ہائی کورٹ کافیصلہ کالعدم، ممبر بورڈ آف ریونیو کالونیز کا آرڈر بحال

743
Revenue Colonies

اسلام آباد: عدالت نے ہائی کورٹ کافیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے ممبر بورڈ آف ریونیو کالونیز کا آرڈر بحال کردیا۔ جبکہ درخواست گزار مسمات بشیراں بی بی کی جانب سے جعلی درخواست دائر کرنے پر سینئر وکیل ذولفقار خالد ملوکہ اور مقتدر اخترشبیرکی سخت سرزنش کی اوران کا کیس پاکستان بار کونسل کو ایکشن کے لئے بھجوانے کی بھی وارننگ بھی دی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اورجسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے مسمات بشیراں بی بی اودیگر کی جانب سے ممبر بورڑ آف ریونیو پنجاب اوردیگر کے خلاف جبکہ ممبر بورڑ آف ریونیو پنجاب کی طرف سے مسمات بشیراں بی بی اوردیگر کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواستوں میں لاہورہائی کورٹ ملتان بینچ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔

دوران سماعت پنجاب حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل خالد اسحاق پیش ہوئے جبکہ مسمات بشیراں بی بی کی جانب سے سابق سیکرٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن مقتدر اخترشبیر اورسینئر وکیل ذولفقار خالد ملوکا پیش ہوئے۔دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق نے بینچ کو بتایا کہ لودھراں میں ٹیوب ویل سنکنگ اسکیل کے تحت 1961میں عباس علی قریشی نامی شخص کو الاٹ ہونے والی 1200کنال سرکاری زمین کو واپس سرکاری استعمال کے لئے لینے کے حوالہ سے سالانہ 13.5فیصد مارک اپ کے ساتھ 62لاکھ روپے کا چیک لائے ہیں تاہم مسمات بشیراں بی بی کے لواحقین سامنے آنے اوررقم وصول کرنے کو تیار نہیں۔

خالد اسحاق کا کہنا تھا کہ 1961میں عباس علی قریشی کو ٹیوب ویل سنکنگ اسکیم کے تحت 1200کنال اراضی الاٹ ہوئی، اوریجنل الاٹی 1972میں انتقال کرگیا، اسکیم کے تحت 20سال تک زمین آگے فروخت نہیں ہوسکتی تھی جبکہ پالیسی میں لکھا تھاکہ حکومت معاوضہ اداکرکے زمین واپس بھی لے سکتی ہے۔ خالد اسحاق کا کہنا تھاکہ لواحقین نے پہلے 1974میں شبیر احمد نامی شخص کو زمین 2لاکھ 75ہزارروپے میں بیچی جبکہ یہی زمین دوبارہ عبدالرشید کو 1979میں فروخت کردی۔ خالد اسحاق کا کہناتھاکہ الاٹی کو پراپرٹی رائٹس 1982میں ملے ، حکومت نے31اکتوبر1997کو ڈسٹرکٹ کورٹس لودھراں کی تعمیر کے لئے زمین واپس لے لی۔

ان کا کہنا تھاکہ 18نومبر1997کو ممبر کالونیز کے آرڈر کو چیلنج کیا گیا۔ ممبر کالونیز نے قراردیا کہ زمین ٹیوب ویل سنکنگ اسکیم کے لئے دی گئی ہے۔ دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے انکشاف کیا کہ مدعا علیہ ابراہیم قریشی انویسٹر ہیں۔ان کاکہناتھاکہ 27جنوری 2001کو ڈسٹرکٹ جج لودھراں نے ہماری اپیل منظور کر لی اورکیس ریمانڈ کردیا۔

درخواست گزاروں کی جانب سے کیس بحالی کی تین درخواستیں عدم پیروی کی بنیاد پر خارج ہوئیں، تیسری درخواست 10اپریل2007کو خارج ہوئی۔ خالد اسحاق کا کہناتھاکہ ابراہیم قریشی 30جون2007کو کہتا ہے کہ میں نے معاہدہ کیا ، میں دکھادیتا ہوں یہ معاہدہ بھی فراڈ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ 29دسمبر2008کو سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کالونیز نے زمین سرکاری استعمال کے لئے واپس لینے کے حکم کے خلاف درخواست خارج کی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ یہ کیس فائل کون کررہا ہے، اس پر کسی کے دستخط تونہیں۔ چیف جسٹس نے ذولفقار خالد ملوکا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بشیراں بی بی کی درخواست ہے اس پر دستخط کس نے کئے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ درخواست 18اپریل 2007کو لاہور ہائی کورٹ میں دائر ہوئی۔چیف جسٹس نے ذولفقار خالد ملوکا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ میں رٹ پیٹیشن پر کس نے دستخط کئے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ بابر علی نامی شخص نے انگوٹھا لگایا۔

ان کا کہنا تھا کہ عباس علی کے لواحقین نے 1982میں 81ہزاروپے جمع کروائے۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ کدھر ہے ابرہم قریشی اس کی شکل تودیکھیں۔ ا س پر کمرہ عدالت میں موجود ابراہیم قریشی روسٹرم پر آگئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مفادات کا ٹکرائو ہے کہ نہیں کیونکہ بشیراں بی بی کا کوئی وجود نہیں اور دونوں وکلاء کو ابراہیم قریشی ہدایات دے رہا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ توکریمنل چارج فریم کرنے کا مناسب کیس ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا پینل کوڈ کھولیں، یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ دونوں لوگوں کو ایک شخص نے وکیل کرلیا۔ خالد اسحاق کا کہنا تھا کہ یہ زیرالتواء مقدمہ میں سرمایاکاری کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کیسے ابراہیم قریشی زمین کی ملکیت کا دعویٰ کررہے ہیں، دونوں کا ایک ہی کلائنٹ ہے۔ چیف جسٹس نے ذولفقار خالد ملوکا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے تو لواحقین کو پیش کریں اورپھر ان کی جانب سے بات کریں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ ریکارڈ دکھائیں کہ کیسے یہ معاہد قابل شناخت، قابل سماعت اورقابل نفاذ ہے، یہ توایسے ہی ہے کہ ہم سپریم کورٹ میں کسی کو ٹھیلہ کھول دیں کل کو وہ بیچ دے یہ آپ کا کیس ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا ہم اولڈ فیشنڈ ہیں اورقانون کے مطابق چلتے ہیں، یہ معاہدہ ردی کی ٹوکری میں پھینکے جانے کے قابل ہے۔

چیف جسٹس نے وکیل مقتدراخترشبیر کو ہدایت کہ کہ ہمیں انگزیزی کا ترجمہ نہ پڑھ کر بتائیں، صرف قانون پرھ دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ وکالت کی نئی قسم ہے کہ جج سوال پوچھے توجواب ہی نہ دو،مجھے سمجھ نہیں آرہی سارے آداب ہی ختم ہو گئے۔

چیف جسٹس کا کہناتھا کہ سپریم کورٹ کا مذاق نہ اڑائیں، جوہاوی ہوجائے وہ بات کرلے، ہم بتارہے ہیںکہ کہ کیا پڑھیں اورکس طرح کیس چلائیں ، تھوڑی سپریم کورٹ تیاری کرکے آیاکریں، آپ توہمیں کیس میں تھکادیں گے، اپنی مرضی سے چیزیں پڑھنا چاہتے ہیں توپھر فیصلے بھی خود ہی لکھ لیں، کہہ کہہ کرتھک گیا ہوں پڑھ لیں، لیز ہے ہی نہیں، دستاویز کا وجود نہیں اورسپریم کورٹ آگئے،آپ کی حمایت میں کوئی دستاویز ہی نہیں، کوئی کاغذ کا ٹکڑا دکھائیں۔ شکر ہے یہ نہیں کہا کہ پاکستان میرے حوالہ کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ زبانی جمع خرچ نہیں کوئی ثبوت دکھا دیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ ہم فیکٹس توپوچھ ہی نہیں رہے، قانون پوچھ رہے ہیں، تقریر نہ کریں۔ کیا ہمارے لئے کیس سننا آزمائش کا مقام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہاتھ سے لکھی نہیں بلکہ اصل دستاویزات دکھائی، کوئی نہ دستخط ہیں، نہ مہر ہے ، کاغذکاٹکڑا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ٹیوب ویل سنکنگ اسکیم سرکاری زمین ہے، غریب لوگوں کے لئے کہ آئو اورکھیتی باڑی کرو پھر ہم ملکیتی حقوق دے دیں گے، بڑے لوگوں کے لئے نہیں کہ آکر زمین ہتھیا لیں، آپ کو زمین نہیں دی کدھر سے آگئے، معاہد ہ کدھر ہے وہ ہی دکھادیں،ہمارے زمانے میں درخواست میں لکھا ہوتاہے کہ کوئی چیزعدالت سے چھپائی نہیں گئی۔

جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ٹیوب ویل سنکنگ اسکیم میں متبادل زمین دینے کی شق شامل نہیں۔ 

چیف جسٹس نے آرڈرلکھواتے ہوئے کہا کہ عباس علی قریشی کی اہلیہ مسمات بشیراں بی بی اوردیگر بتائے گئے لواحقین کی جانب سے درخواست ابراہیم قریشی کی جانب سے دائر کی گئی۔ ذوالفقار خالد ملوکا لواحقین نہیں بلکہ ابراہیم قریشی سے ہدایات کے رہے تھے جس کو چھپایا گیا اور یہ مفادات کاٹکرواؤ ہے۔ پنجاب حکومت نے عباس علی قریشی کے لواحقین کی جانب سے اداکی گئی رقم پر 13.5فیصد بلندترین مارک اپ لگا کر 62لاکھ روپے سے زائد رقم کا چیک تیارکیا ہے۔ لواحقین کوتلاش کرنے کی کوشش کی گئی تاہم کوئی سامنے آنے کو تیارنہیں۔ اگردیکر درخواست گزاروںکا کوئی دعویٰ ہے تواس کا قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔

ہائی کورٹ کے پاس کسی کو زمین دینے کا اخیتارنہیں اگر وہ لوگوں کو زمین دیتی پھرے گی تو پھروہ حکومت کاکام کررہی ہو گی، ہم چیزوں کو ٹھیک کررہے ہیں، چیزوںکو قانون کے دائر ے میںلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس دوران بات کرنے پر چیف جسٹس نے مقتدر اخترشبیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ پر بھاری جرمانہ لگانے کا سوچ رہے ہیں، شبیراں کہاں ہے، یہ بتادیں،سچ، جھوٹ، غلط، صیح میں فرق ہی نہیں رہ گیا۔ مجبور کررہے ہیں کہ میں عدالت سے سزا لے کر ہی جائوں گا، پاکستان بارکونسل کوآپ کاکیس بھیج دیںکہ کس طرح درخواست گزارکودیکھے بغیر کیس کررہے ہیں۔ اگرعدالت غلط بات کہہ رہی ہے توکہیں، اگر بشیراں بی بی کے لواحقین پاکستان بارکونسل کو درخواست دیں کہ یہ ہمارا وکیل نہیں تھا تو پھر آپ کیاجواب دیں گے، جتنا بندہ اوپرجاتاہے اتنا ہی زیادہ قابل احتساب ہوتاہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ ہائی کورٹ کے فیصلے میں ان حقائق کاذکر نہیں جو ہمارے سامنے لائے گئے ہیں۔ ہائی کورٹ کو ممبرکالونیز کا آرڈر کالعدم قراردینے کا اختیارنہیںتھا۔ عدالت نے ہائی کورٹ کافیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے ممبر بورڈ آف ریونیو کالونیز کا آرڈر بحال کردیا۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ عباس علی قریشی کے لواحقین معاوضہ کے حقدار ہیں۔ عدالت نے حکومت کی جانب سے دائر درخواستیں منظور جبکہ مسمات بشیراں بی بی کی جانب سے دائر درخواستیں خارج کردیں۔ عدالت نے قراردیاہے کہ اگر دیگر پارٹیوں کے کوئی حقوق ہیں توہ اس فیصلہ سے متاثر نہیںہوں گے۔