نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ آگیا، ظاہر جعفر کو سزائے موت کا حکم

306

اسلام آباد میں قتل ہونے والی نور مقدم کے کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ عدالت نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت دینے کا حکم دے دیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ سنایا۔ فیصلے میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت کا حکم دیا گیا۔ مرکزی ملزم کے والدین سمیت 9 ملزمان بری کیا گیا۔

عدالت نے ظاہر جعفر سمیت 3 ملزمان کو سزا سنائی جب کہ تھراپی ورکس کے تمام ملزمان بری کر دیا گیا۔

عدالت نے شریک ملزمان مالی جان محمد اور چوکیدار افتخار کو 10،10 سال قید کی سزا دی۔ شریک ملزمان نے واقعہ کی اطلاع دی نہ روکنے کی کوشش کی۔

خیال رہے کہ نور مقدم کو دارالحکومت میں گزشتہ سال 20 جولائی کو قتل کیا گیا تھا۔ عدالت نے ملزمان کے وکلا اور پراسیکوشن کے دلائل مکمل ہونے کے بعد 22 فروری کو فیصلہ محفوظ کیا جو آج سنایا گیا۔

کیس کا پسِ مںظر

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے 14 اکتوبر سے 14 دسمبر تک کیس دو ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دیا جو مکمل نہ ہونے پر پہلے چھ ہفتے پھر مزید چار ہفتے کی ڈیڈ لائن دی گئی۔

کیس میں بارہ ملزمان میں سے آٹھ ضمانت پر ہیں، مرکزی ملزم ظاہر جعفر، شریک ملزم ذاکر جعفر، چوکیدار افتخار اور مالی جان محمد جیل میں قید ہیں۔ تھراپی ورک کے طاہر ظہور سمیت چھ ملازمین ضمانت پر ہیں ۔ شریک ملزمہ عصمت آدم اور باورچی جمیل بھی ضمانت بھی ہیں۔

مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی میڈیکل گراؤنڈ پر ایک درخواست دائر ہوئی تھی جو عدالت نے مسترد کر دی تھی۔ ظاہر جعفر کو ایک بار کرسی اور اسٹریچر پر بھی عدالت میں لایا گیا۔ اس کے بعد جب اڈیالہ جیل کے ڈاکٹرز کے بورڈ نے طبی رپورٹ دی تو ظاہر جعفر کو ٹرائل کے لیے مکمل تندرست قرار دیا۔

مرکزی ملزم نے اپنے لئے وکیل کے وکالت نامہ پر دستخط نہیں کئے تھے جس پر عدالت نے پہلے اسٹیٹ کونسل شہریار خان اور پھر اس کے ساتھ وکیل سکندر ذوالقرنین سلیم کو بھی اسٹیٹ کونسل مقرر کیا تھا جس نے مرکزی ملزم کی جانب سے کیس کی مکمل پیروی کی۔

اپنے حتمی دلائل میں وکیل مدعی شاہ خاور نے کہا تھاکہ ’نورمقدم قتل کیس میں ڈی وی آر، سی ڈی آر، فرانزک اور ڈی این اے پر مبنی ٹھوس شواہد ہیں۔ نور مقدم قتل کیس میں تمام شواہد سائنسی طور پر شامل کیے گئے ہیں۔ ملزمان کے خلاف پراسیکیوشن نے کیس ثابت کر دیا ہے لہذا عدالت ملزمان کو سخت سے سخت سزا دے۔

پبلک پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے کہا تھا اس کیس کو ملک کا بچہ بچہ دیکھ رہا ہے کہ ملک کا نظام انصاف کیسے چل رہا، عدالت اس کیس کو مثالی بنائے۔

مرکزی ملزم کی والدہ اور شریک ملزم عصمت آدم جی کے وکیل اسد جمال نے دلائل میں کہا تھا کہ میری موکلہ کے خلاف کال ریکارڈ ڈیٹا کے علاوہ کوئی چیز موجود نہیں ہے جب کہ سپریم کورٹ ٹرانسکرپٹ کے بغیر کال ڈیٹا ریکارڈ کے متعلق فیصلے دے چکی ہے۔ استغاثہ یہ ثابت نہیں کر سکا کہ ملزم کے والدین کو قتل کے بارے میں علم تھا۔مرکزی ملزم کے والد اور شریک ملزم ذاکر جعفر کے وکیل بشارت اللہ نے اپنے جواب الجواب میں کہا تھا کہ اس کیس کا چشم دید گواہ ہی موجود نہیں لہذا میرے موکل کو بری کیا جائے۔

342 کے بیان میں ظاہر جعفر کہا تھاکہ نور نے میرے گھر ڈرگ پارٹی رکھی تھی مجھے ہوش نہیں رہا جب ہوش آیا تو دیکھا نور کا قتل ہو چکا ہے پارٹی میں بہت سے لوگ تھے ان میں سے کسی نے نور کا قتل کر دیا۔تھراپی ورکس کے چھ ملزمان اور ذاکر جعفر کے تین ملازمین کے وکلا نے ثبوت نا ہونے کی بنا پر عدالت سے بری کرنے کی استدعا کر رکھی ہے۔