب ہے۔ غالب کون میں سلیم احمد نے غالب کو ایک نئے انداز سے دیکھا اور سمجھا ہے۔ محمد حسن عسکری، آدمی یا انسان، عسکری صاحب پر اب تک لکھی گئی سب سے اچھی کتاب ہے۔ سلیم احمد کی تنقیدی کتاب نئی نظم اور پورا آدمی اردو تنقید کا سنگ میل ہے۔ قمر جمیل اردو تنقید اور شاعری میں جدیدیت کے علمبردار تھے۔ جدید مباحث پر اردو تنقید میں قمر جمیل نے جیسا لکھا کم ہی کسی نے لکھا ہوگا۔ وہ اردو ادب میں نثری نظم کے سب سے بڑے نظریہ ساز تھے۔ ان کے زیر اثر ملک کے درجنوں نوجوانوں نے نثری نظمیں لکھیں۔
کراچی کی ایک بہت ہی بڑی انفرادیت یہ ہے کہ لاہور صرف پنجابیوں کا شہر ہے، پشاور صرف پٹھانوں کا شہر ہے، لاڑکانہ صرف سندھیوں کا شہر ہے، کوئٹہ صرف بلوچوں اور پٹھانوں کا شہر ہے مگر کراچی کی 44 فی صد آبادی مہاجروں پر مشتمل ہے۔ کراچی میں 15 لاکھ پٹھان آباد ہیں، کراچی میں 10 لاکھ پنجابی رہتے ہیں۔ کراچی میں پانچ لاکھ سرائیکی رہائش پزیر ہیں۔ کراچی میں 4 لاکھ سے زیادہ بلوچ آباد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کو ’’منی پاکستان‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ نعمت اللہ خان کراچی کو منی عالم اسلام کہتے تھے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کراچی میں صرف مہاجر، پنجابی، پٹھان، سندھی، بلوچ اور سرائیکی ہی آباد نہیں یہاں لاکھوں بنگالی بھی آباد ہیں، لاکھوں برمیز بھی آباد ہیں، لاکھوں افغانی بھی آباد ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کراچی میں آپ کو ایرانی بھی مل جاتے ہیں۔ 1980 اور 1990 کی دہائی میں کراچی کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں آپ کو سیکڑوں عرب اور افریقی طلبہ بھی مل جاتے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ موریشس جیسے ملک سے بھی طلبہ پڑھنے کے لیے کراچی آتے تھے۔
بدقسمتی سے جنرل ضیا الحق نے کراچی میں جماعت اسلامی اور دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگانے کے لیے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے ذریعے کراچی میں مہاجر عصبیت کا طوفان برپا کردیا۔ یہ طوفان مہاجروں کی مذہبیت کو کھا گیا۔ اس طوفان نے ان کے علم و فضل پر خط ِ تنسیخ پھیر دیا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے شہر کو دہشت گردی کا تحفہ دیا۔ بھتا خوری کا کلچر دیا۔ بوری بند لاشوں کی سیاست دی۔ سابق ڈی جی رینجرز سندھ محمد سعید نے اے آر وائی کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ گزشتہ 35 سال کے دوران کراچی میں 93 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ یہ ہلاکتوں کی اتنی بڑی تعداد ہے کہ ہم نے بھارت کے ساتھ جو چار جنگیں لڑی ہیں ان تمام میں بھی 93 ہزار پاکستانی شہید نہیں ہوئے۔
کراچی کی تباہی و بربادی کا ایک پہلو یہ ہے کہ کراچی پورے ملک کو پالتا ہے مگر کراچی کی نصف آبادی پانی کی قلت کا شکار ہے۔ کراچی میں ٹرانسپورٹ کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ کراچی کی بیش تر سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ شہر میں جگہ جگہ گٹر ابل رہے ہیں۔ کراچی کی آبادی 3 کروڑ سے زیادہ ہے مگر اسے دو کروڑ شمار کیا جارہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کراچی کا کچرا تک اٹھانے کا مناسب انتظام نہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر لاہور ملک کو پالنے والا شہر ہوتا تو اس کا یہ حال نہ ہوتا۔ ہمیں معلوم ہے کہ اگر پشاور اور کوئٹہ ملک کو اس کی آمدنی کا 70 فی صد فراہم کررہے ہوتے تو وہاں کراچی جیسے مسائل نہ ہوتے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ کراچی 35 سال سے تباہی سے دوچار ہے مگر یہ بات نہ پنجاب اور سندھ کے سول حکمرانوں کو نظر آتی ہے نہ جرنیلوں کو دکھائی دیتی ہے۔ کراچی کے سلسلے میں کسی کا حافظہ صحت و سلامتی کے ساتھ کام کرتا نظر نہیں آتا۔