شہید ڈاکٹر پرویز محمود، نڈر اور بہادر قائد

889

شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے۔ یہ عظیم قول میسور کے حکمران ٹیپو سلطان کا ہے۔ جس نے انگریزوں اور اس کے ایجنٹوں سے لڑتے لڑتے اپنی جان قربان کردی لیکن باطل قوتوں کے سامنے اپنے سر کو نہیں جھکایا۔ ڈاکٹر پرویز محمود شہید ہمارے عہد کا وہ روشن چراغ اور بہادر نوجوان تھا جس نے شیروں کی طرح زندگی گزاری اور باطل قوتوں کے سامنے کلمہ حق بلند کیا جھوٹ کو جھوٹ، قاتل کو قاتل اور ظالم کو ظالم کہا اپنے اور غیر سب اس سے ناراض بھی ہوئے۔ لیکن پرویز محمود نے کبھی کسی کی پروا نہیں کی وہ شیروں کی طرح ظالموں کی کچھار میں حملہ آور ہوتا اور اس نے اپنے بیانات، تقاریر اور سرگرمیوں سے کراچی سے لیکر لندن تک سب کے اوسان خطا کیے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر پرویز محمود زمانہ طالب علمی میں سندھ میڈیکل کالج کے طالب علم تھے اور اسلامی جمعیت طلبہ سندھ میڈیکل کالج کے ناظم اور سال آخر کے طالب علم ڈاکٹر شہاب کی پنجابی میڈیکوز (پی ایس ایف) کے طالب علم اشتیاق چودھری کے ہاتھوں شہادت نے ان کی زندگی میں ایک انقلاب برپا کیا اور ایک جوار بھاٹا تھا جو ابل کر باہر آگیا۔ ڈاکٹر پرویز محمود ڈاکٹر شہاب کی مظلومانہ شہادت پر بے چین ہوگئے انہوں نے ڈاکٹر شہاب کی شہادت پر سخت احتجاج بھی کیا اور اس کے عوض کئی برس انہیں جیل بھی کاٹنی پڑی۔
جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے انہیں نوجوانوں کی تنظیم ’’شباب ملی‘‘ کراچی کا صدر بنایا۔ ڈاکٹر پرویز محمود نے شباب ملی کے ذریعے کراچی کے نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور اس کام کے لیے انہوں نے انتہک محنت اور جدوجہد کی۔ کراچی اس وقت ایم کیو ایم کا توتی بولتا تھا اور ایم کیو ایم کی دہشت گردی انتہائی عروج پر تھی لیکن ڈاکٹر پرویز محمود کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کی کسی میں ہمت نہ ہوسکی۔ بلاشبہ ڈاکٹر پرویز محمود ظلم کے خلاف ایک آہنی دیوار ثابت ہوئے اور وہ اپنی خداد صلاحیتوں کو منوانے میں کامیاب بھی ہوئے۔ 2001 کی شہری حکومت کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی نے انہیں کراچی کے سب سے حساس ٹائون لیاقت آباد کا ٹائون ناظم بنایا۔ ڈاکٹر پرویز محمود اپنے پورے نظامت کے دور میں متحدہ اور اپنے سیاسی مخالفین سے چومکھی کی لڑائی لڑتے رہے اور سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے وہ انتہائی قابل اعتماد ساتھی تھے اور وہ ہمیشہ ان سے رہنمائی لیتے نعمت اللہ خان بھی ڈاکٹر پرویز محمود کو اپنے بچوں کی طرح ہی سمجھتے تھے۔ ایم کیو ایم کے خلاف ڈاکٹر پرویز محمود کے جذبات واحساسات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے وہ الطاف حسین کی فسطائیت کو ہر جگہ للکارتے اور کراچی سے لیکر لندن تک ڈاکٹر پرویز محمود نے ان سب کی ناک میں نکیل ڈالی ہوئی تھی۔
کراچی کے جو حالات تھے اور روزانہ کی بنیاد پر ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات ہو رہے تھے اس پر جماعت اسلامی اور ڈاکٹر پرویز محمود کے اہل خانہ وبہی خواہوں کو سخت تشویش لاحق تھی۔ انہوں نے حکمت کے ذریعے ڈاکٹر پرویز محمود کو بہت سمجھانے کی کوشش بھی کی۔ ڈاکٹر پرویز محمود کے بڑے بھائی جاوید محمود جو خود زمانہ طالب علمی میں سیف الدین بھائی کے دور میں جامعہ کراچی کے انتہائی متحرک جمعیت کے کارکن رہے ہیں اور آج کل امریکا میں مقیم ہیں۔ انہوں نے مجھے مشن سونپا کہ کچھ عرصے کے لیے پرویز محمود کو امریکا آنے کے لیے راضی کیا جائے لیکن ڈاکٹر پرویز محمود کسی بھی طرح کراچی شہر چھوڑنے تیار نہیں تھے۔ کہنے لگے کہ ظلم کو ظلم بھی نہ کہا جائے۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے ساتھ کیا ہونا ہے لیکن میں اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹوں گا اور الطاف حسین کی سفاکیت اور ظلم پر آواز اٹھاتا رہوں گا۔ ان کی شہادت سے چند ماہ قبل ان کے بڑے بھائی اختر بھائی (خالد اختر کے والد) کا انتقال ہوا تھا۔ ان میت کے قریب کھڑے ہوکر مجھ سے کہنے لگے کہ قاسم بھائی اللہ تعالیٰ مجھے اس طرح بستر پر موت نہ دے۔ موت تو شہادت کی ہونی چاہیے۔ واقعی ان کی طلب اور لگن سچی تھی۔ ہم سب تو باتیں
کرنے والے لوگ ہیں اور ڈاکٹر صاحب اپنی مراد پوری کرچکے اور بازی مار گئے۔
ڈاکٹر پرویز محمود ایک انتہائی نفیس، تعلیم یافتہ، شفیق، مہربان شخصیت کے مالک تھے اور چھوٹوں بڑوں سب کا بڑا احترام کرتے۔ ہر ایک کو ’’میرے پیارے بھائی‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ لیکن کبھی ان کے مزا ج کے خلاف کوئی بات ہوجائے اور وہ سمجھتے کہ یہ غلط ہے وہ شیروں کی طرح دھاڑتے، گرجتے اور برستے تھے اور کسی کا بھی لحاظ نہیں کرتے۔ اگر انہیں کسی کی کوئی بات ناگوار گزرتی تو وہ ان کے منہ پر آواز اٹھاتے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے۔ ٹی وی کے ایک ٹاک شو میں ان کے سامنے وسیم اختر بیٹھے ہوئے تھے۔ کسی بات پر وسیم اختر نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو پرویز محمود بول اٹھے کہ ’’وسیم اختر میں تو اتنی جرأت نہیں کہ کچھ کہہ سکے ان کا سب کچھ تو لندن میں ہے۔ لندن سے الطاف حسین کہیں گے کہ وسیم اختر مرغا بن جائو تو وسیم اختر ناصرف یہ کہ مرغا بن جائیں گے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ مرغ کی طرح اذان دینا بھی شروع کردیں گے۔ ڈاکٹر پرویز محمود نے متحدہ کو ہر جگہ اور ہر مقام پر للکارا ’’الطاف میں تجھے اپنا خدا نہیں مانتا‘‘ کھلا خط بڑی تعداد میں پرنٹ کرا کر تقسیم کیا اور یہ خط ہی ان کی شہادت کا سبب بنا۔
بلاشبہ ڈاکٹر پرویز محمود اس عہد کا وہ بہادر، نڈر اور اسلامی تحریک کا وہ جانباز سپاہی تھا جس نے عملی طور پر حسینی کردار کو زندہ وجاوید کیا اور ٹیپوسلطان کی طرح اپنی جان قربان کردی لیکن ظالموں کے سامنے اپنے سرکو نہیں جھکایا۔ آج
شہر کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کو بہت بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس تمام کامیابی کے پیچھے اصل کردار ڈاکٹر پرویز محمود، محمد اسلم مجاہد، مرزا لقمان بیگ، عامر سعید، رشید بھیا، نذیر ساجد، عابد الیاس، ریاض انجم ودیگر شہدا کی قربانیاں اور ان کا لہو شامل ہے۔ ہم سب اور ہماری تحریک ان شہداء کے خون کی امین ہے۔ ہمیں اس بات کا پختہ اور کامل یقین ہے کہ ڈاکٹر پرویز محمود نے ایک نظریہ کے لیے اور وقت کے سفاک درندوں کے خلاف کلمہ حق بلند کرتے ہوئے اپنی جان قربان کی تھی اور وہ اب اللہ کی جنت میں جنت کے سردار امام عالی مقام ؓ ودیگر شہداء کی قربت میں ہوں گے۔