امریکی جامعات میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے، مغرب میں انقلاب کا آغاز

304

فلسطینیوں پر بہیمانہ اسرائیلی مظالم اور امریکا کی جانب سے اسرائیل کے جنگی جرائم کی پشت پناہی کوئی نئی بات نہیں۔ امریکا ہمیشہ ہی سے اسرائیل کا ممد و معاون رہا ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے خود امریکا میں ان منافقانہ پالیسیوں کے خلاف اٹھتی ہوئی آوازیں تبدیلی کی لہر کا اعلان کررہی ہیں۔ امریکی یونیورسٹیوں میں اسرائیل مخالف مظاہروں کے بعد ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ مسئلہ فلسطین پر مغربی عوام خصوصاً نوجوانوں کی سوچ بتدریج تبدیل ہورہی ہے۔

کولمبیا یونیورسٹی میں فلسطین کی حمایت میں اٹھنے والی طلبا کی تحریک کئی امریکی ریاستوں کی یونیورسٹیوں میں بغاوت کو جنم دینے کا سبب بنی ہے جو سوشل میڈیا کے سہارے بہت تیزی سے پھیلتی جارہی ہے اور لوگ اسے مغربی پوزیشن میں حقیقی تبدیلی کے آغاز کا نام دے رہے ہیں۔

امریکی یونیورسٹیوں میں ‘بغاوت’ کیسے شروع ہوئی؟

فلسطین پر اسرائیل کے مظالم اور اس کی حامی امریکی پالیسیوں کے خلاف وقتاً فوقتاً امریکا میں احتجاجی آوازیں بلند ہوتی رہی ہیں۔ اسرائیلی دہشتگردی کی مخالفت کرنے والے امریکی اب اپنی حکومتوں  کے منافقانہ رویے سے اکتا چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا جن انسانی حقوق کا علم بردار بنتا ہے اسرائیل کی حمایت سے ان کی اخلاقیات پر ضرب پڑتی ہے۔ فلسطین پر مسلط کی گئی اسرائیل کی حالیہ جنگ کے بعد امریکا کی مختلف ریاستوں میں غزہ کی حمایت میں لگاتار مظاہرے کیے جارہے ہیں۔ نیویارک، شکاگو، لاس اینجلس اور ڈیٹرائٹ جیسے بڑے شہروں میں منعقد ہونے والے ان مظاہروں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی، جو مجموعی طور پر لاکھوں میں بنتی ہے۔

احتجاج کی مہم میں اہم بڑا موڑ اس وقت سامنے آیا جب کولمبیا یونیورسٹی میں فلسطین کی حمایت میں طلبا کی تحریک نے کئی دیگر امریکی یونیورسٹیوں میں بڑی بغاوت کو جنم دیا۔ مین ہٹن میں کولمبیا یونیورسٹی کا کیمپس غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جنگ کو مسترد کرنے والے مظاہرین کے لیے ایک اجتماع کے مقام میں تبدیل ہوچکا ہے۔

کہانی کا آغاز ‘‘کولمبیا اسٹوڈنٹس فار جسٹس فار فلسطین’’ نامی اکاؤنٹ کی ایک ٹویٹ سے ہوا تھا، جس کے 14,000 سے زیادہ فالوورز ہیں۔ اس ٹویٹ میں کہا گیا تھا، ‘‘کولمبیا یونیورسٹی کے طلبا نے کیمپس کے وسط پر قبضہ کرلیا اور غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کےلیے ایک کیمپ لگایا۔’’

اس دھرنے کو طلبا کے احتجاج کا گہوارہ  اور مرکزی نقطہ آغاز سمجھا جا رہا ہے جو غزہ پر جنگ روکنے کےلیے دباؤ کا مطالبہ کرنے کےلیے دوسری یونیورسٹیوں تک پھیل گیا۔

کولمبیا یونیورسٹی کے طلبا نے غزہ میں مستقل جنگ بندی، اسرائیل کےلیے امریکی فوجی امداد بند کرنے اور غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں سے یونیورسٹی کی سرمایہ کاری واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

یونیورسٹی کے حکام نے شرکا کو منتشر کرنے کےلیے اپنی پہلی وارننگ جاری کی، لیکن طلبہ نہیں رکے اور مظاہرین کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ جس کے بعد یونیورسٹی کی انتظامیہ نے نیویارک پولیس کو مطلع کیا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پولیس کولمبیا یونیورسٹی کے کیمپس میں 1968 کے احتجاج کے بعد داخل ہوئی ہے، جو اس دور میں ویتنام کی جنگ کے خاتمے کے مطالبے کےلیے ہوئے تھے۔ یہاں سے طلبا اور پولیس کے درمیان بڑے پیمانے پر تصادم اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ یونیورسٹی میں ہونے والے احتجاج میں شامل مظاہرین میں تمام قومیتوں اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے موجود تھے، جن میں خود یہودی بھی شامل ہیں۔ یہ یہودی مظاہرین ’ناٹ آن آور نیم‘ (ہمارے نام پر نہیں) کے نعرے لگا کر اس بات پر زور دے تھے کہ غزہ میں جاری مسلسل بمباری کو تمام یہودیوں کی حمایت حاصل نہیں ہے۔

امریکی یونیورسٹیوں میں چل کیا رہا ہے؟

غزہ میں جنگ کے خلاف امریکا میں طلبا کے مظاہروں میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران شدت اور وسعت آئی ہے، جس کے بعد اب کولمبیا، ییل اور نیویارک سمیت دیگر یونیورسٹیوں میں بھی احتجاجی کیمپ قائم کردیے گئے ہیں۔ جیسے جیسے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں، کئی یونیورسٹیوں نے مظاہرین کو گرفتار کرنے کےلیے پولیس کو طلب کیا۔

احتجاجی طلبا غزہ میں مستقل جنگ بندی، اسرائیل کو امریکی فوجی امداد کے خاتمے، اسلحہ فراہم کرنے والوں اور جنگ سے فائدہ اٹھانے والی دیگر کمپنیوں سے یونیورسٹی کو روابط منقطع کرنے کے مطالبات کررہے ہیں۔

فلسطین کے حامی مظاہرین میں مختلف پس منظر اور مسلم و یہودیوں سمیت تمام عقائد سے تعلق رکھنے والے طلبا اور فیکلٹی ممبران شامل ہیں۔ احتجاجی مظاہروں کو منظم کرنے والے گروپوں میں اسٹوڈنٹس فار جسٹس اِن فلسطین اور جیوش وائس فار پیس نمایاں ہیں۔ کیمپوں میں دعاؤں اور دیگر سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کے تدریسی پروگرام بھی  منعقد کیے جا رہے ہیں، جس سے دیگر لوگوں کو کسی نہ کسی طرح سے ظلم اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج کا حصہ بننے کے لیے راغب کیا جا رہا ہے۔

انسانیت کی خاطر ظلم کیخلاف بولنے والوں کیساتھ سلوک

یونیورسٹی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے طلبہ کے احتجاج کے خلاف سخت ایکشن لیا ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی اور اس سے منسلک برنارڈ کالج نے احتجاج میں حصہ لینے والے درجنوں طلبا کو معطل کردیا اور کولمبیا میں 100 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کرلیا گیا، جہاں یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ایوان نمائندگان کے سامنے گواہی دینے کے ایک دن بعد نیویارک پولیس کو کیمپ خالی کرنے کےلیے بھی طلب کیا۔ کمیٹی نے کہا کہ کیمپ نے غیر مجاز احتجاج کےلیے حکومت مخالف قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔

اُدھر ییل پولیس نے بھی 60 سے زیادہ مظاہرین کو گرفتار کیا ہے۔ نیویارک پولیس ڈپارٹمنٹ نے کہا کہ افسران نے نیویارک یونیورسٹی میں 120 افراد کو گرفتار کیا، اور یونیورسٹی کے حکام نے کہا کہ انہوں نے پولیس سے مداخلت کی درخواست کی کیونکہ مظاہرین منتشر نہیں ہوئے تھے اور وہ ‘‘ہماری کمیونٹی کی حفاظت اور سلامتی کو متاثر کر رہے تھے۔’’

احتجاج کی انقلابی لہر پر سیاسی رہنماؤں کا ردعمل

امریکی صدر کو مظاہرین کی جانب سے اسرائیل کو فنڈنگ اور ہتھیار فراہم کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس پر صدر جوبائیڈن نے ہمیشہ کی طرح ڈھٹائی اور اسرائیل نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ وہ ‘‘یہود مخالف مظاہروں’’ کی مذمت کرتے ہیں۔ اسی طرح 2024 کے انتخابات کے ریپبلکن امیدوار سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کالج کیمپس میں ہونے والے احتجاج کو ‘‘افراتفری’’ قرار دیا ہے۔

سوشل میڈیا صارفین کی رائے

سوشل میڈیا پر سرگرم کارکنوں نے کولمبیا یونیورسٹی میں طلبا کے احتجاج کی اس تاریخی لہر پر اپنی رائے دی ہے۔ سوشل میڈیا صارف عمر سفیان نے عرب یونیورسٹیوں کی سُستی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکا میں فلسطینیوں کے دفاع میں جو کچھ ہورہا ہے وہ قابل تقلید ہے کیوں کہ فلسطینی اسرائیل کے ہاتھوں نسل کشی کا نشانہ بن رہے ہیں۔  اس صورت حال میں عرب ممالک کی یونیورسٹیاں کہاں ہیں؟۔

ایک اور سوشل میڈیا صارف امیر نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ کولمبیا یونیورسٹی میں جو کچھ ہورہا تھا وہ تمام ثبوتوں کے ساتھ نام نہاد آزاد دنیا کے جھوٹ کو ثابت کرتا ہے، جو انسانی حقوق، جمہوریت اور آزادی اظہار کی تعریف کرتی ہے۔ ‘‘اس منافقت کا اصل خاتمہ غزہ سے شروع ہوا۔’’

سوشل میڈیا کے ذریعے امریکی احتجاجی مہم کی حمایت کرنے والے دراصل وہ لوگ ہیں جو یقین رکھتے ہیں کہ امریکی یونیورسٹیاں اس وقت جو کچھ تجربہ کر رہی ہیں وہ ‘‘مغربی بیداری کا آغاز اور رائے عامہ میں حقیقی تبدیلی’’ ہے۔  جیسا کہ سوشل میڈیا صارف مراد کا خیال ہے کہ ‘‘یونیورسٹی سائنس، سیکھنے والوں اور سچ کی تلاش کرنے والے ذہنوں کےلیے ایک انکیوبیٹر ہے’’۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ‘‘جبر اسے نہیں روک سکے گا۔’’

طلبا کی بغاوت جدید امریکی تاریخ کا نیا باب

امریکا میں طلبا کا احتجاج پہلی بار نہیں ہو رہا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ نصف صدی سے زائد عرصہ قبل بھی طلبا کی احتجاجی تحریک نے مختلف امریکی یونیورسٹیوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ 4 مئی 1970 کو کینٹ اسٹیٹ یونیورسٹی کے کیمپس میں جاری طلبا کے مارچ کو ختم کرنے کے لیے انتظامیہ نے اوہائیو نیشنل گارڈ کو طلب کیا تھا۔ اس احتجاج میں ویتنام کی جنگ میں بڑھتی ہوئی امریکی شمولیت اور کمبوڈیا پر بمباری کی مخالفت کی گئی تھی۔ لیکن یونیورسٹی انتظامیہ کو اپنے طالب علموں کے غصے کی حد کا اندازہ نہیں تھا۔ اس احتجاج میں 4 طالب علم ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔

حالیہ دور میں 7 اکتوبر 2023 کو فلسطین پر ہونے والے اسرائیلی حملے اور اس کے نتیجے میں غزہ کی پٹی پر امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی جارحیت کے بعد سے، جس میں 34,000 سے زیادہ شہید اور 100,000 سے زیادہ فلسطینی زخمی ہوئے، امریکی یونیورسٹیوں، خاص طور پر اشرافیہ، نے دوبارہ طلبا کے احتجاج کا مشاہدہ کیا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ویتنام جنگ کی تحریک، جس کا مقصد قبضے کےلیے امریکی حمایت کو روکنا، مظاہرین کی یونیورسٹیوں اور اسرائیل کے درمیان سائنسی اور تحقیقی تعاون کو روکنا اور ان میں سرمایہ کاری کو واپس لینا تھا۔

پروپیگنڈا اور ریاستی جبر

اسرائیل کے حامی، صہیونی لابی اور امریکا بھر میں پھیلی ہوئی مختلف تنظیمیں ایسی کسی بھی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کررہی ہیں جو اسرائیلی بیانیے کی مخالفت کرتی ہو، غزہ کی پٹی کے مکینوں پر قبضے کے حملوں کی مذمت کرتی ہو یا جنگ بندی کا مطالبہ کرتی ہو۔

یہ رویہ 1940 اور 1950 کی دہائیوں میں میک کارتھیزم کے دور کی یاد دلاتا ہے، جو امریکی اداروں پر مبینہ کمیونسٹ اور سوویت اثر و رسوخ کے خوف کو پھیلانے والی مہم کے دوران بائیں بازو کے خلاف سیاسی جبر اور ظلم و ستم کی خصوصیت رکھتا تھا۔

جدید میک کارتھیزم کے اطلاق میں، یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا نے مسلمان طالبہ اسنا تبسم کو اسرائیل کے حامی طلبا گروپوں کی جانب سے شکایت موصول ہونے کے بعد گریجویشن تقریر کرنے سے روک دیا۔ اسنا کے تمام الزامات سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایک ایسے صفحے سے منسلک ہوتے ہیں جو صہیونیت کو ‘‘نسل پرست آبادکار نوآبادیاتی نظریہ’’ کے طور پر تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔

اسی طرح وال اسٹریٹ جرنل میں مصنفہ ایرا اسٹول نے اسرائیل مخالف مظاہرین کو ایسا کرنے کےلیے ادائیگی کرنے کا الزام لگایا۔

مستقبل کا منظرنامہ، فلسطینی حمایت میں اضافہ

7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے مزاحمتی حملے کے بعد ہونے والے ایک پول میں یہ انکشاف ہوا کہ 30 سے 35 سال کی عمر کے 25 فیصد امریکی شہری اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینیوں کی مزاحمت پر مثبت رائے رکھتے ہیں۔ اسرائیلی مظالم کے خلاف ہونے والے مظاہرے اور آن لائن پلیٹ فارمز پر فلسطینیوں کے حق میں بلند ہوتی ہوئی آوازیں، امریکی عوام کی سوچ میں تبدیلی کا اشارہ دے رہی ہیں۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی امریکی تنظیموں کی رائے کے مطابق اس تنازع میں فلسطین کی حمایت میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ یہ امر اسرائیل کو ہر سال اربوں ڈالرز دینے والے ملک کے لیے انتہائی عجیب ہے، کیونکہ یہ چھوٹی سی تبدیلی بھی مستقبل کا منظرنامہ بدلنے میں اہم ثابت ہوسکتی ہے۔