نئی سردجنگ ممکنہ خوفناک نتائج

285

چین اورروس بہت تیزی سے اُبھرکرایک بڑے خطرے کی شکل اختیارکرتے جارہے ہیں۔ مغرب کی جمہوریتوں کویہ فکرلاحق ہے کہ ان دونوں ممالک کوایک خاص جگہ تک محدود کرنے میں کیسے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مغرب کی الجھن بڑھتی ہی جارہی ہے۔ چین اورروس جیسے ممالک سے نپٹنے کے لیے بہترین حکمتِ عملی کیاہوسکتی ہے؟ انہیں چیلنج کرنا، ان سے ٹکرانا، انہیں ایک خاص حدتک رکھنے کی کوشش کرنا؟ کیا صرف معاشی معاملات میں کوئی بڑاقدم اٹھاکران دونوں طاقتوں کودبایاجاسکتاہے، اپنی مرضی کے حجم کاحامل بنایاجاسکتاہے؟ اس وقت چین اورروس جوکچھ کررہے ہیں،کیاویساہی کچھ کرکے ان سے بہترطور پرنمٹاجاسکتا ہے؟ یہ تمام سوالات غورطلب ہیں کیونکہ اِن کے درست جواب کی شکل ہی میں مغرب کے لیے اپنی طاقت کوبرقراررکھنے کی کوئی راہ مل سکتی ہے، جس کے لیے ان دنوں وہ سرتوڑکوششوں میں مصروف ہیں اوروہ اس بات سے واقف ہیں کہ کورونانے جہاں ساری دنیا کی معیشت کو متاثر کیا ہے، روس اورچین نے بروقت اس کاتدارک کرکے اپنی معیشت کومحفوظ رکھاہے بلکہ چین نے اس وباکے دفاعی نظام میں اپنے کاروبار کو خوب ترقی دی ہے۔
امریکا، یورپی یونین اور برطانیہ نے چین کودبوچنے کی کوشش میں جوتجارتی پابندیاں عائدکی تھیں انہیں چینی قیادت نے بیک جنبشِ قلم مسترد کردیا ہے۔ برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن چین کے معاملے میں کچھ زیادہ جذباتی دکھائی دیتے ہیں۔ چینی قیادت بھی محسوس کرتی ہے کہ اگروہ مطلوب حدتک جذباتی نہ ہوئی اورکسی بھی اقدام کافوری جواب نہ دیاتو اس کے لیے آگے بڑھناانتہائی دشوارہوجائے گا۔ یہی سبب ہے کہ کسی بھی مغربی اقدام کافوری جواب دینے میں تساہل کامظاہرہ کیاجارہاہے نہ بخل کا۔ چین کے صوبے سنکیانگ کے مسلمانوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام میں اب تک کمیونسٹ پارٹی کے چار نچلے درجے کے عہدیداروں کونامزدکرکے انہیں مغربی دنیاکے دوروں سے روکاگیا تھا اورمغرب میں اثاثے رکھنے پربھی پابندی عائدکی گئی تھی۔اس کے جواب میں چین نے بھی مغربی دنیاکے قانون سازوں کواپنے ہاں آنے سے روک دیا تھا۔ان اقدامات کے جواب میں فرانس میں چینی سفیر کو احتجاجاً دفتر خارجہ طلب کیا گیا تھا تاکہ ان سے مختلف امورپروضاحت طلب کی جاسکے۔
جوکچھ چین اورمغربی دنیاکے درمیان ہورہاہے اس سے چین اوریورپی یونین کے درمیان سرمایہ کاری کے معاہدے کی یورپی یونین اور یورپی ممالک سے الگ الگ باضابطہ توثیق کے امکانات محدود ہوتے جارہے ہیں۔ 2020ء کے آخرتک اس معاہدے کوفریقین کے لیے غیر معمولی کامیابی قراردیاجارہاتھامگراب معاملہ بگڑ چکا ہے۔ چین نے اب تک یورپی ممالک کے حوالے سے جواقدامات کیے ہیں وہ کارگرثابت ہوئے ہیں کیونکہ برطانیہ،فرانس اورجرمنی کومحسوس ہواہے کہ انہیں خطرناک حالات وواقعات کاسامناہوسکتا ہے۔ دوسری طرف امریکانے اب تک یہی ثابت کیاہے کہ وہ چین کے معاملے میں واضح اپروچ اپنانا چاہتا ہے۔ امریکی صدرجوبائیڈن چین اورروس دونوں کے حوالے سے کوئی بھی بات چھپ کراوردب کرنہیں کررہے ہیں۔ انہوں نے ٹی وی پرروسی صدرپیوٹن کوقاتل کہا اور صدارتی مہم کے ایک مباحثے میں انہوں نے چینی صدرشی جن پنگ کودھوکے بازبھی قراردیاتھااورحال ہی میں چین کویہ کہہ کرمتنبہ کیاہے کہ ’’امریکاچین کومکمل عالمی معاشی کیک کھانے کی اجازت ہرگزنہیں دے گا‘‘ جس کے جواب میں چین نے ہمیشہ کی طرح مکمل خاموشی اختیارکررکھی ہے اوراپنی پالیسیوں پرگامزن ہے۔
امریکی خارجہ پالیسی کی تشکیل کے حوالے سے سوچنے والوں کے پلیٹ فارم دی اٹلانٹک کونسل نے کہاہے کہ اگرامریکاکی قیادت میں فعال مغربی لبرل نظام کے تحت کام کرناہے تو چین کو اپنی قیادت میں تبدیلی لاناہوگی۔ دی اٹلانٹک کونسل کے تحت شائع کیے جانے والے دی لانگرٹیلی گرام کے مصنف کانام منظرِعام پرنہیں لایاگیا ہے۔ اس میں امریکی قیادت سے کہاگیاہے کہ اگرچین اورروس سے بہترطورپرنپٹناہے توجاپان،آسٹریلیااوربھارت سے تعلقات کووسعت دیناہوگی۔ساتھ ہی اس بات پر بھی زوردیاگیا ہے کہ جاپان اورجنوبی کوریاکے درمیان اختلافات گھٹانے اورتعلقات خوشگواربنانے پربھی توجہ دی جانی چاہیے تاکہ یہ دونوں ممالک مل کرمغربی دنیاکاعمومی طورپر اور واشنگٹن کاخصوصی طورپرساتھ دیں۔ علاوہ ازیں’’دی اٹلانٹک کونسل‘‘ کے اِسی مضمون میں امریکاپربھی زوردیاگیاہے کہ وہ روس سے معاملات درست کرنے پرتوجہ دے۔ یہ سب کچھ اصلاًاس لیے ہے کہ چین اور روس میں حکومت ہی نہیں بلکہ حکومتی نظام کوبھی تبدیل کردیاجائے۔ یہ جنگ کے باضابطہ اعلان سے کچھ زیادہ دورکامعاملہ نہیں کیونکہ گھیرا تو تنگ کیا ہی جارہا ہے۔ یادرہے کہ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں روس کے دودرجن سے زائدسفارتی افرادکوامریکابدرکیاگیاتھااورامریکاکے اتحادیوں برطانیہ، فرانس اورچنددیگرممالک نے بھی روسی ڈپلومیٹ کوملک سے نکال کرامریکاویورپ کے ساتھ اپنی یکجہتی کااظہارکیاتھا۔
یورپ کے لیے الجھنیں ہی الجھنیں ہیں۔ برطانیہ،فرانس،جرمنی اوردیگریورپی طاقتیں مخمصے کاشکارہیں۔حقیقت یہ ہے کہ چین اب ان کے لیے امریکاسے بڑی منڈی ہے۔ اکیسویں صدی میں جرمنی کے دو چانسلر گیر ہارڈ شروڈر اور انجیلا مرکل نے جمہوریت کوفروغ دینے کے لبرل نظام کے بڑے آئیڈیل کوچین اورروس کے لیے برآمدات بڑھانے کے آئیڈیل پر قربان کردیاہے۔پولینڈکے سابق وزیرخارجہ اورسابق وزیردفاع رادیک سکورسکی نے، جو اب پارلیمان کے رکن ہیں، حال ہی میں ایک مقالہ شائع کیاہے، جس میں اس بات پرزوردیاگیاہے کہ یورپی یونین کوچین کی جانب سے چلائی جانے والی غلط بیانی کی مہم اورمسلط کیے جانے والے بیانیوں کے خلاف شدیدمزاحمت کرنی چاہیے۔ رادیک سکورسکی کاشماریورپ کے ان قانون سازوں میں ہوتاہے جوخارجہ پالیسی اورچین سے تعلقات کے حوالے سے غیرمعمولی بے باکی پرمبنی خیالات کے حامل ہیں۔ ان کایہ بھی کہناہے کہ یورپی یونین کے کمیشن نے 2019ء میں چین کومختلف معاشی مفادات کاحامل ملک ہونے کے باوجودایک ممکنہ اچھاشراکت دارقراردینے سے متعلق جومؤقف اپنایاتھاوہ اب فرسودہ ہوچکاہے اورچین کو ایک کٹر حریف کے طورپرہی لیناچاہیے۔
مغربی طاقتیں چین کی پالیسی میں رونماہونے والی تبدیلیوں پرگہری نظررکھے ہوئے ہیں۔ ان کے خیال میں چین دھیرے دھیرے اپنی پالیسیوں میں ایسی تبدیلیاں لارہاہے جنہیں مغرب وامریکاکسی بھی طوربھی قبول کرنے کے لیے تیارنہیں۔ وہ کسی بھی معاملے میں پیچھے ہٹنے کوتیارنہیں۔ان کی بھرپورکوشش ہے کہ کسی نہ کسی طورمعاشی معاملات میں زیادہ سے زیادہ مفادات یقینی بنانے کی راہ اپنائی جائے۔ وہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے یورپ اورامریکاکی تنقیدکواب لائقِ توجہ نہیں سمجھتا۔ہانگ کانگ اورتائیوان کے حوالے سے اس نے جوروّیہ اختیارکیاہے اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ وہ اب کسی بھی سطح پرباضابطہ لڑائی کاچیلنج قبول کرنے کے لیے بھی تیارہے۔
بہت سے ممالک میں میگنٹسکی قوانین کا اب چینی باشندوں پر اطلاق ہوتا ہے۔ ان قوانین کابنیادی مقصدیہ ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اوردیگرجرائم کی بنیادپرچین اورروس کی ناپسندیدہ شخصیات کومغربی ممالک میں داخل ہونے سے روکاجائے۔ ان قوانین ہی کی مددسے روسی صدرپیوٹن کے ایسے ایجنٹس کی امریکامیں آمدروکی گئی،جواہم شخصیات پرقاتلانہ حملے کرناچاہتے تھے لیکن یہ ابھی محض الزام ہی ہے اوراس کاکوئی ثبوت بھی سامنے نہیں آسکا۔یہی معاملہ برطانیہ کابھی تھا۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے مغربی یونین کاکچھ بھلاہوگایاچین کوکچھ نقصان پہنچ سکے گا۔ اب تک تویہی ثابت ہوا ہے کہ ایسے اقدامات محض نمائشی نوعیت کے ہیں۔ سنکیانگ میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام کی بنیادپرچینی کمیونسٹ پارٹی کے جن چارنچلے درجے کے عہدیداروں پرپابندیاں عائد کی گئی ہیں ان کے مغرب میں اثاثے ہیں نہ وہ مغربی اداروں سے کسی طرح کاکاروباری لین دین کرتے ہیں۔دوسری طرف برطانوی وزیراعظم نے سنکیانگ کے کمیونسٹ پارٹی چیف چین کوانگو کے خلاف پابندیاں عائدکرنے سے گریزکیاہے جبکہ امریکاچاہتاہے کہ چین کوانگو کے خلاف اقدامات کیے جائیں۔
چین اورروس نے سیاست کے حوالے سے اب تک چھاپا ماروں کاسااندازاپنایاہے۔ اب مغربی دنیامیں یہی اندازاپنانے کی بات کی جارہی ہے۔ گویایہ لڑائی میڈیاکے محاذ پر لڑی جائے گی۔ امریکا اور یورپ میں یہ خواہش تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے کہ ایسے ماہرین تیارکیے جائیں جوسوشل میڈیا پرچین اورروس کے ناپسندیدہ سیاستدانوں کے خلاف زیادہ سے زیادہ موادپیش کریں اوراِس مواد کے لیے روسیوں اورچینیوں کوحتمی منزل بنایاجائے۔ مغربی میڈیاکے بعض بااثرافرادکی طرف سے محاذپرلڑائی تیزکرنے کی تجویزکوسراہا جارہا ہے۔ امریکااورروس کے درمیان یہ لڑائی کچھ مدت سے جاری ہے مگراس میں وہ تیزی نہیں آئی جس کے بارے میں وہ سوچ رہے تھے۔
مغرب میں چینی صدرشی جن پنگ کے خلاف میڈیامہم چلانے کی بات بھی اب زوردے کرکہی جارہی ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ شی جن پنگ نے خالص آمرانہ اندازاختیارکرکے اپنے ہاں جمہوریت کے پنپنے کی راہ بالکل مسدودکردی ہے۔امریکااوریورپ چاہتے ہیں کہ چین میں بھی لبرل ڈیموکریسی کوپروان چڑھنے کاموقع دیاجائے۔شی جن پنگ نے غیر معمولی آمرانہ اندازکے ساتھ معاملات کوچلایاہے۔ایسے میں لازم ہوگیاہے کہ ان کے خلاف بھی سوشل میڈیاپرطاقتوراوروسیع البنیادمہم چلائی جائے۔
اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیایورپی یونین اوربرطانیہ کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ چین اورروس کے خلاف میڈیاپرکوئی طاقتورمہم چلا سکیں۔اب تک کے تجربے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ان دونوں کے پاس معاملات کوبگڑتاہوادیکھ کربے بسی سے ہاتھ ملنے کے سواکوئی راستہ نہیں بچا۔ اس کابنیادی سبب یہ ہے کہ جرمنی کوساتھ ملائے بغیرڈھنگ سے کچھ بھی کرنا ممکن نہیں ہوپارہا۔ جرمنی کامعاملہ یہ ہے کہ اس کی تمام اسٹیبلشمنٹ پارٹیزچاہتی ہیں کہ فی الحال چین اورروس کے معاملے میں احتیاط برتی جائے اور کوئی بھی ایساقدم اٹھانے سے گریزکیاجائے جوبراہِ راست تصادم کی طرف لے جاتاہو۔اس کامطلب یہ ہے کہ یورپی یونین اوربرطانیہ کوفی الحال جرمنی سے روس اورچین کے خلاف کچھ خاص مددنہیں مل سکتی۔ برطانیہ اورباقی یورپ کی طرح جرمنی کوبھی اپنے معاشی مفادات عزیزہیں۔وہ چین کے خلاف ایساکچھ بھی نہیں کرناچاہتاجس سے برآمدات متاثرہوں اورسرمایہ کاری کاگراف گرے۔ فرانس کوپہلے ہی مسلم ممالک کی طرف سے بائیکاٹ مہم نے خاصاپریشان کررکھاہے اوراس کی اکانومی کاگراف تیزی سے روبہ زوال ہے۔ اس وقت جرمن قیادت کی کوشش ہے کہ معاشی معاملات کوسیاست کی چوکھٹ پرقربان نہ کیاجائے۔سیاسی نظام کے آئیڈیلزکومضبوط تربنانے کے نام پرمعاشی معاملات کوبربادی کی طرف دھکیلنے کی کوئی بھی کوشش جرمن قیادت کوگوارانہیں۔
امریکی پالیسی سازامریکااور یورپ کوبارہایہ مشورہ دے چکے ہیں کہ اس وقت چین اورروس کے خلاف جوکچھ بھی کرناہے اس میں دانش مندی کادامن بھی تھامے رہنابڑاضروری ہے۔ محض جذباتیت کے ریلے میں بہہ کرکچھ کرنے سے ایسی خرابیاں پیداہوسکتی ہیں جن پرقابوپاناپھرکسی کے بس میں نہ ہوگااورروس اورچین کاموجودہ عمل اورپالیسیاں مغرب اورامریکاکواکسارہی ہیں کہ ان سے یہ فاش معاشی غلطیاں سرزد ہوں تاکہ ان کے ردِ عمل میں روس اورچین کھل کرمعاشی میدان عمل میں آکراپنا آخری وارکریں۔