سندھ میں ڈاکو راج

579

شمالی سندھ ایک طویل عرصے سے ڈاکووں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور کچے کے علاقے ڈاکو اسٹیٹ کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ جس کو چاہے اور جب چاہے یہ ڈاکو اغوا کر کے اپنی پناہ گاہوں میں لے جاتے ہیں اور بھاری تاوان کے عوض انہیں رہا کیا جاتا ہے۔ اغوا کیے جانے والوں میں بڑے بڑے صنعت کار، تاجر، ڈاکٹر کے علاوہ دیگر صوبوں کے لوگ بھی ہوتے ہیں جو سفر کے دوران ان ڈاکووں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور بھاری رقم کے عوض ان کی رہائی ممکن ہوتی ہے۔ سندھ پولیس، رینجرز ودیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے مکمل طور پر اس ڈاکو راج کے سامنے بے بس لاچار اور ناکام ہوگئے ہیں۔ گزشتہ دنوں کچے کے ان ڈاکووں نے ہندو برادری کے اہم افراد مکھی جگدیش، جئے دیپ، ساگر کمار اور گدو اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر منیر نائچ کو اغوا کرلیا تھا۔ ان کے اغوا کے خلاف کراچی سمیت پورے سندھ میں زبردست احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں بھی نکالی گئیں۔ ہندو برادری بھی سراپا احتجاج بنی رہی۔ پیپلز پارٹی کے سابق صوبائی وزیر میر شبیر بجارانی نے احتجاجی دھرنے کے شرکاء کو یقین دہانی کروائی کہ وہ صبر سے کام لیںان شاء اللہ اگلے بارہ گھنٹوں میں مغویوں کو رہائی مل جائے گی۔ 12گھنٹے تو نہیں 36گھنٹوں کے بعد دوماہ سے ڈاکووں کی قید میں گڈو اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر منیراحمد نائچ اور ہندو برادری کے مکھی جگدیش اور ان کے بیٹے کو رہائی حاصل ہوئی۔ جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان ڈاکووں کا ان وزیروں اور سرداروں سے براہ راست تعلق اور رابطہ ہے۔

اگرحکومت سندھ سے ڈاکو راج کے خاتمے میں سنجیدہ ہے تو وہ سندھ کے دس سے بیس سرداروں پر ہاتھ ڈالے اور ان کی بیچ کنی کی جائے تو سندھ سے ڈاکو راج کا مکمل خاتمہ ہوسکتا ہے۔ پولیس اور حکومت کی نااہلی کی وجہ سے آج محمد بن قاسم کے باب الاسلام اور شاہ لطیف بھٹائی، شہباز قلندر کی دھرتی میں مکمل طور پر ڈاکو راج قائم ہے۔ پولیس کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اغوا کاروں کا کاروبار عروج پر ہے۔ سندھ کے غریب بے بس لاچار عوام کے صبر کا پیمانہ بھی اب ڈاکوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی وجہ سے لبریز ہے اور سندھ کے اہم علاقے کشمور، کندھکوٹ، گھوٹکی، جیکب آباد، ٹھل، خانپور مہر، سکھر میں احتجاجی مظاہرے اور مستقل دھرنے بھی دیے جارہے ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق وہ واحد قومی رہنما ہیں جو خود ان احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں میں شریک ہوئے اور ڈاکوںکو خوب للکارا اور ڈاکووں کے ہاتھوں اغوا ہونے والے مغویوں کے اہل خانہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی کیا۔ انہوں نے اس موقع پر پیپلز پارٹی کو خوب لتاڑا اور انہیں ان ڈاکوں کا سرپرست قرار دیا۔

بلاشبہ پیپلز پارٹی گزشتہ پندرہ برسوں سے صوبے سندھ کی سیاہ سفید کی مالک ہے۔ اگر پیپلز پارٹی نے سندھ میں کرپشن لوٹ مار اقربا پروری کی انتہا کی ہے تو سندھ میں قیام امن میں بھی وہ مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ کچے کے ڈاکووں کا پیپلز پارٹی کے وزراء، ارکان اسمبلی سے براہ راست تعلق بھی ہے اور ڈاکووں کو ان کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ کچے کہ ان ڈاکووں کی ڈوریں وزیراعلیٰ ہائوس سے ہلائی جاتی تھیں۔

گزشتہ دنوں کراچی میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے جب صنعت کاروں اور تاجروں سے اہم ملاقات کی اور ان سے معاشی بہتری کے لیے مشاورت کی تو اس میٹنگ میں کچے کے ڈاکووں کے بارے میں بھی بازگشت سنی گئی اور کچے میں بڑے آپریشن شروع کیے جانے کی بھی یقین دہانی کرائی گی۔ دوسری جانب جماعت اسلامی اور اس کے کارکنان روزانہ کی بنیاد پر مغویوں کے لواحقین کے ساتھ سڑکوں پر موجود ہیں اور سندھ کے تمام اہم بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے دیے جارہے ہیں۔ کشمور، کندھ کوٹ میں ہندو برادری کے ساتھ مل کر جماعت اسلامی نے احتجاجی دھرنے بھی دیے اور دونوں شہروں میں ہڑتال بھی کی گئی۔ کشمور میں مغویوں کی بازیابی کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر تشدد کیا گیا، میہڑ میں جماعت اسلامی کے مقامی امیر محمد الیاس کلھوڑ ودیگر کارکنان پر ایف آئی آر درج کی گئی۔ کندھ کوٹ میں مغویوں کی بازیابی کے لیے منعقدہ دھرنے پر پولیس نے شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا گیا اور پرامن مظاہرین پر جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے پولیس معصوم مغویوں کو بازیاب کرانے کے بجائے پرامن احتجاج کرنے والوں پر مقدمات درج کیے گئے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے مغویوں کی بازیابی کے لیے جماعت اسلامی کے پرامن احتجاجی مظاہرین پر پولیس تشدد اور مظاہرین وجماعت اسلامی کے قائدین وکارکنان پر جھوٹے مقدمات قائم کیے جانے پر سخت احتجاج کرتے ہوئے سندھ حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لے جماعت اسلامی کے ذمے داران پر جھوٹے مقدمات فوری طور پر واپس لیے جائیں ورنہ وہ بہت جلد کراچی سے لیکر کشمور سندھ سے ڈاکو راج کے خاتمے کے لیے اور سندھ کے مظلوم عوام کو ڈاکووں سے آزاد کرانے کے لیے وہ امن مارچ کریں گے۔

سندھ میں جماعت اسلامی کے تحت ڈاکوراج کے خلاف مظاہروں میں عوام کی بھرپور شرکت نے ثابت کر دیا ہے کہ سندھ کے عوام اب جاگ اٹھے ہیں اور سندھ کے عوام کا سڑکوں پر نکلنا بیداری کی علامت ہے۔ سندھ کے عوام گزشتہ پندرہ برسوں سے بدامنی اور ڈاکو راج کا عذاب سہ رہے ہیں اور کوئی بھی یہاں محفوظ نہیں ہیں۔ ان کچے کے ڈاکووں کو وڈیروں، جاگیرداروں، ایم این اے اور ایم پی ایز کے علاوہ سندھ حکومت کے سابق وزراء کی بھی مکمل پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ اس وقت بھی ان ڈاکووں نے سیکڑوں کی تعداد میں مرد، خواتین اور معصوم بچوں کو اغوا اور انہیں اپنی پناہ گاہوں میں قید کیا ہوا ہے۔ بغیر تاوان کے وہ کسی مغوی کو رہا نہیں کرتے ریاست کے اندر ریاست قائم ہے اور ان ڈاکووں نے حکومتی رٹ کو چلینج کیا ہوا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مغویوں کی رہائی کے لیے فوج کے ذریعے ڈاکووں کی تمام آماج گاہوں اور ان کے سہولت کار وسرپرستوں کے خلاف بے رحم آپریشن کیا جائے اور جب تک سندھ میں مکمل طور پر امن وامان کی بحالی اور مغویوں کی بازیابی نہیں ہوجاتی یہ بے رحم آپریشن جاری رہنا چاہیے تاکہ سندھ کے عوام سکھ کا چین لے سکیں۔ جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جس نے سندھ میں ڈاکو راج کے خلاف بھرپور طریقے سے آواز اٹھائی اور اس کے مرکزی اور صوبائی امراء مستقل طور پر مغویوں کے اہل خانہ سے رابطے میں رہے اور مغویوں کی رہائی کے لیے بھرپور طریقے سے آواز بلند کی گئی۔

پولیس کی جانب سے کندھ کوٹ میں احتجاجی دھرنے کے شرکاء پر لاٹھی چارج، شیلنگ اور جھوٹے مقدمات قائم کرنا جمہوریت کی نفی ہے۔ ظلم کے خلاف احتجاج بلند کرنا ہر شہری کا جمہوری اور آئینی حق ہے۔ سندھ کی عبوری حکومت نے پولیس کے ذریعے کندھ کوٹ میں دھرنے کے شرکاء پر لاٹھی چارج اور بدترین تشدد کر کے انصاف اور جمہوریت کو پامال کیا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ امن کی بحالی اور ڈاکو راج کے خاتمے کے لیے جماعت اسلامی کی پرامن جدوجہد ضرور رنگ لائے گی اور شاہ عبدالطیف بھٹائی، لعل شہباز قلندر اور محمد بن قاسم کی دھرتی ایک بار پھر امن، اخوت، بھائی چارگی اور سلامتی کی دھرتی بنے گی اور کچے وپکے کے ڈاکووں کو جائے پناہ نہیں ملے گی۔