بھارتی مزید تباہی سے بچنے کے لیے مودی سرکار کا محاسبہ کریں

396

دسمبر2004ء میں ایشیامیں زلزلے اورسونامی تباہی کے وقت من موہن سنگھ نے اس آفت سے نمٹنے کے لیے دوسرے ممالک کی امدادقبول کرنے کے بجائے خودہی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کااعلان کرتے ہوئے بھارت کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت کے بارے میں ایک اہم سیاسی بیان دیا تھااوریہی نہیں بلکہ انہوںنے 2005ء کے سمندری طوفان کے بعد امریکا اور 2008 ء میں سچوان کے زلزلے کے بعدچین کوامدادکی پیشکش کرکے قومی فخراورخودکفالت کااظہارکیاتھاجوامداد فراہم کرنے والے بڑے ممالک کے لیے ایک واضح پیغام بھی تھا۔ مودی نے پالیسی تبدیل کرنے کے دباؤکے باوجود 2018ء میں کیرالا میں سیلاب کے دوران بھی بیرونی امداد قبول کرنے سے انکارکیالیکن بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی، جنہوں نے خودانحصاربھارت کے نعرے کے ذریعے قوم پرستی کی مستقل مہم چلائی، اب ان کا بھرم بیچ بازار ایسا پھوٹا کہ ان کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور وہ اچانک پالیسی بدلنے پرمجبورہو گئے ہیں۔
بھارت میں ایک ماں چندرا کلا سنگھ کی دل دہلادینے والی وہ تصویرجس میں وہ اپنے 29 سالہ نوجوان بیٹے ونیت سنگھ کی لاش جوایمبولنس کی عدم دستیابی کی بناایک عام رکشے میں اس کے قدموں میں پڑی ہوئی ہے، جب عالمی میڈیامیں وائرل ہوئی توسارے مغرب میں وہ بھارتی سفارت کارجودن رات بھارت کی معاشی ترقی کے افسانے بیان کیاکرتے تھے، میڈیا سے منہ چھپاتے نظرآئے۔ یہ تصویرریاست اتر پردیش کے شہر وراناسی کی تھی، جو بھارت میں تیزی سے پھیلتے ہوئے وائرس اورمکمل ناکامی کے دہانے پرکھڑے صحت کے نظام کے درمیان پھنسے شہریوں کی تکلیف کی صرف ایک مثال ہے جبکہ ایسی ہزاروں تصاویرمودی اوراس کے زرخرید میڈیاکابری طرح تعاقب کررہی ہیں۔ بدقسمتی تویہ ہے کہ وراناسی شہر جہاں یہ تصویرکھینچی گئی ہے وہ خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کاانتخابی حلقہ ہے۔
عالمی میڈیانے بھارت میں سڑک پربغیرآکسیجن تڑپتے اوربے بسی میں مرتے انسانوں کودکھایاجہاں ان افرادکی تدفین کرنے والابھی کوئی نہیں،پالتوکتوں کوانسانی لاشوں کی آخری رسومات کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ کوروناکی دوسری لہرنے پورے ملک کولپیٹ میں لے لیا ہے،جس کے بعد مودی نے40کے قریب ممالک کی جانب سے امدادکی پیشکش قبول کرلی۔ بھارتی سفارت کاروں نے آکسیجن پلانٹس اوردوائیوں ودیگرسامان کے لیے غیرملکی حکومتوں سے مدد کے لیے جھولی پھیلائی۔ بھارت کے اعلیٰ ترین سفارتکارہرش وردھن شرینگلہ نے انتہائی شرمناک یوٹرن کی توجیح پیش کرتے ہوئے حکومتی فیصلے کی سوشل میڈیاپرتعریف کی۔انہوں نے ڈھٹائی سے لکھا’’ہم نے امداددی ہے،ہماری مددکی جارہی ہے،اس سے پتا لگتا ہے کہ کس طرح آزاددنیاایک دوسرے کے ساتھ مل کرکام کرتی ہے‘‘۔جس پرایک غیرملکی تجزیہ نگارنے یہ کہہ کربحارتی سفارتکارکے منہ پرکالک مل دی کہ’’یہ کوئی مودی کی خارجہ پالیسی کی کامیابی نہیں بلکہ کوروناکی وجہ سے بگڑتی صورتحال میں محاسبہ کالمحہ ہے۔ مودی کی قوم پرست حکومت کے7برس بعدان کا اہم ترین خود انحصاربھار ت کامصنوعی ایجنڈا کوڑے دان میں پڑ انظر آتا ہے۔ سابق امریکی صدرڈونلڈٹرمپ کے دورسے بھارت کوچارملکی اتحادمیں چین سے مقابلے کے لیے ہندبحرالکاہل خطے کی حکمت عملی میں اہم ملک تصور کیا جارہاتھا،اب اس کی بھی قلعی کھل گئی ہے۔بھارت کومزیدشرمندگی سے بچنے کے لیے اس کردارکواداکرنے کے لیے خودفریبی اورجھوٹ کے بجائے مزیدمحنت کرنی ہوگی‘‘۔
ایک اورمغربی سیاسی تجزیہ نگارکے مطابق’’ اس دوران کوروناکی دوسری لہرمیں چین نے بھارت کے پڑوسی ممالک میں اپنی سرگرمیاں دگنی کردی ہیں،جس سے چین کے جنوبی ایشیائی ممالک سے تعلقات مزیدمضبوط ہوگئے ہیں۔جس کامقابلہ کرنابھارت کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ممکن ہے چندمہینوں میں دہلی میں معمول کی صورتحال لوٹ آئے لیکن وباسے نمٹنے کے دوران نااہلی کے مظاہرے نے نئی دہلی کو اسلام آباداوربیجنگ سے مذاکرات میں کمزورکردیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ نقصان بھارت کی عالمی ساکھ کوپہنچاہے۔ پہلے ہی مودی کی آ مرانہ حکومت کی وجہ سے بھارت کوعالمی سطح پر تنقید کا سامنا ہے۔یہ حکومت کابہت بڑامسئلہ ہے۔ امریکا اور مغرب نے اپنے مفادات کے لیے بھارت کوعالمی سطح پراہم اداروں کی نمائندگی کے لیے منتخب توکروایالیکن کسی کویہ معلوم نہیں تھاکچھ وقت بعد بھارت کی سڑکوں پرمرتے مریضوں اورجلتی لاشوں کی تصاویرمودی کی پالیسیوں کابھانڈا پھوڑکررکھ دیں گی، لیکن اب بھارت کوسفارتی قدر اورجغرافیائی اہمیت دوبارہ بحال کرنے میں مہینے نہیں بلکہ کئی برس درکارہوں گے جس کے لیے بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکرکی مسلسل کوششیں بری طرح ناکام دکھائی دے رہی ہیں‘‘۔
مارچ میں جب بھارت میں کوروناکی دوسری لہرشروع ہوچکی تھی توجے شنکرکی وزارت پاپ اسٹارریحانہ اورماحولیاتی تبدیلی کی کارکن گریٹاکے خلاف سرکاری بیانات دینے اور سوشل میڈیامہم چلانے میں مصروف تھی۔ حال ہی میں بھارت میں کورونابحران کے عروج پرجے شنکردنیابھرکے دارالحکومتوں میں موجودبھارتی سفیروں کے ساتھ عالمی میڈیامیں نام نہادیکطرفہ بیانیے کے مقابلے کے لیے اجلاس کررہے تھے،جس سے مودی حکومت کی کوروناکی دوسری لہرکے دوران نااہلی کاپتالگتاہے۔کچھ عرصہ قبل جے شنکر حکومت کی ویکسین دوستی پروگرام کے سب سے پرجوش حامی تھے جس کے تحت نئی دہلی نے59ممالک کوبھارت کی تیارکردہ ویکسین کی لاکھوں خوراکیں فراہم کیں۔ ویکسین کے باکس پرمودی کی نمایاں تصاویرلگائی گئی تھی۔ یہ ویکسین تجارتی معاہدے، دوطرفہ گرانٹ اورغریب ممالک کے لیے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اسکیم کے تحت فراہم کی گئی تھیں۔ دریں اثنابھارت میں ویکسی نیشن کاعمل انتہائی مایوس کن رہاہے۔ دنیامیں سب سے زیادہ ویکسین بنانے والاملک ہونے کے باوجودبھارت کی محض2فیصدآبادی کو ویکسین لگائی جا سکی ہے،کوروناکی دوسری لہرکے بے قابوہونے کی یہی سب سے بڑی وجہ تھی۔ذاتی شان وشوکت کے لیے دنیابھرمیں ویکسین بانٹنے کے بعد مودی نے بھارت کی16 سالہ پالیسی کو شرمناک حدتک تبدیل کردیاہے۔ مکافات عمل تویہ ہے کہ وہی بھارت جس نے چین،روس اورامریکاسے امدادقبول کرنے سے انکارکردیاتھا اب وہ امریکاسے ویکسین کی دوکروڑ خوراکوں کی خیرات کامنتظرہے بلکہ بھارت نے توچین سے انتہائی کشیدہ تعلقات کے باوجودامدادکو قبول کرلیاہے۔
بھارتی وزیراعظم کے لیے سب سے زیادہ توہین آمیزبات تویہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے طبی سامان اورایمبولنسز کی فراہمی کی پیشکش کو رد کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ صورتحال اس قدرافسوسناک ہے کہ بھارت کوبھوٹان جیسی چھوٹی ریاست سے یومیہ 88 ہزار پاؤنڈ آکسیجن درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ زیادہ تربھارتی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کاملک گزشتہ سال معاشی بحران کا شدید شکاررہا،اسی لیے بیرونی امدادقبول کرناپسندیا ناپسند سے زیادہ مجبوری بن گیاتھالیکن وہ اس پرکیاکہیں گے کہ وباکے بدترین دورمیں بھی نئی دہلی میں2/ارب ڈالرکی مالیت سے سرکاری دفاترکی تعمیرکاکام بلاروک ٹوک جاری ہے اور اس میں مودی کے لیے رہائش گاہ کی تعمیر بھی شامل ہے۔مودی نے کئی عالمی دوروں کے ذریعے بھارت کاقومی وقاربڑھانے پرفخرکیا۔ ان کے قوم پرست حامی سمجھتے ہیں کہ بھارت امریکااورچین کی طرح ایک عالمی طاقت بن چکا ہے۔یہ تاثر اندورنی سیاسی فائدے کے ساتھ جڑاہے۔ ہندوتوا یا ہندوقوم پرستی کے نظریہ نے ہی ان کی بالادستی کوممکن بنایاتھالیکن اب اس صورتحال میں مودی کے حامیوں کاعالمی طاقت کاخواب بری طرح بکھرچکا ہے۔
مودی کے حامیوں کوایک بار پھر تیسری دنیا کے ملک کاشہری ہونے کی حقیقت کاسامنا کرنا پڑرہاہے جوبیرونی امدادکے بغیرچل نہیں سکتے،چونکہ وباکی وجہ سے معیشت کوشدیدنقصان پہنچا ہے، یہی وجہ ہے کہ مودی اب اپنے حامیوں کے سامنے معاشی ترقی کوپیش کرنے سے گریزکررہے ہیں۔ مودی نے نام نہادخارجہ پالیسی کے ذریعے بھارت کے لیے جوفخر،وقاراورعالمی احترام کی عمارت تعمیر کی تھی،وبانے اس کوملیامیٹ کردیاہے۔وبائی امراض نے بھارت کوکئی اورطریقوں سے بھی نقصان پہنچایا۔کواڈکے رکن ملک آسٹریلیانے اپنے شہریوں کے بھارت سے وطن واپسی پرپابندی لگادی ہے اورخلاف ورزی کی صورت میں5برس قیدکی سزاتجویزکی ہے۔مارچ میں کواڈکے سربراہی اجلا س میں طے پایاتھاکہ گروپ2022ء تک ہندبحرالکاہل کے خطے میں کوروناویکسین کی ایک ارب خوارکیں تقسیم کرے گا۔ اس ویکسین کے لیے سرمایہ امریکااورجاپان کوفراہم کرناتھا، جبکہ ویکسین کی تیاری بھارت میں ہوناتھی اورویکسین کی تقسیم آسٹریلیاکوکرناتھی۔اس اقدام کامقصدگروپ کے سیکورٹی مرکزہونے کے تاثرکودورکرنااورچین کے مقابلے میں اپنی ساکھ کوبہتربناناتھا۔
بھارت کی جانب سے وباسے متاثرہ اپنے شہریوں کوویکسین کی فراہمی میں مشکلات کے بعدکواڈکی جانب سے مقررہ وقت پرایک ارب ویکسین کی خوارکوں کی تقسیم کاامکان ختم ہو چکا جس کے نتیجے میں کواڈمیں نئی دہلی کی ساکھ کوشدیدنقصان پہنچاہے۔اگروباکے نتیجے میں بھارت لڑکھڑاجاتاہے توکواڈکاامریکی خواب کبھی حقیقت نہیں بن سکے گا۔بیجنگ پہلے ہی بھارت کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے آگے بڑھ رہاہے تاکہ جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کومزیدمستحکم کرسکے۔ چینی وزیرخارجہ نے افغانستان، بنگلادیش، نیپال، پاکستان اورسری لنکاکے اہم منصبوں کے ساتھ کوروناکے حوالے سے تعاون کے لیے اجلاس کیا، جس میں بھارت موجودنہیں تھا۔اگرچہ افغانستان،بنگلادیش،نیپال اورسری لنکاکوبھارت کی جانب سے کچھ ویکسین فراہم کی گئی ہے،لیکن اس سے زیادہ کی توقع کی جارہی تھی۔نئی دہلی کی جانب سے اپنے کمرشل وعدے پورے نہ ہونے کے بعدیہ ممالک ویکسین کی فراہمی کے لیے بیجنگ کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
ایشیاکی دوبڑی طاقتوں کے درمیان پرکشش اوربااعتمادہونے کی دوڑلگی ہے،جس میں چین نے بھارت کوپہلے سے کہیں زیادہ پیچھے چھوڑدیاہے۔چین پہلے ہی متنازع سرحدپربھارت پردباؤڈال چکاہے۔ لداخ میں کشیدگی میں کمی کے باوجودچین نے گزشتہ موسم گرمامیں بھارت کے زیرقبضہ علاقوں سے فوجیں واپس بلانے سے انکارکردیاہے۔ جس کے بعد دونوں فریقوں کے درمیان مذاکرات کے آخری دورمیں بھارت کی ان علاقوں پرچینی قبضے کے حوالے سے بات چیت کی کوشش ناکام ہوگئی۔اب متنازع سرحدکے قریب مستقل عسکری انفراسٹرکچرتعمیرکرکے چینی فوجوں کومستقل طورپرتعینات کردیاگیاہے۔اگربھارت کی جانب سے کبھی اپنی طاقت کا مظاہرہ کیاجاناتھاتواس کی سب سے زیادہ ضرورت ابھی تھی لیکن کورونا کی دوسری لہرنے صورتحال کوبالکل الٹ دیا۔ خطے کی موجودہ صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان کوہرصورت بھارت کی کمزورپوزیشن کافائدہ اٹھانے کواللہ کی غیبی امداد سمجھنا ہوگا۔ پالیسیوں کی ناکامی اور غلط حکمت عملی کے علاوہ وباسے ملک اورمعیشت کوپہنچنے والے نقصان نے بھارت کے لیے خطرات میں بہت اضافہ کردیاہے،جس سے پاکستان کو فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی خارجہ پالیسیوں پرفوری نظرثانی کرنا ہوگا۔ اگرچہ بھارت اب بھی بیجنگ اوراسلام آباد کے ساتھ بیک چینل مذاکرات میں کسی نقصان سے بچنے کے لیے مغرب اورامریکاکو استعمال کرنے کی بھرپورکوشش کرسکتاہے لیکن مودی کے لیے بھارت کی عالمی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کاازالہ کرناآسان نہیں ہوگا۔ مودی کی متعصبانہ پالیسیوں کی بنا پرلبرل جمہوریت کی حیثیت سے بھارت کی ساکھ پہلے ہی ختم ہوچکی ہے اورحالات سے نمٹنے کے لیے ملک کی صلاحیت جوترقی پذیر ملکوں کے لیے ایک مثال تھی،اب وہ بھی خواب بن کررہ گئی ہے لیکن کوروناکی دوسری لہرسے نمٹنے میں ناکامی اورپیسے وصول کرلینے کے باوجودایشیائی اورافریقی ممالک کوویکسین فراہم نہیں کرپانا، ایسا نقصان ہے جس کی تلافی بالکل ممکن نہیں۔
بھارتی فی الحال مودی کی نااہلی سے آنے والی انسانیت سوزتباہی سے نمٹ رہے ہیں۔ جہاں ان سے ایک عالمی طاقت بننے کاجھوٹ بولاگیا تھا۔ وباکی اس لہرسے مودی کے سیاسی مستقبل کوبڑادھچکالگاہے اوربھارتی عوام کامودی پرسے یقین اٹھ گیاہے۔ مودی کے ماتحت وزیرخارجہ جے شنکر جوبڑے فخرسے کئی گیندیں بیک وقت ہوامیں اچھالنے کی ڈینگیں مارتے تھے اوردعویٰ کرتے تھے کہ کوئی بھی گیندزمین پرنہیں گرے گی لیکن اب تمام گیندیں فرش پرپڑی منہ چڑارہی ہیں اوران گیندوں کودوبارہ اٹھاکر کام شروع کرنے کے لیے بھیک اورگداگری کاپیالہ بھی برسوں تک کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکے گا۔اس بحران سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ بھارتی عوام مودی کا اصلی متعصبانہ چہرہ دیکھتے ہوئے ان کی جاہلانہ اورمتعصبانہ پالیسیوں کابھرپورطریقے سے محاسبہ کریں تاکہ مزیدتباہی کے ممکنہ طوفان سے بچاجاسکے۔