انسانیت دشمنی سے سیاہ خوفناک امریکی چہرہ

476

کوئی امریکاسے پوچھے کہ سات سمندرپارسے ہزاروں میل کی مسافت طے کرکے کبھی مشرق وسطی، کبھی خلیج کی ریاستوں، کبھی جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیامیں لاؤ لشکراورساز شیں لیکر کیوں نازل ہوتا ہے۔ اس کاجواب یہ ہے کہ یہ موت فروخت کرنے اورزندگی خریدنے آتا ہے۔ اس خواہش میں مہم جوئی، توسیع پسندی، مجرمانہ کاروبار، طاقت کا بے جا استعمال اور مذہبی تعصب و جنونیت کا عنصر بھی شامل ہے۔ اگرامریکاکوانسان اورانسانیت، امن وآشتی سے الفت ہوتی، اگراسے غربت جہالت مفلسی بیماری سے نفرت ہوتی تویہ دنیاجنت کانظارہ پیش کررہی ہوتی۔ ان مقاصدکوپانے کے لیے جنگ و جدل، آگ وخون کے سمندرسے دنیا کو نہ گزرنا پڑتا، نہ گولہ بارودکی ضرورت ہوتی، بس صرف جیواورجینے دو، انسان اورانسانیت کے اعلیٰ اصولوں کی پاسداری، طاقتوراورکمزورکابرابری کی بنیادپراحترام، بلاامتیازرنگ ونسل ومذہب، باہمی احترام، کسی قوم کی آزادی، اس کی سرحدوں کے تقدس کوتسلیم کرنا بنیادی شرائط ہیں۔ ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ کسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنابہت ضروری ہے، مگرموت کاسوداگراورزندگی کا خریدارنام نہادامن وآشتی کا دعویدارہے، جس نے اپنے ملک کے چاروں طرف طویل اوردیوقامت حفاظتی دیواریں اورفصیلیں بنا رکھی ہیں۔غریب، بھوک، افلاس وبیماری کے مارے کمزور ناتواں انسان اور ممالک بے چارے کیاان کی سرحدوں میں دراندازی کر سکیں گے۔یہ ملکہ توان شکارکی تلاش میں محوپروازعقابوں کوحاصل ہے جو جہاں چاہیں حملہ آورہوجائیں اورانسان اورانسانیت کے جسم سے بوٹی بوٹی نوچ لیں۔
ان دہشت گردوں کے اپنے بھی کوئی اصول نہیں ہیں اور شکارکی تلاش میں کبھی خودبھی دست وگریباں ہوتے رہے ہیں ۔1950ء میں برطانیہ، فرانس اور امریکا نے ایک سہ فریقی معاہدہ کیا تھاجس کے تحت مشرق وسطیٰ کی تمام سرحدوں کی سلامتی کی ضمانت اس شرط پردی گئی تھی کہ کوئی فریق جارحیت کا ارتکاب نہیں کرے گامگرحرص و ہوس کے مارے مغرب کوکہاں قرار۔ 6سال ہی اس معاہدے کوگزرے تھے کہ برطانیہ اورفرانس نے نہرسویزپرحملہ کردیا۔ یہ ایک الگ داستان ہے۔ سردست امریکااوراس کے موجودہ اتحادیوں کے تین بنیادی مفادات زیرِقلم ہیں۔ پہلا مفاد یہ ہے کہ خلیج کے ممالک سے جہاں سے دنیاکی 60 فیصدتیل کی ضرورت پوری ہوتی ہے ان کے وسائل پرقبضہ کرکے اس علاقے میں ان کی اجارہ داری قائم ہو۔ (اس دوڑمیں سوویت یونین بھی شامل رہا ہے) واشنگٹن کی پالیسی کے تحت امریکا اسرائیل کی سلامتی کی ضمانت فراہم کرنے کے علاوہ اس کی آزادی اوروجودکواس قدرمضبوط کرناچاہتاہے کہ اسرائیل کے خوف سے عرب ممالک پریشان اوردبے رہیں اوراس کی آڑمیں امریکی پالیسیوں کو عربوں پرمسلط کیاجاتا رہے ،جبکہ دوسری حکمت عملی یہ ہے کہ بعض عرب ریاستیں جن میں سعودی عرب،مصر،اردن اورخلیج کی دیگربادشاہت اورحاکمیت پرمشتمل ریاستوں کے اقدارکے تحفظ اوراسرائیلی خوف سے نجات دلانے کی یقین دہانی پرنام نہاددوستی کے نام پرامریکانے ان کی معیشت اقتصادیات اوردفاعی شعبوں پراپنی اجارہ داری قائم کرلی ہے۔ سلامتی کے خوف میں مبتلا سعودی عرب سمیت دیگرخلیجی ریاستوں میں امریکی فوجیں موجود ہیں۔ایک طرف امریکی فوجوں اورساماں حرب کے اخراجات ان ممالک کوبرداشت کرنے پڑرہے ہیں تودوسری طرف امریکی فوجوں کی ان ریاستوں میں موجودگی اسرائیل کے لیے تحفظ اورسلامتی کا باعث ہیں۔
ایران میں انقلاب کے بعد امریکا اپنے ایک معتمد سے محروم ہوگیا۔ اس تبدیلی کے باعث امریکانے سریع الحرکت فوج تیارکی جس کامقصدخلیج اورساری دنیامیں اپنے مفادات کا تحفظ بذریعہ طاقت کرنا تھا۔ عراق، شام، لبنان امریکی تسلط سے آزاد مگر سوویت یونین کے زیر اثر تھے۔ ایران کوکھونے کے بعدامریکا نے عراق کواپنے حصارمیں لے لیاچونکہ ایران عراق میں سرحدی ودیگر ایشوزپر شدیداوردیرینہ اختلافات اورتنازعات تھے۔ امریکااس کافائدہ اٹھاکرایران کے انقلاب کوناکام بنانے کے لیے دونوں میں تصادم کراناچاہتا تھا اوراسے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہوئی۔8سالہ عراق ایران جنگ نے دونوں ملکوں کوشدیدجانی ومالی نقصانات سے دوچار کیاجبکہ اسلحہ ساز فیکٹریاں رکھنے والے امریکا سمیت دیگرممالک نے ان دونوں ممالک کو83بلین ڈالرکااسلحہ فروخت کیا۔
ایران کوبھی سرحدی تنازعات اور دیگر دعووں کی تکمیل کی صورت صدامی اقتدارکے خاتمے میں نظر آئی۔ جنگ کی بساط بچھائی گئی۔ خلیج کی ریاستوں کوعدم تعاون کاسگنل دیا گیا، خلیج سے باہراسلامی ملکوں کوجنگ میں شرکت کی دعوت دی گئی یا غیرجانب داررہنے کو کہاگیا۔ مغربی اتحادیوں کے ہاں جنگ کاطبل بجایا گیا۔ ریہرسل شروع کردی گئی۔ خلیجی ریاستوں کو اپنے تحفظ کے نام پراسلحہ خریدنے کاحکم دیاگیا۔اس خلیجی جنگ کی وجہ سے امریکی دفاعی صنعتوں کوتقریبا210بلین ڈالرصرف خلیجی ممالک کی طرف سے ملے تھے جس میں سعودی عرب نے تقریبا60بلین ڈالرکااسلحہ امریکاسے خریدا۔
امریکی ایماپراسرائیل عراق سے چھیڑ چھاڑاورفلسطینیوں پرمظالم کی رفتار بڑھاچکاتھا۔ماسوائے دوتین ممالک کے تمام خلیجی ریاستیں عراق کے خلاف امریکاکے پہلومیں کھڑی تھیں۔ امریکی ایماپرکردوں کی تحریک میں تیزی آچکی تھی۔ امریکی خفیہ ایجنسیاں اور ادارے فرقہ وارانہ صوبائیت لسانیت اورعلاقائیت کے سوئے ہوئے فتنے کوجگانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ روز بہ روز پکنے والا لاوا تب سامنے آیا جب امریکا، جو عراق پر ایٹمی وکیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا الزام لگا کر (جو برآمد نہ کرسکا، جس پرٹونی بلیئرنے معافی مانگ کراپنی غلطی کااعتراف بھی کرلیا ہے) اپنی پوری قوت اورطاقت کے ساتھ عراق پرحملہ آور ہوا اورعراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ پوراعراق آگ وخون میں نہلادیا گیا۔ ہزاروں عراقی بلاامتیازبوڑھے، جوان بچے خواتین بے رحمی سے شہید کردیے گئے۔ مقدس مقامات کونشانہ بنایا گیا۔ مظالم کے ایسے خوفناک پہاڑتوڑے گئے کہ ساری دنیانے ابوغارب جیل میں مسلمانوں کی غیرت کے جنازے نکلتے دیکھے۔
امریکا کو لتاڑنے پر صدام حسین کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ تین دہائیوں کے بعدمصرمیں منتخب حکومت نے اپنی خودمختاری کاجونہی احساس دلایا، فوری طور پر اس کا دھڑن تختہ کرکے اپنا نمائندہ سامنے لے آئے۔ اب ایران کے جہاں سرحدی تنازعات ختم ہوچکے ہیں، وہاں امریکااورمغرب کے ساتھ ایٹمی پروگرام پربھی اس کی مفاہمت ہونے جارہی ہے۔ خلیجی ریاستوں کے بادشاہوں اورحکمرانوں کے اقتدارکواس وقت تک کوئی خطرہ نہیں جب تک وہ امریکااورمغرب کے تابعدارہیں۔ البتہ یمن کے مسئلے پرایران اورعرب ممالک میں مستقل مخاصمت برقرار رکھی جائے گی۔ اب دیکھنایہ ہے کہ امریکا اوراس کے اتحادی کسے اپنا اگلا ہدف بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
OOOOOO