امریکا نے ہمیشہ اپنے پاؤں پر خودکلہاڑی ماری

237

امریکامیں ایک مدت سے یہ آوازاٹھائی جارہی ہے کہ خارجہ پالیسی کوعسکریت کی بنیادپراستواررکھنے سے گریز کیا جائے۔ امریکانے دنیا بھرمیں پیر پسار رکھے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اس کی ذمے داریاں بھی بڑھی ہیں اوراخراجات بھی۔ نائن الیون کے بعدسے اب تک بیرونی جنگوں پرامریکا کے6800ارب ڈالرخرچ ہوچکے ہیں۔فریقین کی لاکھوں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ لاکھوں افرادزخمی ہونے کے بعدجسمانی یاذہنی معذوری اورنفسیاتی پیچیدگیوں کاشکارہوئے ہیں۔عراق میں امریکی مداخلت کے نتیجے میں بدعنوان،نااہل اورفرقہ پرست حکومت قائم ہوئی جس کے ردِعمل میں داعش پیداہوئی اورالقاعدہ نے بھی سر اٹھایا۔
کریگ وٹلاک نے ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کے لیے ’’افغانستان پیپرز‘‘ کے زیرعنوان ایک کتاب لکھی ہے،جس میں اس جنگ کے شدیدمنفی اثرات کے حوالے سے تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ 31/اگست کوشائع ہونے والی اس کتاب میں بتایاگیاہے کہ امریکی حکام کوبہت پہلے یہ اندازہ ہوچکاتھاکہ افغانستان میں جس فوج کوانہوں نے پروان چڑھایا ہے، فنڈنگ کی ہے اورتربیت بھی فراہم کی ہے وہ طالبان کاسامنانہیں کرسکے گی۔ ایک طرف توکرپشن بہت بڑے پیمانے پرکی گئی اوردوسری طرف نااہلی تھی۔ بہت سی چوکیوں پرتعینات فوجی بہت پہلے فرارہوچکے تھے کیونکہ خوداُن میں اِتنی اخلاقی جرأت نہ تھی کہ طالبان کاسامناکرسکتے اورپھروہ ایسی حکومت کا ساتھ کیوں دیتے جس نے کرپشن کے سواکچھ نہیں کیا۔ چوکیوں کایہ حال تھاکہ اُن میں گولابارودتھا نہ راشن۔افغان فوج کے طاقتورہونے سے متعلق دعوے امریکامیں عوام کو دھوکادینے کے لیے کیے گئے تھے۔
طالبان نے افغانستان کے طول وعرض میں یوں کامیابی حاصل کی گویابجلی سی کوندگئی ہو۔ ایک ماہ سے بھی کم مدت میں افغان نیشنل سیکورٹی فورسز موم کی طرح پگھل گئیں اوراشرف غنی نے فرارہوکرمتحدہ عرب امارات میں پناہ لی۔ سوال یہ ہے کہ افغانستان میں امریکا کے سیاسی،مادّی اور’’انسانی اثاثوں‘‘ کا کیا ہوگا۔ طالبان امریکی فوجیوں کی چھوڑی ہوئی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں۔ ہیلی کاپٹراوردوسرابہت ساجنگی سازوسامان بھی طالبان کے ہاتھ لگا ہے۔ کابل ایئرپورٹ پردل دہلا دینے والے مناظردکھائی دیے۔ جوبائیڈن پرشدید تنقید کی جارہی ہے کہ انہوں نے افغانستان سے انخلا مکمل کرنے کے لیے جامع منصوبہ سازی نہیں کی۔ فورسزکے حوالے سے یہ توکہاجارہاتھاکہ وہ تادیر بھرپورمزاحمت نہیں کرسکیں گی مگروہ یوں راتوں رات پگھل جائیں گی،یہ توکسی نے سوچابھی نہ تھا۔جوبائیڈن نے تسلیم کیا ہے کہ افغان جنگ میں امریکاکوغیرمعمولی جانی ومالی نقصان برداشت کرناپڑااوریہ کہ نئی نسل سے تعلق رکھنے والے مزید فوجیوں کواس لامتناہی جنگ کی بھٹی میں نہیں جھونکا جاسکتا۔
افغانستان، عراق اور شام کی صورتِ حال میں امریکا کے لیے ایک بڑاسبق یہ تھاکہ ہرمعاملے میں عسکری قوت پربھروسانہیں کیاجاسکتا۔ دنیا بھرمیں مداخلت کے نتیجے میں نااہل اورکرپٹ حکومتیں معرضِ وجود میں آتی ہیں۔ امریکا جہاں بھی مداخلت کرتاہے وہاں معاملات زیادہ خراب ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں امریکاکے دشمن زیادہ قوت کے ساتھ ابھرتے ہیں اورجنگ کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔امریکانے افغانستان پرسوویت لشکرکشی کے بعدمجاہدین کی مددکی لیکن اپنے مفادکے حصول کے فوری بعدان کوبے یارومددگارچھوڑکرواپس بھاگ گیاجس کے نتیجے میں القاعدہ نے جنم لیا۔عراق اورشام میں امریکی مداخلت کے نتیجے میں داعش ابھری اورکسی حد تک القاعدہ نے بھی جڑپکڑی۔
امریکا کے خلاف بہت سے خطرناک منصوبے اُن جیلوں میں تیارکیے گئے جوامریکی فوج نے قائم کیں۔ امریکا جو کچھ کرتاآیاہے وہ اب پلٹ کراُس کی طرف آرہاہے۔اِسے ہم مکافاتِ عمل بھی کہہ سکتے ہیں اوریہ بھی کہاجاسکتاہے کہ جودوسروں کے لیے گڑھا کھودتاہے وہ خوداُس میں گرتا ہے۔ امریکا نے جن لوگوں کو فنڈ اور تربیت کے علاوہ ہتھیاربھی دیے وہ بعدمیں اُسی کے خلاف ہوگئے۔آخرایساکیوں ہوتاہے،اس پر بھی غورکرنے کی ضرورت ہے۔
نائن الیون کے بعدامریکانے افغانستان میں دوعشروں کے دوران کم وبیش دوہزارارب ڈالر دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پرخرچ کیے ہیں۔ گویا20سال تک یومیہ30 کروڑڈالراس جنگ پرخرچ کیے گئے۔ انکل سام نے طالبان کوافغانستان میں ریاستی وحکومتی امورسے الگ تھلگ رکھنے پرجورقم خرچ کی وہ جیف بیزوز، ایلون مسک، بل گیٹس اوردیگر30/امیرترین امریکیوں کی مجموعی دولت سے زیادہ ہے۔ 800/ارب ڈالرسے بھی زیادہ رقوم جنگ کی براہ راست لاگت کی مدمیں خرچ ہوئیں۔ کم وبیش 80/ارب ڈالرافغانستان کی اس فوج کی تربیت پرخرچ کیے گئے جوطالبان کی پیش رفت دیکھتے ہی منظرسے غائب ہوگئی۔ افغان فوج کے منظرسے غائب ہونے کا عمل جولائی کے اوائل میں امریکاکی جانب سے بگرام ائربیس کے خالی کردیے جانے سے تیزہواکیونکہ بگرام ائربیس خالی کرنے کامطلب یہ تھاکہ طالبان کی پیش قدمی روکنے کے لیے فضائی کارروائیاں نہیں کی جائیں گی۔ امریکی ٹیکس دہندگان افغان فوجیوں کی تنخواہوں کی مد میں سالانہ75کروڑ ڈالردیتے آئے ہیں۔
براؤن یونیورسٹی کے ’’کاسٹ آف وار‘‘ پراجیکٹ سے وابستہ محققین کے مطابق افغانستان پرامریکانے مجموعی طورپر2260/ ارب ڈالر خرچ کیے۔ جانی نقصان کوبھی ذہن نشین رکھاجائے توجنگ کی لاگت مزیدبڑھ جاتی ہے۔ افغانستان میں2500 امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ 4 ہزارامریکی سویلین کنٹریکٹربھی موت کے گھاٹ اترے۔ افغان ملٹری پولیس کاجانی نقصان 69 ہزار نفوس کا ہے۔ 47 ہزار عام شہری مارے گئے اوراپوزیشن سے تعلق رکھنے والے 51 ہزار طالبان بھی ہلاک ہوئے۔
افغان جنگ میں زخمی ہونے والے 20 ہزار فوجیوں اور سویلین کنٹریکٹرزکی دیکھ بھال پر300/ارب ڈالرخرچ ہوئے اورمزید500/ارب ڈالر خرچ ہونے کاامکان ہے۔ امریکا کے لیے ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ افغانستان سے مکمل انخلاکے بعدبھی بہت کچھ خرچ کرناپڑے گا۔صاف بات ہے کہ امریکا نے افغان جنگ میں ادھارلی ہوئی رقم لگائی ہے۔ براؤن یونیورسٹی کے محققین کہتے ہیں کہ قرضوں پرسودکی مدمیں 500/ارب ڈالرپہلے ہی خرچ کیے جاچکے ہیں۔یہ500/ارب ڈالرجنگ کی مجموعی لاگت (2260ڈالر) کا حصہ ہے۔ 2050ء تک جنگ کے قرضوں پر سود6500/ارب ڈالرتک پہنچ سکتا ہے۔ گویا ہر امریکی شہری کے حصے میں 20 ہزارڈالرکی ذمے داری آئے گی۔
جوبائیڈن پر تنقید کی جارہی ہے کہ انہوں نے افغانستان سے مکمل امریکی انخلاکی جامع منصوبہ سازی نہیں کی جس کے نتیجے میں ہڑبونگ مچی۔ افغانستان میں جنگ کومزیدجاری رکھناممکن نہ تھا۔امریکانےعسکری قوت پر اندھا اعتماد کرکے افغانستان،عراق اورشام میں ہزاروں ارب ڈالرکاخسارہ بھگتا ہے۔ سفارت کاری کوبہت پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ لازم ہے کہ اب امریکااورمغرب سفارت کاری پربھروسا کرکےعالمگیر اشتراکِ عمل کی راہ پرگامزن ہو۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر جنگ کی آگ میں پھونک دینے والی رقم کانصف اس خطے کے ترقیاتی کاموں پرصرف کردیاجاتاتوآج امریکاکورسوائی کے بجائے عزت واحترام کاوہ تاج پہنایاجاتا کہ یہ برسوں تاریخ میں یادرکھاجاتا۔