بجلی کے بلوں میں ظالمانہ اضافہ

650

پاکستان اس وقت شدید ترین بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ ملک میں پہلے ہی بدترین مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کا راج ہے ایسے میں بجلی کی قیمتوں میں تباہ کن اور ہوش ربا اضافے نے تو عوام کے صبر کا پیمانہ ہی لبریز کر دیا ہے اور اب وہ بجلی کاٹنے کے لیے آنے والے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں واپڈا اور کے الیکٹرک کے چھوٹے ملازمین پر چڑھ دوڑے ہیں اور انہیں پکڑ پکڑ کر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جبکہ ان بے چاروں کا تو اس میں کوئی قصور ہی نہیں ہے وہ تو ملازم ہیں جیسا انہیں اوپر سے کہا جاتا وہ اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ قصور تو سارا ہمارے نااہل حکمرانوں کا ہے جنہوں نے اپنی عیاشیوں کی خاطر عوام کو دیوار سے لگا دیا ہے اور پورا ملک اس وقت انارکی سے دوچار ہے۔ پاکستان کی پوری قوم بالخصوص تاجر برادری اضطراب اور بے چینی کا شکار ہے اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے ان کا جینا محال کر دیا ہے۔ غریب اور پریشان حال لوگ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ایک عام دوکان کا کرایہ اگر 30ہزار ہے تو بجلی کا بل وہاں 60ہزار روپے آرہا ہے۔ عام آدمی کا خون دونوں ہاتھوں سے نچوڑا جا رہا ہے۔ بجلی کے بلوں میں 13قسم کے ٹیکس لگ کر آرہے ہیں۔ جن میں ٹیلی ویژن کا ٹیکس، جنرل سیلز ٹیکس، ایکسٹرا ٹیکس، صبح کے یونٹ، دوپہر کے یونٹ، رات کے یونٹ، 200 یونٹ کے سلیپ، 300 یونٹ کے سلیپ، 40ہزار روپے کا اگر بل ہے تو اس پر 70ہزار روپے کے ٹیکس لگا دیے گئے ہیں۔ ایف بی آر اپنی نااہلی کی وجہ سے ٹیکس اکٹھا نہیں کرسکتا تو بجلی اور پٹرولیم مصنوعات میں ہوشربا اضافے کے ذریعے عوام سے رقم بٹوری جا رہی ہے۔

دوسری جانب اشرافیہ ودیگر مراعات یافتہ طبقے کی عیاشیاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت کے پندرہ ماہ میں پانچ سو ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں ڈیڑھ لاکھ سرکاری گاڑیاں ہیں چل رہی ہیں جس میں مفت پٹرول ڈالا جاتا ہے اور پٹرول کی کوئی قید نہیں ہے۔ مراعات یافتہ طبقے کو 34کروڑ یونٹ بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے۔ مفت علاج اور مفت ہوائی جہاز کے ٹکٹ الگ عیاشیاں ہیں۔ اسحاق ڈار کو ڈالر کو کنٹرول کرنے کے لیے لایا گیا تھا لیکن ان کی نااہلی کی وجہ سے تو ڈالر اب 300روپے کراس کر چکا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی اس تیزی کے ساتھ بڑھی کہ کاروباری طبقے کے لیے صنعتیں چلانا ناممکن ہوگیا ہے۔ نوجوان اپنی موٹر سائیکلوں میں پٹرول نہیں ڈال سکتے۔ غریب آدمی کے لیے تعلیم اور صحت کا حصول ناممکن ہوگیا ہے۔ ملک کے حالات سول نافرمانی کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ معاشی بحران اور مہنگائی کا طوفان کی وجہ سے 2ستمبر کو جماعت اسلامی نے ملک گیر پیہ جام اور شٹر ڈائون ہڑتال کی کال دی ہے۔ پورے ملک میں بجلی کی قیمتوں میں ہونے والے اضافوں کے خلاف تاجر تنظیموں اور سول سوسائٹی کی جانب سے احتجاجی مظاہرے اور احتجاجی ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ کے الیکٹرک کا لائسنس منسوخ کیا جائے۔ کے الیکٹرک بدعنوانیاں اور اوور بلنگ ختم کی جائے۔ حکومت کے الیکٹرک کی سرپرستی بند کرے۔

بلا شبہ حکومت کی غلط پالیسوںکے نتیجے میں کاروباری طبقہ آج تباہی کا شکار ہے دوسری جانب ایک عام آدمی جس کی تنخواہ ہی 20 سے 25 ہزار روپے ہے وہ 8 سے10ہزار روپے بجلی کا بل بھرتا ہے پھر مکان کا کرایہ، راشن، بچوں کی تعلیم، علاج معالجہ، ٹرانسپورٹ کا کرایہ ادا کرنا اس کے بس سے باہر ہوچکا ہے اور اس طرح خرابی اور بربادی کے ذمے دار حکمراں طبقہ ہے جس نے اپنی لوٹ مار اور کرپشن سے پاکستان کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے۔ منگل کے روز فیصل آباد کے نوجوان حمزہ نے بجلی کے زائد بل پر سر پر گولی مار کر خود کشی کر لی مرحوم دو بچوںکا باپ تھا اور اس کے گھر کا بجلی کا بل 40ہزار کا آیا تھا۔ دوسری جانب 2022 میں واپڈا سے وابستہ سرکاری ملازمین کو 8ارب 19 کروڑ روپے کی بجلی مفت فراہم کی گئی ہے۔ پاکستان میں بھی عجب دستور ہے کہ 25ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے عام آدمی کا بجلی کا بل 25ہزار اور 15لاکھ روپے تنخواہ لینے والے سرکاری افسر کی بجلی مفت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ یہ ظلم کا بازار بند کرے۔ عوام کے لیے حکمرانوں کی عیاشیوں اور آئی ایم ایف کی غلامی کا بوجھ اب برداشت سے باہر ہوگیا ہے۔ پوری قوم کا مطالبہ ہے کہ وڈیروں اور جاگیر داروں پر بھی ٹیکس لگایا جائے۔ عوام پر سے مہنگائی کا بوجھ کم کیا جائے۔ تمام سرکاری افسران حکومتی اہلکاروںکی مفت بجلی، پٹرول اور مراعات ختم کی جائیں، بجلی کے بلوں سے ناجائز ٹیکس ختم کیا جائے۔ کراچی سے لیکر خیبر تک کے عوام کو اب اپنے ساتھ ہونے والے ظلم پر اٹھنا ہی ہوگا۔ عوام کا اتحاد اور یکجہتی آئی ایم ایف کے غلاموں اور ظالم حکمرانوں کو مجبور کر دے گا کہ وہ عوام کو ریلیف فراہم کریں اور کے الیکٹرک کا لائنس منسوخ کر کے عوام کو سستی بجلی فراہم کی جائے۔