اسحق ڈار کی اپنے خلاف ایف آئی آر

451

وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈارکافی عرصہ بیرون ملک رہنے کے بعد پاکستان تشریف لائے سینیٹ کا حلف اٹھایا ، وزیرخزانہ بنائے گئے اور جس وقت لائے گئے تھے اسوقت ڈالر کی قدر کم ہو رہی تھی اور پیٹرول سستا ہو رہا تھا جس پر ان کے قصیدہ خوانوں نے کہا کہ اسحق ڈار کی آمد کی خبر سنتے ہی ڈالر نیچے گر گیا ۔ لیکن یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ کسی کے نام کے ساتھ وزیر خزانہ لکھنے سے وہ خزانہ امور کا ماہر نہیں ہوجاتا ۔ جیسے وزیر خزانہ وہ ہیں پہلے بھی ایسے ہی تھے ان سے قبل ان کی پارٹی کے مفتاح اسمعیل بھی وزیر خزانہ رہے اور عمران خان کی حکومت میں اسد عمر، شوکت ترین اور حفیظ شیخ بھی رہے ان تمام وزراء کے بیانات ان کے اپنے اپنے ادوار میں شاہکار رہے ہیں ۔ اور جب یہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو کچھ اورکہتے ہیں ۔ چند ماہ قبل شوکت ترین کہتے تھے کہ ملک پر قرض کا بوجھ بڑھ گیا ہے ، اسد عمر نے بھی یہی کہا تھا بلکہ وہ تو پیٹرول بجلی اور گیس کی قیمت میں اقتدار میں آکر کم کرنے کا دعویٰ کرتے تھے اور حفیظ شیخ بھی یہی کہتے رہے۔ اب اسحق ڈار کی واپسی ہوئی ہے ۔ ایک مرتبہ پیٹرول کی قیمتیں کم کرنے کے بعد سے ان کی ہمت جواب دے گئی ہے اور وہ بھی وہی بیان دینے لگے ہیں جو اپنے پچھلے دور میں دیتے تھے ۔ بس اعداد و شمار کا فرق ہے ،انہوں نے کہا کہ ملک پر واجب قرضوں کا حجم49ہزار200ارب روپے ہے ۔ انہوںنے تفصیل بھی بیان کی ہے کہ پاکستان پر اندرونی قرضہ کتنا ہے اور بیرونی قرضہ کتنا ہے ۔ انہوںنے نہایت ہوشیاری سے پاکستان پر جون2022 کے اختتام پر قرضوں کے اعداد و شمار پیش کیے ہیں ۔ اس سے گویا یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ قرضے پچھلی حکومت کے ہیں ۔بالکل صحیح یہ قرضے پچھلی حکومت کے ہیں لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ پچھلی حکومتوں کے ہیں اور پچھلی حکومتیں مسلم لیگ ن اورپیپلز پارٹی کی تھیں جو اب ایک جگہ پر بیٹھ کر حکومت کر رہے ہیں۔ گویا یہ اپنی ہی حکومت کے خلاف ایف آئی آر ہے۔ یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی نے ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ قرضے لیے ہیں لیکن مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بھی اس کھیل میں برابرکی شریک رہی ہیں ۔ فوجی حکمران بھی مسثنیٰ نہیں ہیں ۔ اب اسحق ڈار یہ بتا کر اگلا بیانیہ یہی جاری کریںگے کہ چونکہ ملک پر قرضوں کا اس قدر بوجھ ہے اس لیے مہنگائی پر فوری قابو پانا ممکن نہیں اور پیٹرول کی قیمتیںکم کرنے سے ملک کی معیشت کو دھچکا لگے گا لیکن ہم ملک کو معاشی ٹائیگر بنا دیں گے ۔ یہ سارے بیانات ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں ۔ حکومت کسی کی بھی ہو وہ کبھی کسی خرابی کی ذمے دار نہیں ہوتی ۔ پچھلے حکمران ہی ذمے دار نکلتے ہیں لیکن اس معاملے میں ڈار صاحب کے بیانیے نہیں چلیںگے ۔ انہیں بتانا چاہیے کہ49ہزار ارب کے قرضے صرف پی ٹی آئی نے لیے ہیں یا کسی اور نے بھی لیے ہیں اور جب وہ حکمران تھے تو کیا تیر مار لیا تھا ۔ در اصل پاکستان کا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ حکمران وہی لوگ بنائے جاتے ہیںجن کا اپناعلاج معالجہ، سیر سپاٹے ، سب بیرون ملک ہوتے ہیں،میاں نواز شریف ، اسحق ڈار ، آصف زرداری اور بہت سے دوسرے حکمران بیرون ملک ہی ڈیرا جماتے ہیں انہیں اس ملک کا درد کھائے جاتا ہے لیکن یہ درد ملک میںمحسوس نہیں کرتے ،باہرجا کرمحسوس کرتے ہیں یا اپوزیشن میں آکر ۔ اسحق ڈار یہ بھی بتا دیتے کہ ملک کے قرضوں کے اعداد و شمار کی رپورٹ قومی اسمبلی کو دینے کا مقصد کیا تھا ۔ ظاہر ہے جب یہ رپورٹ اسمبلی میں پیش کی جائے گی تو اخبارات کی زینت بھی بنے گی اور اس کا پوراپورا اہتمام بھی ہوتاہے کہ ایسی خبروں کو تیزی کے ساتھ ٹی وی چینلز پر چلا دیا جائے ۔ پھر سارا ملک اسی پربات کرے گا ۔ ان سب باتوں سے قطع نظر یہ بات نہایت افسوس ناک ہے کہ اسمبلی اور سینیٹ میں جن لوگوںکو عوام کی نمائندگی کے لیے بھیجا جاتا ہے وہ ان قرضوں کا حساب اپنی اپنی پارٹی سے کیوں نہیں لیتے ۔ یہ عجیب چلن ہے کہ ہر حکمران دوسروں کا احتساب کرتا ہے ۔ کوئی خود کو بھی احتساب کے لیے پیش کرے!! جس روز اسحق ڈار کا بیان شائع ہوا ہے اسی روز یہ خبر بھی جلی حروف میں شائع ہوئی کہ پاکستان اور ایشیائی بنک کے درمیان ڈیڑھ ارب ڈالر کے قرض پروگرام کامعاہدہ ہو گیا ۔ اگلی خبر یہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف سعودی عرب پہنچ گئے ۔ وہاں وہ سعودی سرمایہ کاری کے لیے کچھ منصوبوں پر بات کریںگے ۔ اس سے قبل آئی ایم ایف سے ’’کامیاب‘‘ معاہدہ کر لیاگیا تھا اس کے بعد حالات بہتر ہونے کے بجائے خراب ہی ہو رہے ہیں مہنگائی بڑھ رہی ہے ،تازہ رپورٹ آئی ایم ایف نے دی ہے کہ پاکستان میں رواں سال بیروز گاری مزید بڑھے گی ، ’’مرے پہ سو دُرّے‘‘ کے مصداق کراچی پر بجلی بم گرا دیا گیا ، نیپرا نے کے الیکٹرک کو بارہ روپے68پیسے فی یونٹ بجلی مہنگی کرنے کی اجازت دے دی ، جب قرضوں کا حجم بھی بڑھ رہا ہے ، مہنگائی بڑھ رہی ہے ، بیروز گاری بھی بڑھ رہی ہے تو یہ قرضے کہاں جا رہے ہیں کیوں لیے جا رہے ہیں ۔قرض نہ لے کر بھی یہی سب کچھ ہو گا تو یہ لوگ ملک کو گروی رکھنے کے انتظامات کیوں کر رہے ہیں؟ اسحٰق ڈار نے جو اعداد و شمار آج دیے ہیں پیپلز پارٹی کے خلاف وہی ایسے ہی بیانات دیتے تھے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والا ہو بچہ مقروض ہوتا ہے۔ بس یہ لوگ ہر نئے بچے کے قرض میں اضافہ ہی کرتے ہیں۔