انٹرنیٹ کے استعمال سے اشیا اور خدمات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، رپورٹ

741

اسلام آباد: انٹرنیٹ کے استعمال سے ملک میں اشیا اور خدمات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے،ہائیڈروپونک ٹیکنالوجی اور فارم آٹومیشن کے ذریعے روایتی فارموں کی پیداوار میں کئی گنا اضافہ ممکن،سمارٹ میٹرنگ ٹیکنالوجی کے استعمال سے بجلی کو پری پیڈ ماڈل میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔

انٹرنیٹ آن لائن تعلیم کے ذریعے ملک میں شرح خواندگی کو بڑھا سکتا ہے،مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی کا استعمال وقت کا تقاضا۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق مصنوعی ذہانت اور جدید ٹیکنالوجی ہر شعبے کی ترقی اور قومی معیشت کو مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

 پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے وائس چانسلر اور چارٹر آف اکانومی کے شریک مصنف ڈاکٹر ندیم الحق نے کہا کہ مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی لوگوں کو مکمل فوائد فراہم کر سکتی ہے جس کیلئے ہمیں انٹرنیٹ تک رسائی اور آن لائن سسٹم سے شروعات کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو 2025 کے آخر تک ملک بھر میں تیز رفتار انٹرنیٹ تک رسائی کے لیے مکمل طور پر فنڈز فراہم کرنا چاہیے اوراس وقت تک ہمیں ٹیلی کام فرموں کو سپیکٹرم کی فروخت کے ذریعے آمدنی حاصل کرنے پر غور نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے بجائے حکومت کو انٹرنیٹ کی سہولت کو توسیع دینے پر کام کرنا چاہیے کیونکہ اس طرح ہم ٹیک سیوی نسل کو فروغ دے سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیکھنے اور علم کے لیے انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی بہت ضروری ہے۔ ڈاکٹر ندیم نے کہا کہ جدید ٹیکنالوجی کے فروغ کی وجہ سے ملازمتوں کی نوعیت بدل رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت، انفارمیشن مینجمنٹ اور ڈیٹا پروسیسنگ نے تعلیم سے لے کر علم پر مبنی پیشوں تک سب کچھ بدل دیا ہے۔

 اب ڈیٹا کی مینجمنٹ، ڈیولپمنٹ اور ٹرانسمیشن کاروبار کو تبدیل کر دے گی۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ کے استعمال سے ملک میں اشیا اور خدمات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی نے کاروبار کرنے کا طریقہ بدل دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی اور مشینوں کی مدد سے بڑے پیمانے پر پیداوار ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ غیر ہنر مند لیبر کو سادہ مشینوں سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

 ڈاکٹر ندیم نے کہا کہ زرعی ٹیکنالوجی خوراک کے متبادل پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ہائیڈروپونک ٹیکنالوجی اور فارم آٹومیشن کے ذریعے روایتی فارموں کی پیداوار میں کئی گنا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیبارٹری سے تیار کردہ خوراک پہلے ہی مارکیٹ میں دستیاب ہے جو ماحول کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور مٹی اور پانی کو بچا سکتے ہیں جیسا کہ ہائیڈروپونک ٹیکنالوجی میں پودے کو اگانے کے لیے مٹی کی ضرورت نہیں ہوتی۔

 انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسی ٹیکنالوجیز کو اپنانے کے لیے مناسب پالیسیوں کی ضرورت ہے، جدید ٹیکنالوجی شہری کاشتکاری کو بھی فروغ دے سکتی ہے کیونکہ پودوں کو اگانے کے لیے کم جگہ اور کم وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں روایتی کاشتکاری لوگوں کی ضروریات کا ایک بڑا حصہ پورا کر رہی ہے لیکن شہری کاشتکاری بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ انسانی افزائش دماغی اور جسمانی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے جسم کی تکنیکی تبدیلی بھی ہے۔ مصنوعی حیاتیات میں بائیو ٹیکنالوجی بھی شامل ہے اوربائیو میڈیکل ریسرچ مستقبل میں اعلی قدر حاصل کرے گی۔