مذاکرات جنگ بندی پر نہیں اسرائیلی قبضے پر ہونے چاہئیں

581

جب بھی کہیں جنگ ہوتی ہے یا سرحدی جغرافیائی تنازعات ہوتے ہیں تو فریقین کو معلوم ہوتا ہے کہ اب دنیا میں فیصلے محض جنگ پر نہیں ہوتے کسی نہ کسی موقع پر مذاکرات کرنا پڑتے ہیں۔ اور مذاکرات میں اس کا فائدہ ہوتا ہے جس کے پاس زیادہ قبضہ، اختیارات اور فوج ہو۔ دنیا نے آئرش ری پبلیکن آرمی کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔ جنوبی افریقی رہنما نیلسن منڈیلا کو دہشت گرد قرار دیا تھا لیکن اس دنیا نے انہیں عظیم رہنما قرار دے دیا اس کا سبب ان دونوں کا اپنے موقف پر مضبوطی سے جمے رہنا تھا۔ آج کل فلسطین میں اسرائیل جو کارروائیاں کررہا ہے ان کا مقصد اب فلسطینیوں یا حماس کو ختم کرنا محسوس نہیں ہورہا بلکہ اب یہ گھٹنے ٹیکنے والا ہے اس لیے مذاکرات میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے لیے حماس کے نام پر فلسطینیوں کے جانی نقصان میں اضافہ کررہا ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ کچھ مزید علاقوں پر قبضہ کرلیا جائے تا کہ مذاکرات میں کچھ لو اور کچھ دو کے وقت اسے کچھ پرانا نہیں دینا پڑے بلکہ نئے قبضے میں سے کچھ چھوڑ دے اور پچھلے قبضوں کو جائز قرار دلوادے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ امریکا، کینیڈا، فرانس، برطانیہ وغیرہ کے حکمران اسرائیل کی حمایت ہی نہیں کررہے بلکہ اس کے وکیل بھی بنے ہوئے ہیں اور مسلم حکمران ان کے چمچے بنے ہوئے ہیں۔ امریکا سمیت سب کی کوشش ہے کہ اصل تنازع کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ چناں چہ پہلی ترجیح غزہ میں جنگ بندی قرار دی گئی ہے۔ مسلم حکمران بھی یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ غزہ میں جنگ بند کی جائے۔

دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ ہمدردانہ غور کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم غزہ سے زبردستی انخلا نہیں چاہتے۔ تم کون ہو یہ کہنے والے کہ غزہ سے زبردستی انخلا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بتایا جائے کہ غزہ سے انخلا ہونا ہی کیوں چاہیے انخلا بلکہ اخراج تو فلسطینی سرزمین سے اسرائیل کا ہونا چاہیے لیکن یہ ساری باتیں اس لیے کہی جارہی ہیں کہ اسرائیل نے وحشیانہ بمباری کرکے فلسطینیوں کو جھکانے کی کوشش کی ہے لیکن فلسطینیوں کا عزم بھی اٹل ہے وہ صرف ایک بات پر مذاکرات چاہتے ہیں کہ اسرائیل فلسطینی علاقے خالی کرے۔ اسرائیلی دبائو بھی اسی لیے ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کرکے زیادہ سے زیادہ تباہی پھیلا کر سودے بازی کے لیے اپنی پوزیشن بہتر بنانا چاہتا ہے۔ لیکن حماس نے بھی اپنی پوزیشن پہلے سے بہتر بنالی ہے۔ اس کے قبضے میں جو اسرائیلی فوجی اور شہری ہیں ان کے بدلے اس نے تمام فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے جو تقریباً 15 ہزار ہے۔ دنیا بھر کے ممالک کے حکمرانوں کی اکثریت غزہ کی جنگ بند کرنے کا مطالبہ کررہی ہے۔ اسرائیل نے ایٹمی حملے کی دھمکی بھی اسی لیے دی ہے کہ اس عمل سے روکنے کے لیے غزہ کی جنگ بند کرنے پر زور دیا جائے۔ عالمی ضمیر نامی کوئی چیز ہے جو اپنا وجود ثابت کرے، اسرائیل کے فلسطینی علاقوں پر قبضے کو ساری دنیا جانتی ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں میں اسے قابض ریاست قرار دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اسرائیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جبر کی رپورٹس شائع ہوچکی ہیں جن میں ایک ایک چیز سامنے لائی جاچکی ہے۔ لیکن پھر بھی دنیا غزہ کی جنگ بند کرنے کی بات کررہی ہے۔ اب جبکہ ایک ماہ سے زیادہ ہوچکا ہے حماس کے حملوں کو اور اسرائیل روز بمباری کررہا ہے۔ زمینی حملوں میں اسے سخت ہزیمت اٹھانی پڑی ہے جبکہ اگر طاقت کا موازنہ کیا جائے تو اسرائیل اور حماس کا فوجی قوت کا موازنہ ہی نہیں ہے۔ ایسا ملک جو دنیا کی پانچویں بڑی فوجی طاقت کہلواتا ہے۔ اس کو امریکی اطالوی، فرانسیسی، برطانوی اور درجنوں عرب ممالک کی زبانی و عملی مدد درکار ہے اور اسے کسی نہ کسی طرح وہ مل بھی رہی ہے۔ اس اعتبار سے تو اسرائیل جنگ ہار چکا ہے۔ لیکن یہ صرف ایک خیال ہے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی زمین پر قابض ہے۔ اس میں روز اضافہ کرتا جارہا تھا۔

فلسطینیوں کو کسی بھی دن کہیں بھی گھیر کر مار دیا جاتا تھا، جتنے مکانات ایک ماہ میں گرائے گئے ہیں بمباری سے گرے ہیں لیکن گزشتہ 80 برس میں کیا ہوتا رہا ہے اسّی نہ سہی 50 برس سے تو اسرائیل مسلسل توسیع پسندانہ عمل کررہا ہے۔ پوری کی پوری آبادی بلڈوز کردی جاتی تھی کیا وہ بمباری سے کم ہے۔ لوگ مکانات کے اندر ہیں۔ عورتیں، بچے، بوڑھے گھروں میں ہیں اور بلڈوزر آکر تباہی پھیر دیتے ہیں ان مکانات کی تعداد بھی دیکھی جائے، اس پر مزاحمت کرنے والوں کی شہادتیں اور زخم بھی گنے جائیں۔ اسرائیل کی بمباری تو اب ہورہی ہے لیکن زمینوں پر قبضے، بے دخلی وغیرہ تو پہلے ہی سے جاری ہے۔ اسرائیل کی حمایت میں کھڑے ہوئے عرب اور اسلامی ملکوں کے رویے بھی منافقانہ ہیں۔ زبان سے فلسطین اور غزہ کی بات ہورہی ہے اور عمل اس کے خلاف ہے۔ جس طرح عالمی سطح پر لوگ نکلے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنی اپنی حکومتوں پر دبائو ڈالیں کہ جنگ بندی کے ساتھ ساتھ اسرائیل کا تمام قبضہ ختم کرادیا جائے۔ باہر سے آنے والے واپس جائیں، جس طرح پاکستان میں افغانوں کو نکالنے کے لیے کہا جارہا ہے کہ اب افغانستان میں امن ہے خوشحالی ہے تو وہیں جائو۔ اسی طرح اب یورپ میں یہودیوں کو کچھ نہیں کہا جاسکتا بلکہ ہولوکاسٹ پر زباں کھولنے والوں کو مناصب، سیاست اور کاروبار سے محروم ہونا پڑتا ہے، یہ جرم قرار دے دیا گیا ہے تو پھر اب یہودیوں کو فلسطین سے واپس نکل جانا چاہیے اور خصوصاً ان تمام کو جن کے آبائو اجداد نے فلسطین میں پناہ گزین کے طور پر رہائش اختیار کی تھی مذاکرات صرف غزہ میں جنگ بندی پر نہیں ہونا چاہئیں بلکہ مذاکرات فلسطین کی زمین پر ناجائز قبضے کے خاتمے پر ہونے چاہئیں۔ اسرائیل کی قید سے تمام فلسطینیوں کی رہائی پر ہونے چاہئیں۔ فلسطینیوں کا جو نقصان اب تک اسرائیل نے کیا ہے اس کا ہرجانہ ادا کرنے پر ہونے چاہئیں۔ لیکن یہ مذاکرات ان شرائط پر اس وقت ہوسکیں گے جب مسلم ممالک کے حکمراں جاگیں گے یا عوامی دبائو کے سبب بھاگیں گے۔