بھارت میں اسلام مخالف مہم عروج پر‘ مسلمانوں پر زمین تنگ

635

بھارت میں بدقسمتی سے اس وقت اسلام مخالف لہر بڑی شدت سے موجود ہے۔ مودی حکومت کی بنیاد ایک سیکولر بھارت کے مقابلے میں ہندوتوا کے نظریے پر مبنی ریاست اورحکومت ہے۔ ان کے بقول بھارت صرف اورصرف ہندوؤں کا ہے اور مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو اگر بھارت میں رہنا ہے تو اسے ہندوؤں کی بالادستی کو قبول کرنا ہوگا۔ اس کھیل کے اصل سرپرست نریندر مودی اور ان کی انتہا پسند جماعت بی جے پی اور آر ایس ایس جیسی انتہا پسند سخت گیر ہندو جماعتیں یا گروہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ چند برسوں میں بھارت کی مختلف ریاستوں میں مسلم دشمنی یا دیگر اقلیتوں کے خلاف شدید نفرت انگیز واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔ یہاں تک کہ سرعام تشدد کرکے کئی مسلمانوں کو قتل بھی کیا جا چکا ہے۔
کسی بھی اہم موقع، حالات و واقعات کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنا بھارت میں معمول بن چکا ہے۔ گزشتہ 2 برس کے دوران پوری دنیا کورونا وبا سے نمٹنے کی کوششوں میں مصروف ہے جب کہ بھارت میں اس کا الزام مسلمانوں پر تھوپ دیا گیا ہے اورکورونا پھیلنے کا ذمے دار مسلمانوں کو قرار دیا جانے لگا۔ مارچ میں ہونے والے ایک بڑے اسلامی اجتماع کو بنیاد بناکر تبلیغی جماعت سمیت مسلم آبادی کو نشانہ بنایا گیا۔ اس الزام کے بعد ایک سخت ردعمل ہمیں فطری طور پر مسلم آبادی کے خلاف دیکھنے کو ملا ہے جہاں اس مرض میں مبتلا مریضوں کو مذہب کی بنیاد پر پرکھا، جانچا جارہا ہے۔ یہ شکایت عام ہورہی ہیں کہ بھارت کے مختلف شہروں او ربالخصوص ان علاقوں میں جہاں سخت گیر ہندوؤں کی سیاست کا غلبہ ہے وہاں اسپتالوں میں مسلمانوں کو ہندوؤں کے مقابلے میں مذہبی تفریق کا سامنا ہے۔اگرچہ بھارتی حکومت ان الزام کی تردید کرتی ہے، مگر احمد آباد سول اسپتال کے ایم ایس جی ایچ رتہوڑ نے دی انڈین ایکسپریس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں یہ اعتراف کیا تھا کہ یہ کام انہوں نے ایک حکومتی نوٹیفیکیشن کی بنیاد پر کیا ہے کہ مسلم اور ہندو وارڈ علیحدہ ہوں، تاہم بعد میں بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں وہ اس کی تردید کرتے ہوئے نظر آئے جو یقیناً دباؤ کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ انتہا پسند ہندو بلاوجہ مسلم آبادی میں خوف پیدا کررہے ہیں اورجگہ جگہ مسلمان عورتوں، بچیوں او رنوجوانوں کو روک کر ان پر تشدد کیا جارہا ہے جو مسلم دشمنی کی عکاسی کرتا ہے۔
اسی طرح لو جہاد کے نام سے مسلمانوں خصوصاً نوجوانوں کے خلاف مہم شروع کی گئی اور کئی نوجوانوں کو اغوا کرکے انسانیت سوز تشدد کے واقعات میڈیا پر آ چکے ہیں۔ اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کے آزاد مستقل انسانی حقوق کمیشن نے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں کورونا وائرس کی آڑ میں مسلمانوں کو بدنام اورمیڈیا میں ان کی کردار کشی سمیت انہیں امتیازی سلوک اور تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس لیے مودی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ عالمی قوانین کے مطابق مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔امریکا کے کمیشن برائے مذہبی آزادی کی رپورٹ نے بھی بھارت پر شدید تنقید کی ہے اور بھارت کو اقلیتوں کے حوالے سے خطرنا ک ملک قرار دیا ہے۔ بھارت کی معروف مصنف اور دانشور ارون دھتی رائے کے مطابق مودی حکومت براہ راست مسلم نسل کشی میں ملوث ہے اورمسلمانوں کو ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔
2014ء میں جب سے انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی حمایت یافتہ مودی حکومت نے اقتدار حاصل کیا ہے تب سے بھارت میں اقلیتی برادری خاص طور پر مسلمانوں کو اپنی بقا کے خطرے کا سامنا ہے۔ ہندوتوا تنظیموں کی طرف سے نئی دہلی میں کئی مسلم مخالف تقریبات کا انعقاد کیا جا چکا ہے، جن میں مسلمانوں کی نسل کشی کے مطالبے پر مبنی نعرہ عام رہا۔ اس دوران ایسے اشتہارات تقسیم کیے جاتے رہے جن پر اسلام کی تباہی ، مسلمانوں کو مار ڈالو جیسے مسلم دشمن نعرے درج تھے۔
تازہ صورت حال یہ ہے کہ بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں نے نماز جمعہ پر ایک نیا تنازع کھڑا کردیا ہے۔ دارالحکومت نئی دہلی سے ملحق گڑگاؤں میں بجرنگ دل کے انتہا پسندوں نے دھاوا بولا جہاں دورانِ نماز مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز نعرے لگائے گئے اور ساتھ ہی آیندہ سے مذہبی اجتماع خصوصاً نماز ہونے کی صورت میں سخت نتائج کی دھمکیاں دی گئیں جب کہ 2018ء میں ہندو مسلم رہنماؤں کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں 37 مقامات پر نماز کی منظوری دی گئی تھی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق پہلے شہر کے سیکٹر 47 میں نماز کے حوالے سے کئی ہفتے ہنگامہ رہا اور اب حال ہی میں کچھ ویسا ہی سیکٹر 12-اے کے چوک پر دیکھا گیا ہے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر وڈیوز وائرل ہیں اور ہندو مسلم بحث زور و شور سے جاری ہے۔بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس میں شائع رپورٹ کے مطابق گڑگاؤں کے سیکٹر 12-اے میں جمعہ کی نماز کے دوران تقریباً تین درجن مظاہرین وہاں پہنچ گئے جہاں نماز ادا کی جا رہی تھی۔ ان میں سے کچھ سخت گیر ہندو تنظیم بجرنگ دل سے تعلق رکھنے والے بھی تھے۔ پولیس کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ مظاہرین نے نماز کے دوران ’’جے شری رام‘‘ اور ’’بھارت ماتا کی جے‘‘ کے نعرے لگائے۔ مظاہرین نے دھمکی دی کہ اگر اگلے جمعہ کو اسی جگہ نماز ادا کی گئی تو کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوسکتا ہے اور یہ انتظامیہ کی ذمے داری ہو گی۔اخبار نے پولیس ذرائع اور ضلعی انتظامیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ سیکٹر 12-اے میں نماز کے لیے اس جگہ کا انتخاب وہاں رہنے والے لوگوں کی رضامندی سے کیا گیا تھا۔
گڑگاؤں میں نماز جمعہ کے اجتماع کے خلاف احتجاج اور سخت گیر ہندوؤں کی جانب سے مظاہرے کا یہ واقعہ پہلا نہیں ہے۔
بھارتی صحافی کی جانب سے ایک وڈیو پوسٹ کی گئی، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مسلمان ایک مخصوص جگہ پر نماز پڑھ رہے ہیں جبکہ پولیس کی موجودگی میں انتہا پسند ہندو مظاہرین نعرے لگا رہے ہیں۔ اس وڈیو کو ٹویٹ کرتے ہوئے اہم شخصیات نے لکھا کہ ’میں اپنے ہندو ہونے پر شرمندہ ہوں۔‘ اس کے بعد بہت سے لوگوں نے اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔
بھارت میں جو کچھ ہورہا ہے، اس میں نیا کچھ بھی نہیں۔ پچھلے کئی برسوں سے مودی حکومت انتہا پسندی اورمسلم دشمنی کی سیاست کررہی ہے۔ جو آگ مودی حکومت ہندوتوا کو بنیاد بنا کر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف لگارہی ہے، وہ ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس پر عالمی اداروں، حکومتوں، انسانی حقوق سے جڑے اداروں او ران کی رپورٹس موجود ہیں، جو ظا ہر کرتی ہیں کہ بھارت کی ہندوتوا کی سیاست صرف مسلمانوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ دیگر اقلیتوں سمیت خود بھارت کی بھی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہے کیونکہ بھار ت میں موجود بیس کروڑ مسلمانوں کو اگر طاقت کے انداز میں دیوار سے لگایا گیا تو اس کا ایک بڑا ردعمل بھارت کی داخلی سیاست میں غالب ہوگا اور اس سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا۔

’’ہندوستان میں رہنا ہے تو جے شری رام ہی کہنا ہو گا‘‘
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں پارلیمان سے قریب ہی سخت گیر ہندوؤں نے 2 ماہ قبل اپنے ایک پروگرام کے دوران مسلمانوں اور مذہب اسلام کے خلاف اشتعال انگیز اور نازیبا نعرے بازی کی۔ پولیس نے اس سلسلے میں ایک مقدمہ بھی درج کیاگیا۔ پولیس نے تصدیق کی کہ نعروں کا مقصد مختلف گروہوں کے درمیان نفرت کو فروغ دینا تھا۔ دوسری جانب انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ جس مقام پر مذہب اسلام کی توہین اور مسلمانوں کے خلاف ہندو تنظیموں نے نفرت انگیز نعرے بازی کی، وہاں بڑی تعداد میں پولیس بھی موجود تھی اور اگر وہ چاہتی تو انہیں روک سکتی تھی تاہم ہمیشہ کی طرح اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس پروگرام کا اہتمام حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما اور سپریم کورٹ کے وکیل اشونی اپادھیائے نے کیا تھا۔ اس پروگرام کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں عام کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ’’ہندوستان میں رہنا ہوگا تو جے شری رام کہنا ہوگا‘‘۔ اس کے علاوہ بھی مسلم مخالف نفرت انگیز نعرے بازی کی گئی۔
دنیا جانتی ہے کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندوں میں مسلمانوں کے خلاف کھلی دہشت گردی اور بڑھتی غنڈہ گردی کرنے کی ہمیت کہاں سے آ رہی ہے۔ پولیس کی بے بسی، حکومتی اداروں کی بے بسی اور میڈیا کی مجرمانہ خاموشی اس سوال کا واضح جواب ہے۔

فیس بک بھارت میں مسلم مخالف، نفرت آمیز مواد ہٹانے میں ناکام
فیس بک کی کچھ داخلی دستاویزات سے پتا چلا ہے کہ اس کمپنی کی جانب سے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز اور تشدد پر اکسانے والے مواد کو صارفین تک پہنچنے سے روکنے کا عمل شفاف نہیں تھا۔ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق فیس بک کے اپنے ملازمین کو کمپنی کے مفادات اور اس کے محرکات پر شبہ ہے۔ فیس بک کی دستاویزات یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ اس کمپنی کو اس بات کا اندازہ کئی برس سے ہے۔ کئی ناقدین اور ڈیجیٹل ورلڈ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ فیس بک کا ادارہ اس حوالے سے کچھ بھی کرنے میں ناکام رہا، خاص کر جب معاملہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان کا ہو۔ دنیا بھر میں فیس بک سیاست کا اہم حصہ بن چکی ہے اور بھارت کی صورت حال اس حوالے سے مختلف نہیں۔ یہ تاثر عام ہے کہ نریندر مودی نے فیس بک کے پلیٹ فارم کو انتخابات کے دوران اپنی پارٹی کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کیا۔ وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ نےاس بات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی کہ فیس بک کی طرف سے جان بوجھ کر بھارت میں اپنے پلیٹ فارم سے نفرت آمیز مواد کو نہیں ہٹایا جاتا تاکہ بی جے پی اس سے ناراض نہ ہو۔ فیس بک کی دستاویزات یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ بعض اوقات نفرت آمیز مواد فیس بک کے اپنے ایلگوردمز کے باعث زیادہ لوگوں تک پہنچتا تھا۔

تجزیہ کار کہتے ہیں:
O مسلمان موجودہ ماحول میں نہ صرف غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں بلکہ ملک کا جمہوری نظام بھی رفتہ سخت گیر ہندو سوچ کے زیر اثر آتا جا رہا ہے۔ حالیہ نفرت انگیز پرتشدد واقعات کا سلسلہ 2017ء میں راجستھان کے الور ضلع کی شاہراہ پر دن دیہاڑے ایک مسلمان شخص کے قتل سے شروع ہوا تھا، جسے گائے کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ہندوؤں کی ایک تنظیم کے ارکان نے سڑک پر مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
چند حملے منظم طریقے سے منصوبہ بندی کے تحت اور چند انفرادی طور پر، دونوں شکلوں میں ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک مہم چل رہی ہے۔ پڑوسی کو پڑوسی کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کوشش ہو رہی ہے کہ ملک کا ڈی این اے تبدیل کر دیا جائے۔
O بھارت میں رہنے والے مسلمان پہلے ہی غربت اور اقلیت ہونے کے سبب معاشرے کے حاشیے پر ہیں۔ کھلی غنڈہ گردی، سرعام تشدد اور دھمکیوں جیسے حربے استعمال کرکے داب انہیں اور خصوصاً کاروباری طبقے کو اقتصادی طور پر مزید دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
O موجودہ ماحول میں بھارت کے مسلمانوں کی اکثریت غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے۔ لگتا ہے کہ اکثریتی برادری کا ایک طبقہ مذہبی انتہا پسندی کی طرف مائل ہے۔
O پرتشدد واقعات کا مقصد مسلمانوں میں خوف پیدا کرنا ہے اور اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ حملہ آوروں کو یقین ہوتا ہے کہ حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گی، جبکہ کئی ایسے واقعات ہیں جہاں الٹا حملے کا شکار ہونے والے کے خلاف ہی قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔
O مسلمانوں کے خلاف اس قسم کے تشدد کو ہندوؤں کے لیے انصاف کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ تاثر عام ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تشدد کے معاملے میں انتظامیہ اپنی آنکھیں بند رکھے گی۔
O حکومت نے اس طرح کے واقعات پر کئی بار نام نہاد تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا، جس کے سبب ہندو سخت گیر اور انتہاپسند عناصر کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔

اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کے آزاد مستقل انسانی حقوق کمیشن نے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں کورونا وائرس کی آڑ میں مسلمانوں کو بدنام اورمیڈیا میں ان کی کردار کشی سمیت انہیں امتیازی سلوک اور تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس لیے مودی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ عالمی قوانین کے مطابق مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔

بھارت کی تعلیمی پالیسی بھی آر ایس ایس کے ہندوتوا نظریات کی عکاس
نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت کی تعلیمی پالیسی 2020ء حکمران بی جے پی کے نظریاتی سرپرست راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ہندوتوا نظریات کی عکاس ہے۔اس حوالے سے ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ آر ایس ایس بھارتی کابینہ کی طرف سے منظور کی گئی نئی تعلیمی پالیسی کو اپنی بڑی کامیابی کے طورپر لے رہی ہے کیوں کہ وہ سمجھتی ہے کہ اب طالب علموں کو ہندوتوا نظریات پڑھائے جائیں گے جس کے لیے آر ایس ایس نے 60 سال کی طویل جدوجہد کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آر ایس ایس کے کارکن بہت خوش ہیں کہ ان کی آواز پالیسی سازی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے اور مودی حکومت کے سات سال آر ایس ایس کو کانگریس دور کی تعلیمی پالیسی کو جس میں انسانی وسائل کی ترقی پر توجہ مرکوز کی گئی تھی، تبدیل کرکے سنگھ پریوار کے ہندوتوا نظریات کو فروغ دینے کی طرف منتقل کرنے میں مددگار ثابت ہوئے۔ بی جے پی کے کارکنوں نے پالیسی کا خیرمقدم کیا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ حتمی پالیسی میں ان کا اہم کردار ہے اور ان کی تجاویز کو حتمی میںپالیسی میں شامل کیاگیا ہے۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی ہندوتوا نظریات کی پرچارک ہے کیونکہ آر ایس ایس طویل عرصے سے بھارت کے تعلیمی نظام کوہندوتوا کے رنگ میں رنگنا چاہتی تھی۔ آر ایس ایس سے منسلک بھارتی شکشن منڈل نے پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی میںان کے مطالبات میں سے تقریباً 60سے70فیصدکوبراہ راست یا بالواسطہ طورپر پورا کیاگیا ہے۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ مودی بھارت کوآر ایس ایس کے نظریات کے مطابق تشکیل دے رہے ہیں۔