مغربی ممالک میں پروپیگنڈے کے باوجود پھیلتا اسلام

367

کینیڈا میں 2 ماہ قبل ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت 20سالہ نوجوان یہودی نے انتہائی سفاکی کے ساتھ پاکستانی نژادمسلمان خاندان کے 4 افرادکوسڑک پرکچل کررکھ دیا۔ اس بہیمانہ قتل نے ایک بارپھرسے اسلاموفوبیاپربحث چھیڑدی ہے اوربیشترمیڈیاکادعویٰ ہے کہ11 ستمبرکے حملوں کواگرچہ دودہائیاں بیت چکی ہیں لیکن صحیح معنوں میں مغربی معاشروں میں اسلامو فوبیااب بھی عروج پرہے۔اس سلسلے میں کینیڈاکے وزیراعظم اوردیگر حکومتی اہلکاروں کافوری ردِ عمل بھی سامنے آیا اور انہوں نے اس واقعے کو دہشت گردی قرار دیا۔ واقعے کے فوری بعدمغربی میڈیا میں اسلاموفوبیاکاایک مرتبہ پھرذکربڑے زورشور سے شروع ہوگیاہے۔ انگریزی لفظ اسلاموفوبیاآخرہے کیا؟اس لفظ کی تخلیق خاص وجہ سے کی گئی ہے۔ دنیابھرمیں نوجوان جس تیزی سے بڑی تعداد میں دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں اس سے مغرب خودخوفزدہ ہے کیونکہ اگراسلام اسی طرح تیزی سے پھیلتارہاتو2030ء تک دنیامیں عیسائیت سے زیادہ مسلمان ہوں گے۔ اپنے خوف کو دُورکرنے اور نوجوان نسل کواسلام سے دوررکھنے کے لیے مغرب نے اسلاموفوبیاپیداکیاجس کے لفظی معنی اسلام کاخوف یا ڈر ہے۔ انگریزی زبان میں مستعمل یہ لفظ دنیاکی بیشترزبانوں میں اسلام سے خوف ودہشت کے معنی میں استعمال کیاجاتاہے۔مسلمانوں کے خلاف اس لفظ کی ایجاد 1987ء میں ہوئی۔
1997میں اس اصطلاح کی تعریف برطانوی رنی میڈ ٹرسٹ نے ’’اسلاموفوبیا:اے چیلنج فاراَس آل‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک رپورٹ جاری کی ہے کہ ’’اسلاموفوبیاسے مراد اسلام سے بے پناہ خوف، ایک ایسا ڈرجو لوگوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت کوجنم دیتاہے۔مغرب کے تخلیق شدہ اس ناجائزلفظ کی آڑلے کردنیا بھرمیں مذہب اسلام کو بدنام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کی جارہی ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک، تشدداورقتل کیاجارہاہے۔مسلمانوں کو جسمانی وروحانی اذیت دی جا رہی ہے،کبھی گستاخانہ خاکے بنائے جاتے ہیں توکبھی قرآن پاک کی بے حرمتی کی جاتی ہے توکبھی مسلم عبادت گاہوں کو شہیدکردیا جاتاہے۔اسی اسلاموفوبیا کے نام پرمودی کے دورمیں انڈیامیں ریاستی سرپرستی میں اسلام مخالف سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔عام فہم زبان میں ’’اسلامو فوبیا‘‘کامطلب مذہبِ اسلام یامسلمانوں کے خلاف ان کے عقائد کی بنیاد پرنفرت،تعصب یا خوفزدہ کرنے کارویہ ہے‘‘۔
رواں سال فروری میں فرانس کے تاریخی شہر اسٹراس برگ میں زیرِتعمیرمسجدحضرت ابوایوب انصاریؓ کے ڈھانچے پرایک اسلام مخالف اورنسل پرستانہ حملے میں’’اپنے گاؤں واپس جاؤ‘‘کے نعرے لکھے گئے۔ یہ مسجدمکمل ہونے پریورپ کی سب سے بڑی عبادت گاہ ہوگی۔ اسٹراس برگ دنیا کے چندایسے شہروں میں سے ایک ہے، جہاں یورپی یونین،یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس اوراقوام متحدہ کے علاوہ کئی بین الاقوامی اداروں کے اہم دفاتر قائم ہیں۔ اسلامو فوبیاکے اسی حملے سے دورِحاضرمیں فرانس میں رائج اسلام مخالف ماحول کا اندازہ لگایاجا سکتاہے۔ مسجدکی انتظامیہ کو کئی باردھمکیاں دی گئیں مگرپولیس نے ابھی تک ان کے تحفظ کے لیے کوئی کاروائی نہیں کی۔ یہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کومذہب یارنگ یادونوں کی بنیاد پرمسلسل تفریق و تنقیداورظلم و جارحیت کانشانہ بنایاجاتاہے۔ حال ہی میں فرانسیسی صدر عمانویل ماکروں نےاسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس قدرشرانگیزمہم جاری رکھی کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے ادارے بھی آوازاٹھانے لگے ہیں۔ گزشتہ سال جاری ہونے والی ایمنسٹی کی ایک رپورٹ کے
مطابق فرانسیسی حکومت مسلمانوں کے بنیادی عقیدے مثلاً روزے اورنمازکو بھی شدت پسندی کی علامات میں شمارکرتی ہے۔ ماکروں سے شہ پاکرحکومت کے دیگر عہدیدار بھی اسلام کونشانہ بنارہے ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف تعصب اور سرکاری تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہاہے۔گزشتہ سال جنوری سے اب تک 100 کے قریب مساجداوراسلامی اسکولوں کوبندکردیا گیاہے۔ سیکڑوں مسلمان طلبہ جن میں دس سال کی عمرکے بچے بھی شامل ہیں کوپولیس نے شدت پسندی کے الزام میں پکڑا۔ ایمنسٹی کے مطابق سرکاری سطح پرلگائے جانے والے بنیادپرستی کے الزامات عموماً مذہب کی پیروی کرنے والے مسلمانوں پرلگائے جاتے ہیں۔ اسلاموفوبیاکی تاریخ سے پورایورپ بھراپڑاہے جس کونائن الیون کے بعد جواز بناکرپھرسے سرکاری سرپرستی میں زندہ کیا گیا۔ پھربظاہرآزادمیڈیاکے ذریعے اس کواس قدر عام کردیا گیا کہ عام افراد کے لیے مسلمانوں کے خلاف ردعمل بظاہرایک قدرتی فعل تصورہونے لگاہے۔اس کے نتیجے میں جمہوری حکومتوں اور پارٹیوں کے لیے اسلام اورمسلمان مخالف جذبات اوراحساسات کی ترویج واشاعت ایک نفع بخش کاروباربن گیاہے جس کے ذریعے وہ لوگوں کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔فرانسیسی صدر ماکروں کے کچھ ناقدین کے مطابق اسلام کے خلاف ان کا زہریلا پروپیگنڈا دراصل ان کی جانب سے اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت کوبحال کرنے کاایک سستاطریقہ ہے۔
حال ہی میں چند ماہ قبل ہونے والے ایک واقعے میں اسلام مخالف شدت پسندوں نے اسپین کے مرسیہ علاقے کے گاؤں سان یاویرمیں مسجد پرحملہ کرکے اسے آگ لگانے کی کوشش کی گئی تاہم مقامی لوگوں اورپولیس کی بروقت کارروائی سے نقصان بہت کم ہوا۔اگرچہ حملہ آوروں نے مسجد کی دیواروں پر اسلام مخالف نعرے لکھے مگرمقامی لوگوں نے اس کی مذمت کرتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ اس کے برعکس یونان میں حکومت نے تھیلیسونیکی نامی شہر، جوعثمانی دورمیں سلونیکاکے نام سے مشہورتھا،میں مسلمانوں کے لیے مسجد بنانے کادیرینہ مطالبہ رَدکردیاہے۔شہرمیں 1829ء تک درجنوں مساجدتھیں جنہیں عثمانی سلطنت کے خاتمے کے بعدتباہ کردیاگیا۔جومساجد ابھی بچی ہیں انہیں یونانی حکومت کھولنے سے انکاری ہے۔
کچھ عرصے سے مغرب اور دنیائے اسلام کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی یورپ بھر میں تارکین وطن کے خلاف مہم شروع ہونے کا سبب بنی ہے، ساتھ ہی مغرب بھر میں ایک ثقافتی جنگ شروع ہو چکی ہے۔
مذہب اسلام پر طنز کرنے اور توہین آمیز / گستاخانہ و متنازع خاکے شائع کرنے کی وجہ سے جریدے شارلی ایبدو کی صحافتی سرگرمیوں پر ماضی میں بھی فرانس کی مسلم آبادی کی طرف سے کڑی تنقید کی جاتی رہی ہے۔ تنازع مشرق وسطیٰ ہویامغربی افریقی ممالک کےسیاسی بحران، شام کی خانہ جنگی ہویاعراق میں جنگی تباہی،ہرخطے سے ترک وطن کر کے یورپ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلم اورغیرمسلم دونوں باشندوں کی تعدادمیں روزبروز اضافہ ہورہاہے اوریہ صورتحال اب فرانس اورجرمنی جیسے اقتصادی طورپرمضبوط یورپی ممالک کے لیے ایک بڑامسئلہ بن چُکی ہے۔ تارکین وطن چاہے روزگارکی تلاش ہی میں یورپ کی طرف کیوں نہ آئیں وہ اپنے ساتھ اپنی تہذیب وتمدن اوراپنی ثقافت لے کرآتے ہیں۔یورپ پرمسلم ثقافت کے اثرات مرتب ہوئے ہیں جس سے مغربی معاشروں کے قدامت پسندطبقے کوغیر معمولی تشویش لاحق ہے۔ غیر مذہبی نظام حکومت ’’لائسیزم‘‘ کے حامل ملک فرانس میں یورپ کی سب سے بڑی مسلم برادری آباد ہے۔ فرانس اس وقت اقتصادی بحران اور بیروزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ فرانسیسی معاشرے میں قومی شناخت اوراسلام کے کردارکے موضوع پرنہایت شدید بحث چھڑی ہوئی ہے۔
ایک فرانسیسی مصنف اورسیاسی صحافی ایرک زیمورنے اپنی کتاب ’’فرینچ سوسا ئیڈ‘‘ میں تحریرکیاہے کہ فرانس کی طرف مسلم تارکین وطن کی ایک بڑی تعدادکی ہجرت فرانسیسی سیکولراقدارکی تباہی کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔ اُن کی یہ کتاب2014ءکی بیسٹ سیلنگ کتاب رہی۔
ایک متنازع مصنف میشل ہؤلیبیک کے سال کے آغازپرشائع ہونے والے تازہ ترین ناول سبمِشن میں ایک پلاٹ تخلیق کیا ہے جس میں مقامی آبادی کے جذبات کوبرانگیختہ کرنے کے لیے ایک فرضی،تخیلاتی خاکہ کشی کی ہے۔ وہ2022ء کے فرانس کا منظرتصورکرتے ہوئے لکھتاہے ’’فرانس کے صدارتی الیکشن میں انتہاپسندانہ رجحانات کی مسلمان سیاسی جماعت اخوان المسلمون انتہائی قدامت پسندخیالات کی سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ کوشکست دے کرمسلمان سیاسی جماعت کے لیڈرمحمدبن عباس کوصدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل ہوتی ہے اوروہ برسراقتدارآ جاتی ہے۔ ناول کے مطابق اِس ناول میں ویلبیک نے اِس حکومت سازی کے دوران ہونے والے اقدامات کااحاطہ کرنے کی کوشش میں اس شرانگیز پروپیگنڈے کا سہارابھی لیتاہے کہ انتہا پسندمسلمان حکومت نے سوربوں یونیورسٹی کانام تبدیل کرکے پیرس سوربوں اسلامک یونیورسٹی کردیاہے۔ فرانس کے تمام اسکولوں میں مذہبی تعلیم کولازمی قرار دیتا ہے۔ ساتھ ہی خواتین کے کام کرنے پرپابندی عائدکردیتاہے اورفرانس میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ خواتین نے مغربی جامے چھوڑ کرحجاب کواپنالیاہے اوریونیورسٹی کے غیرمسلم اساتذہ کومذہب کی تبدیلی کا سامناہے۔
ادھر دوسری طرف برطانیہ میں 2001ء سے لے کر اب تک500گرجاگھربندہوچکے ہیں اوران کی جگہ لوکل اتھارٹیزکی قانونی اجازت کے بعد 493 مساجد معرضِ وجودمیں آچکی ہیں جہاں صرف توحیدورسالت اوردنیاکی سلامتی کاپیغام دینے کے ساتھ نہ صرف ان کوآبادکیابلکہ تمام مذاہب،رنگ ونسل سے بالاترہوکر لوکل کمیونٹی کےرفاہ عامہ کاکام بھی بخوبی سرانجام دے رہی ہیں جس کو وہاں بہت سراہابھی جاتا ہے۔ ان گرجاگھروں کے بندہونے کی وجہ ان کی ویرانی تھی کیونکہ یہاں کوئی عیسائی عبادت کے لیے داخل تک نہیں ہوتاتھاجبکہ 2020ء میں ہونے والے ایک اہم سرکاری سروے کے مطابق مساجدمیں تبدیل ہونے کے بعدصرف لندن میں6لاکھ83ہزارمسلمان پانچ وقت نمازاداکرتے ہیں جبکہ گرجا گھروں میں عبادت کے لیے آنے والےعیسائیوں کی تعداد20گناکم ہوکر 6 لاکھ 79ہزارماہانہ ہوچکی ہے جن میں نوجوان عیسائیوں کی تعدادنہ ہونے کے برابرہے۔
سروے میں اس کابھی اعتراف کیاگیاہے مساجدمیں معاشرے کی اصلاح کاکام بھی ہوتاہے جہاں غیر مسلموں کو بھی دعوت عام ہے کہ وہ آکرخوداپنی آنکھوں سے اس کام کوملاحظہ کریں۔جبکہ گرجاگھروں کے غیرآبادہونے کی وجہ عیسائیوں میں مذہب بیزاری،الحادی سوچ کاعروج،گرجاگھروں میں کرپشن کے علاوہ دیگر اخلاقی کمزوریاں جوباوجوددبانے کے منظرعام پربھی آجاتی ہیں۔اس کے علاوہ عیسائیوں کی ایک کثیرتعداداسلام بھی قبول کررہی ہے اورباقاعدہ انہی مساجداور امت مسلمہ کاایک حصہ بن کراپناکرداربھی اداکر رہے ہیں۔ مثال کے طورپر لندن کے ایک تاریخی گرجا گھر سینٹ آف جارجیامیں 1230افرادکی عبادت کی گنجائش موجودہے لیکن اب وہاں صرف ایک درجن افراد عبادت کے لیے آتے ہیں اوریہی حال مشہورگرجاگھرسینٹ ماریاکاہے جہاں20افرادبڑی مشکل سے جمع ہوتے ہیں جبکہ اس گرجاگھر کے پہلومیں دن میں 5مرتبہ مسجدمیں ہرنماز میں 100 کے قریب افرادنمازاداکرتے ہیں جبکہ جمعہ کی نمازمیں تعدادکئی سوپر مشتمل ہوتی ہے اوراکثر مسجدسے باہرفٹ پاتھ اورسڑک پربھی لوگ نمازاداکرتے ہیں جن کوگزرتے ہوئے عیسائی بھی ملاحظہ کرتے ہیں۔
یہی حال برطانیہ کےدیگر چھوٹے بڑےشہروں میں بھی ہے۔برطانیہ کے دوسرے بڑے شہرمانچسٹرمیں مسلمانوں کی تعداد 8۔15 فیصد ہے۔ برمنگھم میں 8۔21 فیصد ہے، بریڈ فورڈمیں7۔24فیصدہے اوران کے مقابلے میں مساجدکی تعدادکودیکھ کرتعجب کی ضرورت نہیں ہے۔ یورپ کے دیگربڑے بڑےشہروں میں بھی مساجدکی بڑھتی ہوئی تعداد بھی یہی نقشہ پیش کررہی ہیں۔یہ تمام مساجدکی تعمیراوران کے چلانے کے تمام بھاری اخراجات خالصتاً مسلمان اپنی جیبوں سے پورا کرتے ہیں جبکہ گرجاگھروں کے لیے توباقاعدہ حکومت کی طرف سے بھاری اعانت بھی جاری ہوتی ہے۔آپ کی اطلاع کے لیے ایک اورخوش آئندبات عرض کردوں کہ صرف لندن میں سوسے زائدشریعہ کونسلزبھی مسلمانوں کے باہمی خانگی اورشرعی مسائل میں رہنمائی کے لیے موجودہیں جن کی بنا پربرطانوی عدالتوں میں جانے کے بجائے گھرکی دہلیزپربغیرکسی فیس اور تاخیرکے معاملات حل کیے جاتے ہیں۔ایک اورعجیب ستم ظریفی یہ ہے کہ بھارت اسلامو فوبیا کانام لے کراقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلےعام خلاف ورزی کررہاہے۔اقوام متحدہ کے زیراہتمام منائے جانے والے عالمی دن،امن کاعالمی دن،انسانی حقوق کاعالمی دن،جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کاعالمی دن، سماجی انصاف کاعالمی دن،نسلی امتیازکے خاتمے کاعالمی دن،یوم یکجہتی وسفارتی امن کاعالمی دن،تنازعات میں جنسی تشددکاعالمی دن، انسانیت کاعالمی دن سمیت متعددایسے عالمی دن ہیں جن کی کھلم کھلاخلاف ورزیاں بھارت اورمغرب میں جاری ہیں۔ اس لیے اقوم متحدہ کو چاہیے کہ وہ جلدازجلد اسلاموفوبیا کے خاتمے کاعالمی دن منانے کااعلان کرے کیونکہ اسلاموفوبیاکاخاتمہ کیے بغیردیگرمنائے جانے والے عالمی دن بے سود ہیں۔