جماعت اسلامی کی پرامن اور تاریخی ہڑتال

503

ہڑتال کا نام آتے ہی ایک خوف اور دہشت کی فضا قائم ہوجاتی ہے۔ ماضی کراچی کے شہری اس ماحول کے بڑے عادی رہے چکے ہیں اور انہوں نے ہڑتال کیا ہڑتالوں کی سیریز بھی دیکھی ہے اور یہ بھی دیکھا کہ ہڑتال سے ایک دن پہلے ہی پورے شہر میں فائرنگ اور جلائو گھیرائو کر کے ایک ماحول قائم دیا جاتا تھا اور اگلی صبح سویرے چند مقامات پر پھر فائرنگ دوتین لاشوں کا تڑکا اور ہڑتال سپر ہٹ کامیاب اور یہ فارمولہ کئی دھائیوں تک قائم رہا۔ لیکن جماعت اسلامی نے بجلی کے بلوں میں ہونے والے ہوشربا اضافوں کے خلاف ملک گیر کامیاب اور تاریخی ہڑتال کر کے یہ ثابت کردیا ہے کہ جب بھی عوام کے مسائل پر بات کی جائے گی اور حقیقی بنیادوں پر عوام کے لیے آواز اٹھائی جائے گی تو خلق خدا ان کی ہمنوا بن جاتی ہے۔ ایسی ہی صورتحال 2ستمبر کو جماعت اسلامی کی ملک گیر ہڑتال میں دیکھنے میں آئی کہ عوام اور تاجروں نے کس طرح اپنا کاروبار زندگی اپنی مرضی سے بند کیا اور بغیر گولی چلے اور دھونس دھمکی کے بغیر ہڑتال کو تاریخی طور کامیاب بنایا گیا۔ کراچی شہر ہی کیا پورے ملک میں کوئی پتھر نہیں مارا گیا اور نہ ہی شیشہ ٹوٹا۔ بلاشبہ پرامن ہڑتال جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کا ایک موثر ذریعہ ہے پرامن مزاحمت جمہوریت کا حسن ہے اور یہ ایک بڑی جدوجہد کا نقطہ آغاز بھی ہے کراچی کے عوام کے ساتھ ساتھ کراچی کی تاجر برادری کا بھی اس ہڑتال کی کامیابی میں اہم کردار ہے۔ کراچی کے تاجروں نے ایک کے بجائے دوہڑتالیں کیں انہوں نے جمعہ کے دن بھی اپنا کاروبار بند رکھا۔ جبکہ سازشی قوتیں کراچی کے عوام کی اس کروٹ اور بیداری پر بڑے پریشان اور خوف زدہ بھی تھے۔ اس سلسلے میں گورنر سندھ، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے کچھ تاجروں کے ساتھ مل کر تاجر برادری کو تقسیم کرنے کی کوشش بھی کی اور یہ سازشی عناصر عوام کے سامنے پوری طرح بے نقاب بھی ہوگئے۔ ان عناصر نے عوامی قوت کی پیٹھ میں چھرا گھوپنے کی سازش کی تھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ عوامی قوت نے وہ سازش بری طرح ناکام بنا دی ہے۔

کئی دہائیوں کے بعد جماعت اسلامی کراچی شہر کو مکمل طور پر لیڈ کرتی ہوئی اور شہر کی قیادت کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ حافظ نعیم الرحمان شہر کراچی کی سب سے بڑی سیلبرٹی بن چکے ہیں اور نوجوان جس طرح دیوانہ وار ان سے محبت اور عقیدت رکھتے ہیں وہ ناقابل بیان ہیں۔ حافظ نعیم کسی جلسہ یا ریلی میں پہنچ جائیں تو نوجوان انہیں اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہوئے اپنے کاندھوں پر اٹھا لیتے ہیں اور وہ اور ان کی جماعت شہر کی ایک بڑی موثر قوت بن کر سامنے آئی ہے۔ ماضی میں زور زبردستی کی ہڑتالوں کے بعد پہلی بار جماعت اسلامی کی پرامن تاریخی ہڑتال نے ثابت کردیا ہے کہ عوام کا سیاسی شعور اب بیدار ہوچکا ہے۔ کراچی کی سڑکوں پر سناٹا کسی بڑے طوفان اور انقلاب کی نوید دے رہا ہے۔ ملک بھر کے شہریوں نے اپنا کاروبار بند کر کے حکمرانوں کو پیغام دیا گیا ہے کہ ’’زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو‘‘ جماعت اسلامی کی پرامن ہڑتال ملک میں تبدیلی کے لیے بڑی پیش رفت ہے اور جماعت اسلامی نے عوام کی ترجمانی کا حق ادا کرتے ہوئے ایک تاریخ رقم کر دی ہے۔ پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا یہ بیان ایک لطیفے سے کم نہیں کہ مہنگائی اتنی زیادہ بھی نہیں کہ پہیہ جام کیا جائے اور حالات اتنے بھی برے نہیں جتنا دکھایا جا رہا ہے۔ نگراں وزیراعظم کا یہ بیان خود ان کی سبکی کا باعث بن رہا ہے اور یہ بات عملی طور پر ثابت ہورہی ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے چاہے ان کا تعلق منتخب وزیراعظم سے ہو یا نگراں وزیراعظم سے سے انہیں عوام کے دکھ، پریشانی، مشکلات کا رتی بھر بھی احساس نہیں ہے۔ پاکستان کے غریب عوام مہنگائی، غربت، بے روزگاری کے اس دور میں بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر تڑپ اٹھے ہیں۔ غریب اور مظلوم لوگ مایوسی کا شکار ہوکر خودکشیوں پر مجبور ہوگئے ہیں۔ لوگ ابھی تو بجلی کے بلوں کو آگ لگا رہے ہیں اگر ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو ان کا یہ احتجاج کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ ابھی بجلی کے بل جلائے جارہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر حکمرانوں کی پناہ گاہوں کو آگ لگا دی جائے۔ جنہوں نے اپنی عیاشیوں کے لیے ان کے حلق کا نوالہ چھینا ہے۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ گلی محلوں میں جائیں اور عوام کی مشکلات اور پریشانیوںکا خود جائزہ لیں کہ کس طرح وہ اپنا گزر بسر کر رہے ہیں۔ ہم ہر وقت بھارت سے مقابلہ کرتے ہیں بھارت آج چاند پر پہنچ گیا ہے اور ہم بجلی، گیس، پانی کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پاکستان کو ان نااہل حکمرانوں نے تباہ وبرباد کیا ہے جنہوں نے اپنی عیاشیوں کے لیے غریبوں کے گھروں کا چولھا تک بجھا دیا ہے۔ وڈیرے جاگیر دار اور سرمایہ دار تو ہمیشہ مال مفت دل بے رحم کی طرح پاکستان کو لوٹتے، نوچتے اور کھاتے رہے ہیں۔ پاکستان کا غریب تنخواہ دار طبقہ ہمیشہ قربانی پر قربانی دیتا چلا آیا ہے۔ لیکن اسے ہمیشہ دیوار سے لگایا گیا ہے۔ تنخواہ دار طبقہ ہر سال 264 ارب روپے ٹیکس کی مد میں ادا کرتا ہے جبکہ جاگیر دار طبقہ صرف 4ارب روپے ٹیکس کی مد میں ادا کرتا ہے اور ساری سہولتیں اور عیاشیاں اسی طبقے کے لیے ہوتی ہیں۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے بعد چینی کا بحران بھی سر اٹھا رہا ہے اور ملک کے بیش تر علاقوں میں چینی 190روپے کلو کے حساب سے فروخت ہورہی ہے جبکہ پنجاب فوڈکا کہنا ہے کہ ملک میں 10لاکھ میٹرک ٹن چینی موجود ہے لیکن اس کے باوجود چینی کا شدید بحران ذخیرہ اندوزوں کی کارستانی معلوم ہوتی ہے جو کہ ہمیشہ حکمرانوں کی چھتری تلے اپنی لوٹ مار میں مصروف رہتے ہیں۔

پاکستان کے عوام کو اب اپنے شعور کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور آپس میں دست گریباں ہونے کے بجائے اپنے اصل دشمن اور اس کی چالوں کو پہچانا ہوگا جو انسانوں کو انسانوں سے لڑا کر اپنے آقائوں کو خوش کرتے ہیں۔ کراچی سے لیکر خیبر تک جماعت اسلامی کی پرامن اور تاریخی ہڑتال ایک بڑے انقلاب کی جانب پیش قدمی ہے۔ عوام کو اب آئی ایم ایف ہی سے نجات حاصل نہیں کرنی بلکہ آئی ایم ایف کے ایجنٹوں سے بھی نجات حاصل کرنا ہوگی۔ جنہوں نے اپنی عیاشیوں کے لیے پاکستان کے مستقبل کے کھلواڑ کیا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کسی بھی قیمت پر قابل قبول نہیں ہے۔ عوام تمام جماعتوں پارٹیوں سے مایوس ہوچکے ہیں اور وہ جماعت اسلامی کی دیانت دار قیادت کی جانب دیکھ رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ بھنور میں پھنسی کشتی کو جماعت اسلامی کی جرأت مند قیادت ہی نکال سکتی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے خلاف عوامی اور تاریخی ہڑتال ایک ریفرنڈم ثابت ہوئی ہے۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ ہوش کہ ناخن لیں اور فوری طور پر بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات اور چینی کی قیمتوں میں کمی کی جائے ورنہ اگر جماعت اسلامی کی قیادت نے اگلے مرحلے کے لیے اسلام آباد کے گھیرائو کی کال دے دی تو حکمرانوں کو اپنی کرسی ہی نہیں بلکہ اپنی جان بچانا بھی مشکل ہوجائے گی کیونکہ عوام شدید مشتعل اور غصے میں ہیں اور انہیں کنٹرول کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ حکمران اس وقت سے ڈریں جب ان غریب اور مظلوم عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے گا اور انہیں کہیں جائے پناہ نہیں ملے گی۔