مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام

809

ماہ ربیع الاول کا چاند نظر آتے ہی دنیا بھر میں ایک نئی فضا قائم ہوجاتی۔ اپنے پیارے نبیؐ سے تعلق محبت، عشق کا اظہار عام ہوجاتا ہے۔ کہیں آقا سے محبت کے اظہار کے لیے نعت کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں اور کہیں لوگ اپنے عقائد کے مطابق گھروں اور مساجد میں چراغاں کرتے ہیں کہیں جلوس، ریلیاں اور سیرت کے پروگرامات منعقد کیے جاتے ہیں ان سب پروگرامات میں اپنے اپنے طریقوں سے اپنے پیارے نبیؐ سے محبت اور ان پر مر مٹنے کا اظہار ہوتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے نبیؐ سے اپنی محبت کے اظہار کے لیے عشق نبیؐ سے سرشار جھوم جھوم کر نعتیں پڑھتے ہیں اور سارے جہاں میں ایک جوش وخروش اور ولولہ نظر آتا ہے۔ کوئی بھی مسلمان چاہے دین سے کتنا ہی دور کیوں نہ ہو اس کے چہرے پر ڈاڑھی بھی نہ سجی ہوں، پنج وقتہ نمازی بھی نہ ہو لیکن اپنے پیارے نبیؐ کے عشق اور محبت سے وہ سرشار ہوتا ہے۔ اپنے نبیؐ کے نام نامی اسم گرامی پر وہ جھوم اٹھتا ہے اور اپنا سب کچھ آقا پہ قربان کرنے کے لیے ہم وقت تیار اور بے تاب رہتا ہے۔ نبی کریمؐ کی ذات گرامی بلاشبہ اس بات کی مستحق ہے کہ ان سے محبت اور عشق اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں سے بھی زیادہ کیا جائے اور ان کے نام نامی پر سب کچھ قربان کردیا جائے۔ مسلمہ امہ کا یہ عمل اور اپنے نبیؐ سے عشق کی یہ انتہا اسلام دشمن قوتوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اور وہ آئے روز نبیؐ کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ بے شک اپنے نبیؐ سے عشق اور محبت ہمارے ایمان کا جُز ہے۔ ہمارا ایمان اس وقت تک مکمل ہی نہیں ہوتا جب تک ہم اپنے محبوب پاک سے اپنی محبت کا اظہار نہ کریں۔
وہ ذات گرامی جو وجہ تخلیق کائنات ہے اور جو دونوں جہانوں کے لیے رحمتہ للعالمین بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ جن آمد سے دنیا کو سکون اور چین حاصل ہوا اور دنیا کو ایک نئی زندگی اور انسانیت کومعراج حاصل ہوئی۔ عرب کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اسلام کا آفاقی پیغام مراکش سے لیکر کاشغر تک تیزی کے ساتھ پھیلا اور 25سالہ دور نبوت میں دنیا کی سپر قوتوں کو سرنگوں کردیا گیا اور اسلام دنیا میں غالب آگیا۔ محسن انسانیتؐ کی سچی دعوت اور پاکیزہ کردار نے معاشرے میں ایک انقلاب برپا کیا پوری انسانیت کو انہوں نے تاریکیوں سے نکالا ان کی دعوت کے ذریعے خیروشر کے معیارات اور حلال وحرام کے پیمانے بدل گئے، اخلاقی قدریں بدل گئی اور انسانی زندگی کو روشن تہذیب حاصل ہوئی۔
آپؐ خلق خدا کے لیے نجات دہندہ بن کر آئے اور انبیا ؑ کی دعوت حق کو ایک بار پھر پھیلایا اور عدل مساوات کا نظام رحمت پیش کیا آپؐ نے سچائی کے پیغام اور اس کی مشعل کو روشن کیا۔ لوگوں کو ایک اللہ کے گرد اکٹھا کیا اور اس کا کلمہ بلند کیا تمام جھوٹے خدائوں کی خدائی کو نیست ونابود کیا اور یہ اعلان کیا کہ ایک اللہ کے سوا کسی اور کی خدائی قبول نہیں ہے۔ اسلام کی آفاقی دعوت کا چرچا عرب وعجم میں پھیلتا چلا گیا۔ مخالفت اور مذاحمت کے سارے طوفان اٹھانے کے باوجود اس دعوت کا راستہ کوئی نہیں روک سکا۔ دعوت حق کے نتیجے میں اسلام کو غلبہ حاصل ہوا عرب کے ان بددوں نے آپؐ کی دعوت کی وسعتوں کو سمجھ لیا تھا اور نظام حق خیرو فلاح، تعمیرو ترقی اور جنت کے حصول کے ساتھ ساتھ اپنے ربّ کی بندگی کو اختیار کرنے وہ جوق در جوق دین اسلام میں شامل ہوتے گئے اور ایک ہمہ گیر انقلاب برپا ہوا۔ آپؐ اللہ کے دین کو پھیلانے کے لیے سچائی کی مشعل لیکر کر اٹھے اور علم الٰہی سے لوگوں کے قلوب کو منور کیا۔ جہاد اور ہجرت کے ذریعے جان ومال کی قربانیاں دی۔
نبی کریمؐ نے جہاں اعتقادی اور اخلاقی انقلاب برپا کیا وہاں حقیقی معنوں میں سیاسی انقلاب بھی برپا کیا جو ایک کامیاب سیاسی انقلاب تھا جہاں زکوٰۃ باٹنے لوگ نکلتے تھے اور زکوٰۃ لینے والا کوئی نہ تھا۔ اس انقلاب میں فرد کی اصلاح کے ساتھ ساتھ معاشرے، تہذیب اور تمدن کو بھی درست کیا گیا۔ دلائل کے ساتھ لوگوں کو دین کی دعوت دی گئی۔ مصلحتوں کو سمجھا گیا اور حکیمانہ نقطہ ٔ نگاہ اختیار کیا گیا۔ نیکی کی دعوت دی گئی اور نیکی کے غلبہ کے لیے ایک مکمل نظام قائم کیا گیا اور یہ ایک ایسا نظام تھا جس میں پوری انسانی زندگی ایک ضا بطہ ہدایت کے تحت تھی اور اس نظام میں کوئی تضاد نہیں تھا انسانی تاریخ میں جس رفتار سے اس نظام نے ترقی کی ہے اس کی کوئی مثال اب تک نہیں ملتی ہے۔ نبی اکرمؐ نے اپنی جدوجہد کے نتیجے میں جو انقلاب برپا کیا وہ محبت خیر خواہی اور اپنی دعوت اور اپنے کردار کے ذریعے اپنے دشمنوں کے دلوں کو بھی مسخر کیا ان کی دعوت اور پیغام کے ذریعے خدا پرست اور بااصول انسان ابھر کر آئے جنہوں نے شراب کے مٹکے گلیوں میں انڈیل ڈالے اور اپنا مال واسباب سب دین پر نچھاور کر ڈالا۔ آپؐ کا پیغام اور ان کی سیرت ہم سب کے لیے ایک نمونہ ہے۔ آپؐ سے عشق اور محبت کا تقاضا ہے کہ ہم آپؐ کی ذات گرامی سے محبت کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے مشن سے بھی محبت کریں۔
موجودہ عالمگیر مادہ پرستانہ تہذیب نے آدمیت کے اخلاقی شعور کی مشعل کو گل کردیا ہے مسلمان نفسانی الجھنوں کا شکار ہوگئے ہیں۔ انسانی ذہن وکردار میں فساد غالب آگیا ہے۔ اعتقادات ونظریات میں توازن نہیں رہا روحانی قدریں کھو گئی ہیں۔ آج کا مسلمان شیطانی اور تخریبی قوتوں کے پنجے اور ان کے شکنجوں میں جکڑا نظر آتا ہے۔ ربیع الاول کا پیغام یہ ہی ہے کہ سیرت نبویؐ کا مطالعہ کریں عملی زندگی میں سچائی اور نیکی کی آواز کو اٹھائے انسانیت کی بھلائی اور خدمت کے کام کریں۔ آج جب گھٹا ٹوپ اندھیرا ہمارے سامنے موجود ہے۔ دور دور تک کوئی روشنی نظر نہیں آرہی ہے ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ دامن مصطفیؐ کو مضبوطی سے تھام لیا جائے۔ مادیت پرستی اور سرمایہ پرستی کے چنگل سے دنیا کو آزاد کرا کر نظام مصطفیؐ عملی طور پر برپا کیا جائے اور مستقبل کے عالمی نظام کی تعمیر کے لیے تاریخ ساز شخصیت کے افکار سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ دنیا میں آج جو بے سکونی اور بے چینی ہے اس کا علاج صرف اور صرف نظام مصطفیؐ کے عملی نفاذ میں ہے۔ آج کلمے کے نام پر بننے والے اس ملک میں کھلم کھلا اللہ اور اس کے رسولؐ سے بغاوت کی جارہی ہے اور اللہ اور اس کے رسول کا ناراض کیا جارہا ہے۔ ربیع الاول کا پیغام یہ ہی ہے کہ ہم سب ایک بار پھر دامن مصطفیؐ کو مضبوطی سے تھام لیں اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں مدینے کی ریاست بنانے کی جدوجہد کریں۔