مذہب، سائنس اور جاوید چودھری کی لاعلمی

1203

قائدا عظم نے کہا تھا صحافت اور قوموں کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے۔ یعنی صحافت عروج کی طرف جاتی ہے تو قوم بھی عروج کی منزلیں طے کرتی ہے۔ صحافت زوال آمادہ ہوتی ہے تو قوم پر بھی پژمردگی طاری ہونے لگتی ہے اس کا ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ جب تک برصغیر کی مسلم صحافت مولانا آزاد، مولانا مودودی، مولانا محمد علی جوہر، حسرت موہانی اور مولانا ظفر علی خان کے ہاتھ میں تھی برصغیر کی ملت اسلامیہ بھی بیدار اور متحرک تھی۔ لیکن اب ہماری صحافت میں کوئی ابوالکلام آزاد اور مولانا مودودی کیا حسرت موہانی اور ظفر علی خان بھی نہیں ہے۔ چنانچہ اب ہماری صحافت میں نہ مذہب زیر بحث آتا ہے، نہ کوئی فلسفے پر کلام کرتا ہے، اب نہ ہمارے درمیان کوئی شعر و ادب کا شناور ہے، نہ عمرانیات، نفسیات اور سائنس کا جاننے والا۔ ہماری صحافت اس وقت صرف سیاست کا طواف کررہی ہے۔ ہماری 98 فی صد خبریں سیاست سے متعلق ہوتی ہیں۔ ہمارے 98 فی صد کالم سیاست کی جگالی کرتے پائے جاتے ہیں۔ ہمارے 98 فی صد اداریے سیاسی موضوعات پر لکھے گئے ہوتے ہیں۔ ہمارے ٹی وی چینلوں کے 98 فی صد ٹاک شوز سیاست میں لتھڑے ہوتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم سیاست پر بھی علمی اور نظریاتی گفتگو نہیں کررہے۔ البتہ بسا اوقات ہمارے بعض کالم نویس کسی علمی موضوع پر کلام کرلیتے ہیں مگر اس کلام سے ان کا سارا کھایا پیا سامنے آجاتا ہے اور قارئین جان لیتے ہیں کہ ان لوگوں نے جس موضوع پر کلام کیا ہے اس کی الف ب سے بھی وہ واقف نہیں ہیں۔ اس کی ایک حالیہ مثال جاوید چودھری کا کالم ہے۔ اس کالم میں جاوید چودھری نے جو کچھ لکھا ہے اس کے دو حصے ہیں۔ ایک حصے میں جاوید چودھری نے ضلع بنوں کی تحصیل ڈومیل میں رونما ہونے والے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے۔ جبکہ دوسرے حصے میں انہوں نے مذہب اور سائنس پر گفتگو کی ہے۔
واقعہ کیا ہے اس کی تلخیص جاوید چودھری نے کالم میں اس طرح بیان کی ہے۔ ڈومیل کی غریب خواتین بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے امداد لینے جاتی تھیں۔ علما نے فتویٰ دے دیا کہ کوئی عورت محرم کے بغیر گھر سے نہیں نکل سکتی۔ علاقے کے ’’روشن خیال‘‘ لوگوں نے اس واقعے پر ایک سیمینار کر ڈالا۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بایولوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر شیر علی نے برقع اور پردے کو غیر پختون روایت قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام میں کہیں پردے کا ذکر نہیں۔ انہوں نے ترکی اور ملائیشیا کا ذکر کیا جہاں پردہ لازم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دونوں ملک ترقی یافتہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیا ہم ان ملکوں کے لوگوں سے زیادہ مسلمان ہیں۔ انہوں نے کہا لڑکی لڑکے سے پہلے بالغ ہوجاتی ہے اس لیے عورت مرد کے سامنے ناقص العقل نہیں ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ڈارون کو بھی کوٹ کر ڈالا۔ علما نے پروفیسر شیر علی کے خیالات کو باطل اور خلاف اسلام قرار دے دیا۔ چنانچہ علاقے کے لوگوں نے پروفیسر اور ان کے اہل خانہ کا سوشل بائیکاٹ کردیا۔ اس صورت حال میں ڈپٹی کمشنر بنوں محمد نواز وزیر نے کسی طرح پروفیسر اور علما کو ایک جگہ جمع کرکے ایک معاہدہ کرادیا۔ معاہدے میں پروفیسر نے اپنے خیالات پر معافی مانگ لی۔ اس کے بعد جاوید چودھری نے مذہب اور سائنس کے حوالے سے کیا فرمایا انہیں کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
یہ اس نوعیت کا پہلا یا آخری واقعہ نہیں ہے، سائنس اور مذہب کا ٹکرائو ہزاروں سال سے جاری ہے، اہل مذہب ہمیشہ سے سائنس، قانون اور آئین سے ٹکراتے رہے ہیں، سائنس مذہبی عقائد اور روایات کو نہیں مانتی مگر اس تمام تر ٹکرائو کے باوجود دونوں علم ایک دوسرے کے ساتھ چل رہے ہیں، ڈارون خود پادری تھا، بیالوجی میں مسلمان سائنس دانوں نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔
مذہب اور سائنس میں کون ٹھیک اور کون غلط ہے یہ فیصلہ ممکن نہیں، یہ مسئلہ شاید کبھی حل نہیں ہوسکے گا، میں بہرحال مذہب اور سائنس کو ایک لکیر کے دو سِرے سمجھتا ہوں، سائنس اگر اس لکیر کا پہلا سِرا ہے تو مذہب دوسرا اور اگر ہم مذہب کو اس کا پہلا سر مان لیں تو پھر سائنس اس کا آخری سرا ہے مگر ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا ان دونوں سروں کے درمیان فساد ہے، سائنس دان علمائے کرام سے لڑ رہے ہیں اور علمائے کرام بھی سائنس دانوں کے ساتھ یہی سلوک کررہے ہیں، یہ سلسلہ شاید صور اسرافیل تک ختم نہیں ہوگا، ہمارا کمال بس یہ ہے ہم فساد کے اس دورانیے میں اپنی قدرتی زندگی مکمل کرلیں، نہ سائنس کے ہاتھوں قتل ہوں اور نہ مذہب کی چٹان کے نیچے آئیں، دوسرا دنیا میں جہالت اور ظلم کی بے شمار تعریفیں ہیں لیکن سب سے خوفناک تعریف فکری اختلاف پر دوسرے انسان کو قتل کردینا ہے، مذہب، سائنس اور انسان یہ تینوں اللہ تعالیٰ کی دین ہیں، مذہب کو ہم انسانوں نے نہیں بنایا (گو اس پر بھی اختلاف ہے) اور سائنس بھی انسان نے ایجاد نہیں کی، ہم نے کشش ثقل بنائی ہے اور نہ خلیہ، وائرس اور اینٹی باڈی، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہیں اور انسان بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں اگر امر ربی نہ ہوتا تو پروفیسر شیر علی پیدا ہوتا اور نہ وہ علمائے کرام جنہوں نے اس معاہدے پر دستخط کرائے تھے۔ (روزنامہ ایکسپریس: 31 اکتوبر 2023)
جاوید چودھری کے اس کالم میں یہ تاثر پوری طرح جلوہ گر ہے کہ علما جابر اور تنگ نظر ہوتے ہیں حالاں کہ پوری اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ علما نے مذہب بیزار مسلمانوں کو ہمیشہ برداشت کیا ہے اور اگر ضرورت پڑی ہے تو ان کے گمراہ کن خیالات کے خلاف فتویٰ دے کر رہ گئے ہیں۔ امام غزالیؒ کے زمانے میں فارابی، اور ابن سینا جیسے بڑے فلسفی یونانی فلسفے کے زیر اثر ایسے نظریات کا پرچار کرنے لگے تھے جو خلاف اسلام تھے۔ مثلاً ان دونوں فلسفیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ خدا کلیات کا علم تو رکھتا ہے مگر جزیات کا علم نہیں رکھتا۔ اسی طرح ان لوگوں کا نظریہ تھا کہ آخرت میں انسان جسمانی طور پر نہیں اٹھائے جائیں گے۔ غزالی نے ان غلط خیالات کا علمی جواب بھی دیا اور ان خیالات کے خلاف فتویٰ بھی جاری کیا۔ لیکن غزالی نے یہ نہیں کہا کہ فارابی اور ابن سینا واجب القتل ہیں۔ مولانا مودودی مجدد وقت تھے اور ان کی پوری زندگی اسلام کو غالب کرنے کی جدوجہد میں بسر ہوگئی۔ مگر اس کے باوجود ان کے شبیر حسین خان، جوش ملیح آبادی جیسے منکر اسلام کے ساتھ خاندانی تعلقات تھے۔ جوش کے انکار خدا کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے ایک شعر میں یہ تک کہہ دیا ہے۔
شبیر حسین خان نہیں لیتے بدلا
شبیر حسین خان سے بھی چھوٹا ہے خدا
جوش کی بے راہ روی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنی خود نوشت یادوں کی بارات میں اپنے دو درجن سے زیادہ معاشقوں کا ذکر کیا ہے۔ مگر مولانا نے ان تمام چیزوں کو جوش کے ساتھ اپنے مراسم پر اثر انداز نہیں ہونے دیا۔ جوش مولانا سے اس حد تک ’’فری‘‘ تھے کہ مولانا کو گردے میں پتھری ہوئی تو جوش مولانا کی عیادت کے لیے آئے اور کہنے لگے دیکھیے خدا آپ کو اندر سے سنگسار کررہا ہے۔ یہ بذلہ سنجی نہیں تھی۔ یہ بدفطرتی کا اظہار ہے مگر مولانا نے اس بدفطری کو بھی مراسم پر اثر انداز نہ ہونے دیا۔ زیر بحث واقع میں بھی علما صرف اس بات سے مطمئن ہوگئے کہ پروفیسر نے اپنے خیالات سے رجوع کرلیا۔
پروفیسر شیر علی نے اپنی گفتگو میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ اسلام میں پردہ ہے ہی نہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں ترکی اور ملائیشیا کی مثالیں بھی دیں۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جاوید چودھری کو شیر علی کے اس دعوے سے رَتی برابر بھی روحانی اور نفسیاتی تکلیف نہ ہوئی۔ ہوتی تو وہ اپنے کالم کی دوچار سطروں میں اس کا اظہار ضرور کرتے۔
حقیقت یہ ہے کہ عورت کا پردہ نصِ قرآنی اور حدیث مبارک سے سو فی صد ثابت ہے البتہ فقہا میں اس بات پر اختلاف ہے کہ بعض فقہا چہرے کے پردے کے بھی قائل ہیں اور بعض فقہا چہرے کے پردے کے قائل نہیں ہیں۔ لیکن پردے پر پوری امت کا اجماع ہے مگر جاوید چودھری کے لیے قرآن و سنت کے حکم اور امت کے اجماع کے کوئی اہمیت ہی نہیں۔ ایاز امیر پنجاب کے روشن خیال صحافی ہیں۔ وہ اپنے کالموں میں کئی بار لکھ چکے ہیں کہ پنجاب میں پردہ دہلی اور یوپی کی خواتین لے کر آئیں ورنہ پنجاب میں کبھی بھی پردہ نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن بھائی پردہ دہلی اور یوپی کے لوگوں کی ایجاد نہیں یہ اسلام کا حکم ہے۔ کروڑوں مسلمان خواتین ایسی ہیں جو پردہ نہیں کرتیں مگر وہ یہ نہیں کہتی کہ اسلام میں پردہ ہے ہی نہیں۔
جاوید چودھری نے دعویٰ کیا ہے کہ مذہب اور سائنس کا ٹکرائو ہزاروں سال سے ہورہا ہے۔ یہ دعویٰ نری جہالت ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جاوید چودھری نے کبھی مذہب اور سائنس کے ٹکرائو کے حوالے سے کوئی بنیادی کتاب نہیں پڑھی۔ جاوید چودھری کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ 17 ویں صدی سے پہلے مذہب اور سائنس میں کوئی تصادم نہیں تھا۔ قدیم یونان اور مسلمانوں نے جو سائنس پیدا کی تھی وہ مذہب کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ تھی۔ مذہب اور سائنس کا تصادم 17 ویں صدی میں یورپ سے شروع ہوا۔ اس اجماع کی تھوڑی سی تفصیل ڈاکٹر ظفر نے عسکری صاحب کی نگرانی میں لکھے گئے پی ایچ ڈی کے مقالے میں بیان کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے۔
’’1615ء میں دور بین کے موجد گیلی لیو نے کرسٹینا آف ٹسکنی کو ایک خط میں ’’انجیل سے اقتباسات اور ان کی سائنسی معاملات سے مناسبت کے عنوان سے لکھا کہ ’’میں سوچتا ہوں کہ فطرت کے مسائل پر کوئی بھی بحث ہو تو ہمیں یہ نہیں چاہیے کہ کتاب مقدس کی سند پیش کریں بلکہ ہمیں چاہیے کہ ہماری بحث کا انحصار تجربہ اور مشاہدہ پہ ہو اس لیے کہ مقدس کتابوں اور فطرت دونوں کا سرچشمہ کلمہ ربانی ہے فطرت غیر متغیر اور اٹل ہے اور اپنے قوانین سے تجاوز نہیں کرتی۔ میرا خیال ہے کہ فطری نتائج کے بارے میں جنہیں ہمارے حواس محسوس کرتے ہیں، یا جنہیں تجربے ثابت کرتے ہیں، کبھی بھی کوئی شک یا شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ فطری نتائج کو کبھی بھی الہامی کتابوں کی سند سے رد نہیں کرنا چاہیے۔ خدا الہامی کتابوں کے نسبت فطرت کے عوامل سے کوئی کم ظاہر نہیں ہوتا۔ 34 واضح ہو کہ یہ جملے مذہب اور سائنس کے درمیان شگاف ڈال چکے تھے۔ کیوں کہ میں یہ دعویٰ تھا کہ کتاب فطرت خدا کا اتنا ہی مستند کارنامہ ہے جیسا کہ انجیل کی مختلف کتابیں ہیں بلکہ کتاب فطرت میں انسان سے ہٹ کر ایسے عوامل ہیں جن سے انسان جمال فطرت اور حقیقت سے روشناس ہوسکتا ہے۔ یہ ادراک انسان فطرت کے عظیم کارخانے میں مودبانہ طور پر شریک ہو کر حاصل کرسکتا ہے۔
سائنس نے انسان کو اب یہ سکھا دیا کہ دنیا کو بے تعلق ہو کر دیکھا جائے۔ یعنی کائنات کو ایک نئی زبان میں نئے علامتی نشانوں کی مدد سے پڑھ جائے۔ یہ وہ فطرت کے راز ہیں جو کہ پرنیکس، کیپلر، اور گلی لیو جیسے ریاضی دانوں نے اپنی کتابوں میں خلاصہ کے طور پر پیش کیے ہیں۔
گیلی لیو کہتا ہے کہ فلسفہ اس عظیم کتاب یعنی کائنات میں لکھا ہوا ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے لیکن ہم اس کو سمجھ نہیں سکتے جب تک کہ ہم اس کی مخصوص زبان اور علامتیں سمجھ نہ لیں۔ یہ کتاب علم ریاضی کی زبان میں لکھی گئی ہے اور اس کی علامتیں مثلث، دائرے اور دیگر اقلیدسی شکلیں ہیں جن کی مدد کے بغیر اس کا ایک لفظ بھی نہیں سمجھا جاسکتا۔ بغیر اس کے انسان بیکار بھول بھلیوں کی اندھیری راہوں میں بھٹکتا پھرتا ہے۔
ملکہ الزبتھ کے ہم عصروں میں ٹامس بٹ نامی مشہور حساب دان بھی تھا جو رالے کے ساتھ 1585 میں ورجینیا کے سفر پر بھی گیا تھا۔ اس کے سائنسی اعتقاد اس کو مادہ پرستی کی طرف کھینچ لے گئے اور رفتہ رفتہ اسے دہریت کے راستے پر پہنچادیا۔ مثال کے طور پر اس کا یہ عقیدہ تھا کہ جس طرح کائنات کا وجود انجیل میں بیان ہوا ہے اور حقیقت ایسے نہیں ہوا۔ اس کی دلیل وہی تھی جو کہ لوکویشس نے دی تھی۔ یعنی یہ کہ ’’عدم سے کوئی چیز وجود میں نہیں آسکتی، بنیادی طور پر یہی وہ مفروضہ ہے جس پر جدید مادہ پرستی کی بنا پڑی ہے۔ الزبتھن دور میں اسی وجہ سے تمام زندگی دلیرانہ طرز کی سمجھی جاتی تھی جہاں ہر وقت نئے افق اور نئی دنیائوں کی تلاش رہتی تھی۔ اور علم کی کوئی سرحدیں قائم نہ تھیں، بلکہ علم بیکراں سمجھا جاتا تھا۔ الزبتھ کا دور ایک جوش اور ولولے کا دور تھا بلکہ اٹلی کے نشاۃ ثانیہ کے دور کے مانند انگلستان میں البتھ دور ایک شورش اور جوش و خروش کا دور تھا۔ یہ بھی شبہ ہو چلا تھا کہ رالے اور اس کے مشہور گروہ یعنی ’’مکتب شب‘‘ کے رکن دہریے تھے جس میں ہیریٹ بھی شامل تھا۔ لامحالہ جب نئی سائنس اپنے ساتھ کوپرنیکیت اور مادہ پرستی لائی تو روایتی تشریحوں پر دھند چھا گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے شکوک اور بے اعتباری کا عروج ہوا کہ دہریت کی بنا پڑ گئی۔ ارسطا طالیسی علم طبیعات اور علم حیات سے ہمیشہ یہ بات جھلکتی۔
(سرسید اور حالی کا نظریہ فطرت، صفحہ 159، 160، 161)
جاوید چودھری کی ایک لاعلمی بلکہ جہالت یہ ہے کہ وہ مسلمان ہونے کے باوجود مذہب اور سائنس کو مساوی الحیثت چیزیں سمجھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مذہب اور سائنس میں کون غلط ہے اور کون صحیح ہے انہیں معلوم نہیں۔ حالاں کہ یہ سامنے کی بات ہے کہ مذہب بالخصوص اسلام غلط ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لیے کہ اسلام خدا کا نازل کردہ دین ہے۔ اس کے برعکس سائنس انسانوں کی ایجاد ہے۔ مذہب کے تواتر کا یہ عالم ہے کہ پہلے نبی نے جو کہا آخری نبی نے بھی وہی فرمایا۔ پہلے نبی نے بھی کہا خدا ایک ہے۔ آخری نبی نے بھی کہا خدا ایک ہے۔ پہلے نبی نے بھی اطلاع دی کہ مرنے کے بعد انسان کو پھر زندہ کیا جائے گا آخری نبی نے بھی انسانوں تک یہی بات پہنچائی۔ اس کے برعکس سائنس کا یہ حال ہے کہ آئن اسٹائن کے نظریہ رضاجیت نے نیوٹن کی پوری میکانیکیت یا Mechanics کو ازکار رفتہ یا بیکار بنادیا اور اب کوانٹم فزکس آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت پر سوال اٹھا رہی ہے۔ جدید سائنس کی مذہب دشمنی کا اندازہ اقبال کو بھی تھا چنانچہ انہوں نے ایک صدی پہلے کہا تھا۔
تعلیم پیر فلسفہ مغربی ہے یہ
ناداں ہیں جن کو تہی غائب کی ہے تلاش
محسوس پر بنا ہے علوم جدید کی
اس دور میں ہے شیشہ عقائد کا پاش پاش
اقبال کہہ رہے ہیں مغربی فکر کی تعلیم یہ ہے کہ جو لوگ ہستی غائب یعنی خود کی تلاش کرتے ہیں وہ نادان ہیں اقبال کے مطابق جدید سائنس کیا مغربی کے تمام علوم محسوس پر کھڑے ہیں اور وہ مذہبی عقائد کو توڑ پھوڑ کر رکھ دینے والے ہیں۔