اسرائیل کا بائیکاٹ… مگر کیسے؟

1055

ساری دنیا فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت پر سراپا احتجاج ہے۔ جگہ جگہ سے بائیکاٹ کے نعرے اور مطالبات بھی سامنے آرہے ہیں، اسرائیل، مغرب اور امریکا کی سرپرستی میں بلکہ عالم کفر کی سرپرستی میں فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کرکے وجود میں لایا گیا۔ اسے خوامخواہ نظریاتی ریاست کہا جانے لگا۔ اسرائیل میں صہیونیوں نے 75 برس سے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ 7 اکتوبر کو فلسطینیوں کے آپریشن طوفان الاقصیٰ نے اسرائیلی سیکورٹی نظام میں دراڑ ڈال دی۔ غیر متوقع طور پر بہت زیادہ راکٹ برسائے گئے۔ بری، بحری، فضائی راستوں سے حملہ ہوا، کئی علاقوں پر فلسطینیوں نے قبضہ کرلیا۔ ان علاقوں سے اسرائیلی شہریوں کا انخلا نہیں کیا، درجنوں اسرائیلی فوجی گرفتار ہیں۔ ایک جنرل بھی شامل ہے۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ اسرائیل یا منصوبہ سازوں نے قصداً یہ سب کچھ ہونے دیا ہے تا کہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر تیزی سے عمل کیا جائے۔ ہاں حالات اسی جانب تیزی سے جارہے ہیں۔ اسرائیل مدینہ منورہ تک اپنی ریاست قائم کرنے کا اعلان کرتا ہے اور عرب دنیا کے حکمران چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر اسرائیل کا راستہ صاف کرنے میں معاون ہورہے ہیں۔ لیکن اسرائیل کا فلسطین پر قبضے کا 75 سالہ جائزہ لیں تو پتا چلے گا کہ اسرائیل کو 9/11 کی طرز کے کسی بہانے کی ضرورت نہیں۔ اسرائیل عالمی سازش کے نتیجے میں وجود میں آیا اور اس سازش کے حصے کے طور پر اقوام متحدہ کی قراردادوں نے اسے ایک ریاست تسلیم کرلیا ہے۔ جب مزاحمت بڑھتی گئی اور عالمی ضمیر تھوڑا بہت کروٹیں لینے لگا تو دو ریاستی حل کے نام پر اسرائیل کی ریاست کو سند بخشنے کا منصوبہ سامنے لایا گیا۔ تقریباً 25 برس قبل دو ریاستیں وجود میں بھی آگئیں لیکن ان کو بھی اسرائیل نے تسلیم نہیں کیا۔ بلکہ گزشتہ 17 برس سے غزہ کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے۔ ایسے میں بار بار اسرائیل کے بائیکاٹ کی بات کی جاتی ہے۔ اگر لوگوں کو یاد ہو تو ان کے ذہن کے کسی گوشے میں ایک نام اب بھی محفوظ ہوگا۔ اسے اسرائیل بائیکاٹ آفس کہا جاتا تھا۔
یہ اسرائیل کا بائیکاٹ 1948ء میں اس کے قیام کے وقت سے شروع ہوگیا تھا۔ اس کے تین حصے تھے۔ بنیادی بائیکاٹ عربوں کی اسرائیل سے تجارت کا تھا۔ دوسرے نمبر پر اسرائیل سے تجارت کرنے والی کمپنیوں کو ہدایات تھیں کہ وہ اس سے کاروبار نہ کریں۔ تیسرے نمبر پر ان کمپنیوں کو بلیک لسٹ کرنا تھا جو ان کمپنیوں سے تجارت کررہی تھیں جن کی اسرائیل سے تجارت تھی۔ اسرائیل کے بائیکاٹ میں ابتدا ہی میں اختلافات ہوگئے۔ پہلے تو کمپنیوں کو بلیک لسٹ کرنے پر اختلاف ہوا، ہر ملک کے پاس الگ الگ فہرست تھی۔ کچھ ملکوں نے سرکاری سطح پر نفاذ نہیں کیا۔ مصر نے سختی سے بائیکاٹ کی پالیسی ترک کرکے غیر سرکاری بائیکاٹ کیا۔ بہرحال مجموعی طور پر کئی دہائیوں تک اسرائیل کا بائیکاٹ موثر رہا جب برطانیہ، جاپان اور بعض دوسرے ممالک بھی بائیکاٹ کرتے رہے اور اسرائیل کو معاشی اور فوجی طاقت نہیں بننے دیا۔ اس کے بعد حسب معمول امریکا اسرائیل کی مدد کے لیے کودا، صدر جمی کارٹر کی حکومت میں کانگریس نے باقاعدہ کمپنیوں کو عرب بائیکاٹ کی حمایت سے روکا اور صدر کارٹر نے قانون پر دستخط کیے کہ اس بائیکاٹ کی وجہ سے ملکوں کے درمیان فری ٹریڈ آزاد تجارت میں رکاوٹیں پیدا ہورہی ہیں اور یہی کہا گیا کہ اس بائیکاٹ سے ہمارے امریکی معاشرے کے یہودی لوگوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ عرب لیگ نے اس قانون پر سخت اعتراض کیا اور اسے صہیونیوں کی جانب سے امریکا اور مغربی یورپ پر مسلط کرنے کی کوشش قرار دیا لیکن رفتہ رفتہ اسلامی دنیا میں امریکی سفارتی مشن، امریکی صدر اور وزیر خارجہ نے مہم چلائی اور عرب اور مسلم ریاستوں کو اسرائیل سے معمول کی تجارت کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔ اس امریکی مہم کا نتیجہ یہ نکلا کہ عربوں نے اپنے عوام کے خوف سے تجارت تو شروع نہیں کی لیکن تجارت کرنے والی کمپنیوں کو بھی کچھ نہیں کہا۔ اس طرح بائیکاٹ کا بائیکاٹ ہوگیا۔ پھر مختلف مواقع پر یہ مہم چلتی ہے۔ اسرائیل کا بائیکاٹ کیا جائے لیکن ہوتا کچھ نہیں ہے۔ اب پوری دنیا کی مصنوعات پر اسرائیل، امریکی اور صہیونی کنٹرول ہے۔
سوال یہ ہے کہ اب بائیکاٹ کیسے کیا جائے۔ گزشتہ عشروں میں صابن سے لے کر کھانے پینے کی اشیا، فاسٹ فوڈ چین، دوائیں، ہتھیار، سائنسی آلات سب پر ان لوگوں کی اجارہ داری ہے۔ اسلامی ممالک جو کچھ تیار کرتے تھے وہ بھی اب ناپید یا غیر موثر ہے۔ وہ اسرائیلی اور صہیونی اور ان کی سرپرست کمپنیوں کی مصنوعات بے انتہا معیاری کھانے مزیدار اور ان کی اشتہاری مہم بہت موثر ہے۔ کیا ان حالات میں امت مسلمہ کوئی بائیکاٹ کرسکتی ہے۔ یہ بہت بڑا سوال ہے۔ جس طرح بائیکاٹ کے وقت تین ترجیحات تھیں اسی طرح اب بھی تین ترجیحات ہونی چاہئیں۔ سب سے پہلے بنیادی ضرورت کی اشیا تیار کرنے والی مسلمانوں کی کمپنیوں کی فہرست بنائی جائے۔ پھر ان کو سہولتیں دی جائیں۔ اس کے بعد مسلمان ممالک آپس میں ان اشیا کی تجارت بڑھائیں۔ فاسٹ فوڈ میں عرب، ترک، لبنانی اور ایرانی کھانے لاجواب ہیں ان کی فاسٹ فوڈ چین اسلامی ملکوں میں کھولی جائے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی خام مال اسرائیل یا ان ممالک سے نہیں لیا جائے گا جو اسرائیل سے تجارت کرتے ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے جس کے بل پر سب کچھ ہوتا ہے۔ اور وہ ہے مسلمان کنزیومر۔ مسلمان صارفین کو کم از کم کئی سال کے لیے معیار اور قیمت کی قربانی دینی پڑے گی۔ ممکن ہے اسلامی ممالک کی مصنوعات مہنگی پڑیں۔ یہاں بھی اسلامی ممالک کے حکمران کوئی تعاون نہیں کریں گے۔ یہ کام بھی مسلمان تاجروں اور صارفین کو انجمن بنا کر کرنا ہوگا۔ آگاہی پیدا کرنی ہوگی۔ اس وقت واشنگ پائوڈر بلیڈ وغیرہ پر بھی ان کی اجارہ داری ہے۔ جو کمپنیاں پاکستان میں بسکٹ چاکلیٹ وغیرہ بناتی ہیں ان کا حال بھی کوئی اچھا نہیں ہے۔ تھوڑا بہت معیار اچھا ہے تو قیمت بہت زیادہ ہے۔ ان مسلمان تاجروں کو قربانی دینی چاہیے منافع میں کمی کریں۔ ان کی مصنوعات کی فروخت بڑھ جائے گی۔ جو برآمد کنندگان یا درآمد کنندگان ہیں وہ بھی تھوڑا نقصان کریں ایسے ملکوں اور کمپنیوں کو آرڈر دینا بند کردیں۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہے۔ کیا یہ حکمران ایسا ہونے دیں گے۔ اس کا جواب ہے ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ تو آج کل پی آئی اے کو بھی بالکل اسی طرح تباہ کررہے ہیں جس طرح پاکستان اسٹیل کو تباہ کیا تھا اور آج بے دردی سے کہا جارہا ہے کہ پی آئی اے سے جلد از جلد جان چھڑائی جائے۔ اسرائیل صہیونیوں کے کسی بائیکاٹ سے قبل قبل موثر آگاہی مہم کی ضرورت ہے اور بڑے بڑے تاجروں کی طرف سے خود منافع میں کمی کرکے مثال قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر سوچا جاسکتا ہے کہ کوئی بائیکاٹ بھی ہوسکتا ہے۔