سرکلر ریلوے کی بحالی

220

کراچی میں سرکلر ریلوے کی بحالی کے اعلانات کا تماشا جاری ہے۔ تازہ ترین اعلامیہ وفاقی حکومت کی قائم کردہ سنٹرل ڈولیپمنٹ ورکنگ پارٹی (CDWP) جس نے کراچی میں سرکلر ریلوے کی بحالی کے منصوبے کو منظوری کے لیے قومی اقتصادی کونسل (ایکنک) کو بھیج دیا ہے۔ اس منصوبے کی لاگت کا ابتدائی تخمینہ 2ہزار 9 سو 24 بلین روپے لگایا گیا ہے جو ابتدائی تخمینہ سے 44 فیصد زیادہ ہے۔ اس منصوبے کو چینی قرض کے ساتھ سی پیک کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ تازہ اعلان کا مطلب یہ ہے کہ ابھی تک سرکلر ریلوے کی بحالی کے منصوبہ پر عملدرآمد میں کافی وقت ہے۔ اس منصوبے پر صرف اس وجہ سے عمل نہیں ہو سکا کہ صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کو دل چسپی نہیں تھی، جب کہ شہری بلدیاتی حکومت یا ادارے کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ ریلوے وفاقی حکومت کے ماتحت ہے سرکلر ریلوے کراچی کے شہریوں کی خدمت کا منصوبہ ہے، اس لیے یہ منصوبہ ٹلتا رہا۔ اس دوران کراچی میں بدامنی اور بدعنوانی نے مل کر سرکلر ریلوے کے انفراسٹرکچر کو برباد کر دیا۔ ریلوے کی زمینوںپر قبضہ ہو گیا یہاں تک کہ ریلوے لائن کے ایک حصے پر حکومت نے سڑک بنا ڈالی اور سڑک بنانے والوں کو کوئی یہ بتانے والا نہیں تھا کہ جہاں سڑک بنا رہے ہو یہ ریلوے لائن ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حکومتی ادارے ہی قانون شکنی کے مرتکب ہیں۔ ایک وقت وہ تھا کہ وفاقی حکومت ملک کے مغربی اور مشرقی دونوں حصوں میں ریلوے کا نظام چلا رہی تھی اور اس نے ایک شہر کے لیے بھی مقامی ریلوے کا نظام قائم کیا تھا۔ اب وفاقی وزارت ریلوے یہ کہتی ہے کہ سرکلر ریلوے وفاق کا موضوع نہیں ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے بھی سرکلر ریلوے کی بحالی کا حکم دیا اس پر بھی عمل نہیں ہوا اب کثیر سرمایہ کاری کے بغیر یہ منصوبہ بحال نہیں ہو سکتا ۔ سیاسی نعرے بازی کے طورپر اسے سی پیک کا حصہ بنا دیا گیا ہے، لیکن ابھی تک عملی شکل اختیار نہیں کر سکا ہے۔ صرف سرکلر ریلوے کا خاتمہ ہمارے 75 سالہ ریاستی نظام کی مجرمانہ غفلت کی سب سے بڑی شہادت ہے۔