لداخ صورتحال پر ایک بار پھر چین بھارت کشیدگی

330

گزشتہ سال بھارت اورچین کے درمیان سرحدپرچاردہائیوں کی سب سے خونی جھڑپیں ہوئیں۔ رواں برس کے آغازمیں دونوں ممالک نے لداخ کے علاقے سے فوجیں پیچھے ہٹانے پراتفاق کیا۔ اس معاہدے سے مسلح تصاد م کافوری خطرہ کم ہوگیالیکن تناؤ برقرار رہا اور حالیہ دنوں میں آنے والے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت تنازع پھرسراٹھاسکتاہے۔
بھارتی فوج کے سربراہ نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ لداخ کے سرحدی علاقوں میں چینی فوج کی تعیناتی کا سلسلہ بھارت کے لیے تشویش کی بات ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ بھارت اس وقت کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے بھی کافی تیار ہے۔ بھارتی فوج کے سربراہ جنرل منوج مکند نروانے نے خطہ لداخ کے2روزہ دورے کے بعد ہفتے کے روز بھارتی میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ چین نے لداخ کے کئی متنازع سرحدی علاقوں میں اپنی فوج کی تعداد اور ان کی تعیناتی میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے جو بھارت کے لیے ایک تشویش کی بات ہے۔ چین نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارت ’’فارورڈ پالیسی‘‘ پر عمل پیرا ہے اور سرحد پر کشیدگی کی اہم وجہ یہ ہے کہ وہ غیر قانونی طریقے سے چین کے علاقوں پر قبضہ کر رہا ہے۔بھارت نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ دوطرفہ کشیدگی کی وجہ باہمی سرحد پر فوجوں کی تعیناتی ہے۔
بھارتی فوجی سربراہ جنرل مکند منوج نروانے نے ایک بھارتی خبر رساں ادارے سے بات چیت میں کہا کہ چینیوں کو ہماری مشرقی کمان تک پورے مشرقی لداخ اور شمالی محاذ پر کافی بڑی تعداد میں تعینات کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں ایسا نہیں لگتا کہ اس علاقے میں کسی جارحیت کا مظاہرہ کیا جائے گا، مگر پھر بھی ہم ان کی جانب سے ہونے والی تمام پیشرفت کی نگرانی کر رہے ہیں۔ موسم کی بنیاد پر ہمیں جو بھی اِن پُٹ ملتا ہے، اس کے مطابق ہم اس سے مقابلے کا انفراسٹرکچر بھی تیار کر رہے ہیں۔ اس وقت ہم کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے بھی پوری طرح سے تیار ہیں۔ بھارتی فوجی سربراہ کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ سرحدی اختلافات مسلسل مذاکرات سے حل کیے جا سکتے ہیں۔ ا ن کا مزید کہنا تھا کہ میری پختہ رائے یہ ہے کہ ہم اپنے اختلافات بات چیت کے ذریعے حل کر سکتے ہیں۔
اس سے قبل جیساکہ بھارتی وزیرخارجہ سبرامنیم جے شنکر نے 2020ء میں چین اوربھارت کے تعلقات کوانتہائی پریشان کن قراردیا تھا۔ 2015ء میں ہنگامی منصوبہ بندی میمورنڈم (سی پی ایم) نے امریکی سیکورٹی مفادات کے حوالے سے چین اوربھارت کے درمیان فوجی تصادم کے خطرے کواجاگرکیاتھا۔یہ خطرہ ابھی تک باقی ہے اوراس پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔
2015ء میں سی پی ایم نے اندازہ لگایاکہ چین اوربھارت کے تعلقات کافی حد تک مستحکم ہیں اوردونوں کے درمیان بظاہرفوجی تصادم کا امکان نہیں ہے۔دونوں فریقوں نے تجارت اورسرمایہ کاری کے بڑھتے تعلقات پرسرحدی تنازع کاکوئی اثرپڑنے نہیں دیااورسرحدی معاملات کوبروقت بہتراندازمیں حل کرلیااس کے باوجودسی پی ایم مضطرب ہے کہ غیرحل شدہ تنازعات بیجنگ اورنئی دہلی کے درمیان قائم امن کے لیے گھمبیرچیلنج بن سکتے ہیں۔ کسی بھی ایک جگہ تنازع کے نتیجے میں دونوں ممالک کے سیاسی اوراسٹریٹجک مفادات داؤ پر لگے ہیں اورپھربحران کے دوران انٹیلی جنس اکٹھاکرنا، فیصلہ سازی کرنااورتشددسے بچنے کے لیے اقدامات کرناانتہائی پیچیدہ ہوجائے گا۔ گزشتہ18برس سے دونوں ممالک کے درمیان سرحدوں پرغیرمسلح جھڑپیں، جارحانہ گشت اوراشتعال انگیزفوجی تعمیرات کاسلسلہ جاری تھا،جس کے نتیجے میں2020ء میں چین اوربھارت میں خونی تصادم کی فضامکمل طورپر ساز گار ہوچکی تھی۔2019ء کی ابتدامیں بھارت اورپاکستان تعلقات میں کشیدگی کااثربھی بیجنگ اورنئی دہلی تعلقات پرپڑاکیونکہ پاکستان چین کاقریب ترین شراکت دارہے۔
اگست2019ء میں بھارت کی جانب سے جموں وکشمیرکی آئینی حیثیت کی اچانک تبدیلی نے چین اورپاکستان کے ساتھ علاقائی تناکوبڑھاوا دیاتھا۔جس کے نتیجے میں بھارت کی دفاعی ضروریات میں اضافہ ہوگیا۔2020ء میں کوروناوائرس کی وبائی بیماری نے بھارتی معیشت کو سخت نقصان پہنچایااوررہی سہی کسرپچھلے چندماہ نے نکال دی ہے جوابھی جاری ہے جس کی وجہ سے باہمی تصادم میں اضافہ ہوااور چین بھارت تجارتی اورسفارتی تعلقات کے مستقبل پرسوالات اٹھنے لگے۔ مستقبل میں چین اوربھارت کے درمیان تناؤبرقرار رہنے بلکہ تنازع مزیدبڑھنے کاامکان زیادہ ہے۔ اپنی زمینی سرحدوں پردونوں ممالک فوجی حکمت عملی کے تحت ایک دوسرے پربرتری حاصل کرنے کی کوشش جاری رکھیں گے اور پچھلے ناکام معاہدے اورکشیدگی کم کرنے کے موجودہ معاہدے پرعمل پیرارہیں گے۔چین اور بھارت کے فوجی عزائم میں کمی آنے کاکوئی امکان نہیں جودونوں ملکوں کی مسلح افواج کو تصادم کے قریب لے جائے گا۔ 2020ء میں شدیدکشیدگی کے دوران شمالی بھارت کی سرحد پردونوں جانب سے ہزاروں فوجیوں کوتعینات کیاگیاتھا۔بھارت نے رواں برس کے آغاز میں چینی خطرے کے پیش نظرپاکستانی سرحدپرتعینات اسٹرائیک کورکی تنظیم نوکے منصوبے کااعلان کیاہے۔اس سے چین کے حوالے سے بھارت کے مستقبل کے رویے کا پتا چلتاہے۔ رواں برس کے آغازمیں پاکستان اوربھارت نے ایل اوسی پرجنگ بندی کااعلان بھی کیا، لیکن اس کے باوجودنئی دہلی چین اورپاکستان کے درمیان اسٹریٹجک شراکت کے پیش نظرمحتاط رہے گا۔ گزشتہ برس پاکستان اوربھارت کے درمیان2020ء کے بعدایل اوسی پرشدیدترین شیلنگ کاتبادلہ ہوا۔دونوں جانب سے اعلیٰ فوجی افسران کے مفاہمتی بیانات کے بعدجنگ بندی عمل میں آئی لیکن مستقبل میں پاکستان اوربھارت کے درمیان کسی تنازع کے نتیجے میں اس میں چین کے ملوث ہونے کابہت زیادہ امکان موجودہے۔
بھارت کی جانب سے1971ء کے بعد پہلی بارسرحدپارحملے کیے گئے، بھارتی پائلٹ کی گرفتاری پراعلیٰ بھارتی اہلکارنے ایٹمی صلاحیت کے حامل میزائل استعمال کرنے کی دھمکی دی لیکن پاکستان کی جانب سے علانیہ منہ توڑجوابی فضائی حملے نے نہ صرف بھارت بلکہ دنیاکواہم پیغام پہنچادیا۔اگرچہ دونوں ممالک نے کسی طرح اس کشیدگی پرقابوپالیالیکن اس واقعہ سے واضح ہوگیاکہ مستقبل میں کسی تنازع کے نتیجے میں دونوں جانب سے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مزید طاقت کے استعمال کاخطرہ بڑھاہے۔
حالیہ برسوں میں چین اورپاکستان کے بڑھتے اسٹریٹجک تعلقات کے پیش نظرمستقبل میں دہلی اوراسلام آبادکے تنازع میں بیجنگ کی شمولیت کاامکان ہے۔ بیجنگ نے2019ء کے بحران میں بھارت کی اشتعال انگیزی کی مذمت کرتے ہوئے اسلام آبادکامؤقف تسلیم کر لیاکہ بھارت کومستقبل کی جارحیت سے روکنے کے لیے موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ مزیدیہ کہ پاکستان کی طرح چین بھی بھارتی کشمیر کے کچھ حصوں پردعوی ٰکرتاہے اوراسی لیے اگست2019ء میں کشمیرکی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی اقدام پرتنقیدکر چکاہے۔اگربھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات بہترکرنے کی
کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں، جیسے ماضی میں ہوتی رہی ہیں توایک اور بحران چین اورپاکستان کوبیک وقت بھارت کے خلاف کھڑاکرسکتا ہے۔ بحران کی پیچیدگی میں مزیداضافہ کرتے ہوئے چین اوربھارت نے 2020ء میں سرحدی کشیدگی کودوطرفہ تعلقات کے دیگرشعبوں تک بڑھادیا۔اس اقدام کامقصداپنے عزائم کااظہارتھا۔
بھارت نے جون2020ء میں جنوبی بحیرہ چین میں جنگی جہازتعینات کیے، جس پرچین کی جانب سے فوری اعتراض کیاگیا،اس کے ساتھ بھارت نے وی چیٹ اورٹک ٹاک جیسی چینی ایپلی کیشنزپرپابندی لگائی اورچینی کمپنیوں کی بھارت میں حساس منصوبوں میں شرکت کو محدودکردیا، جس کے جواب میں مبینہ چینی ہیکروں نے اکتوبر2020ء میں ممبئی کے الیکٹریسٹی نظام پرسائبرحملہ کرکے شہرمیں بلیک آؤٹ کر کے یہ پیغام دیاکہ بھارت کوکبھی بھی مفلوج کیاجاسکتاہے۔اگرچہ دونوں جانب سے اس طرح کے اقدام کامقصدمزیدسرحدی فوجی تصادم سے بچناتھالیکن اس سے پتالگتاہے کہ مستقبل کے بحران کے دوران دونوں ممالک کے درمیان دیگرشعبوں میں بھی کشیدگی میں اضافہ ہوسکتاہے،یعنی دونوں جانب سے تحمل کے مظاہرے کاامکان کم ہے۔ مثال کے طورپرمستقبل میں بھار ت کی حساس تنصیبات پرچینی سائبرحملہ بھارتی رہنماؤں پرشدید عوامی دباؤڈالے گالیکن یہ اندازہ لگانامشکل ہے کہ مستقبل میں دونوں ممالک کشیدگی میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں یاامن کوترجیح دیں گے۔اسی طرح اگربھارت چینی تجارت اورسرمایہ کاری میں نئی رکاوٹیں کھڑی کرتاہے توچین اس کاسخت جواب دے سکتاہے،جیسے بھارت کی دواؤں کی صنعت کواہم خام مال کی فراہمی روکنا۔ 2015ء میں سی پی ایم نے چین اوربھارت کے درمیان دیگرتنازعات کی نشاندہی کی،جوکسی سرحدی تنازع کے ساتھ ہی بیک وقت بھڑک سکتے ہیں۔