جمہورریت اور کورونا

254

آج دنیابھرمیں جمہوریت کوخطرے میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ آمریت کے ادوارآتے جاتے رہتے ہیں۔ آمریت اب شکل بدلنے لگی ہے۔ بعض جمہوری معاشروں میں ایک خاص طبقہ اتنامضبوط ہوچکاہے کہ تمام فیصلوں پراثراندازہوتاہے اوراقتدارواختیارکے تمام ماخذ پر اثر اندازہوکراپنے مفادات کوزیادہ سے زیادہ پروان چڑھا تا رہتاہے۔اس کے نتیجے میں معاملات مزیدالجھتے ہیں اور عام آدمی کے لیے زندگی دشوارترہوتی جاتی ہے۔ جمہوری معاشروں میں حقیقی نمائندگی کافقدان ہے۔منتخب ایوانوں پروہ لوگ متصرف ہیں جو عوام کے حقیقی نمائندے نہیں اوریوں ان کے ہاتھوں میں تمام وسائل ان کی مرضی کے رحم وکرم پرہوتے ہیں۔کوئی کتنی ہی کوشش کردیکھے، معاملات درست ہونے کانام نہیں لیتے۔ تمام ہی شعبوں پرایک خاص طبقے کاواضح اثرونفوذدکھائی دیتاہے۔
دی اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ(ای آئی یو)نے حال ہی میں سالانہ ڈیموکریسی انڈیکس کے ذریعے بتایاہے کہ امریکامیں جمہوریت انتہائی ناقص ہے اوراس کے مقابلے میں کہیں زیادہ بلکہ مکمل جمہوریت اس کے پڑوسی کینیڈامیں پائی جاتی ہے۔ ای آئی یوکی بات کونظراندازنہیں کیاجاسکتا۔جوکچھ ای آئی یونے اپنی رپورٹ میں بتایاہے وہ آج کی دردناک حقیقت ہے۔آج دنیابھرمیں جمہوریت انتہائی مخدوش حالت میں ہے اورامریکاجیسے جمہوریت کے علم بردارملک میں بھی جمہوری اقدارکی مٹی پلیدہورہی ہے۔حال ہی میں ختم ہونے والے ٹرمپ کے عہدِ صدارت کے ترکے کوذہن نشین رکھ کرسوچاجائے تومایوسی ہوتی ہے کہ امریکا جیسا جمہوریت کاعلم بردارملک ہی جمہوری اقدار کو روندتا ہواآگے بڑھ رہا ہے۔ امریکی ایوانِ صدر میں ٹرمپ نے جو 4 سالہ اسٹنٹ کیااس نے پوری دنیامیں جمہوریت کے حوالے سے شدید نوعیت کی قنوطیت کوبڑھاوادیاہے۔
جمہوریت کے نقطہ نظرسے2020ء خاصامایوس کن سال تھا۔دنیابھرمیں حکومتوں نے پارلیمان کے چیک اینڈبیلنس کومحدودکیا۔ بہت سے ممالک میں انتخابات کوملتوی یامنسوخ کر دیا گیا،عوام کے احتجاج کادائرہ محدودکردیاگیا، رائے کے اظہار کی آزادی پر بھی قدغن لگائی گئی اورتعلیم وصحتِ عامہ سمیت بہت سے معاملات میں شدید نوعیت کی بدعنوانی کوراہ ملی۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ آج دنیابھرمیں جمہوریت کوشدیدترین مشکلات کاسامناہے۔ ہانگ کانگ میں مغربی جمہوریت کی راہ رکی ہوئی ہے۔ مشرقِ وسطی میں بھی ایسی ہی صورتِ حال ہے۔ عرب دنیامیں اوربالخصوص خلیج فارس کے خطے میں معاملات بہت الجھے ہوئے ہیں۔آمریت کوبرقراررکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہاہے۔بادشاہتوں کوزیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے پراس قدرزور دیاجارہاہے کہ عوام میں غصہ اورمایوسی دونوں ہی کا گراف بلندہورہاہے۔ جمہوریت کے لیے آواز اٹھانے والوں کے خلاف سخت گیر رویہ عام ہوتاجا رہا ہے۔ مصرمیں عشروں کے بعدبحال ہونے والی جمہوریت کومحض ایک سال بھی برداشت نہیں کیاگیااورفوج نے دوبارہ اقتداراپنے ہاتھ میں لے لیا۔شمالی افریقاکے علاوہ لاطینی امریکاکی صورتِ حال بھی مایوس کن ہے۔ وسطِ ایشیامیں بھی جمہوریت کے پنپنے کے امکانات مخدوش ہیں۔
ای آئی یونے جمہوریت کے حوالے سے جوعالمی تصویر پیش کی ہے وہ واقعی محض پریشان کن نہیں،مایوس کن بھی ہے۔ اس حقیقت سے کون انکارکرسکتاہے کہ آج دنیابھرمیں پارلیمانی جمہوریت کونیچا دکھانے کی کوششیں زورپکڑرہی ہیں؟ پارلیمنٹ کے ذریعے جوابدہی کی روایت کوکمزورکرنے کے لیے آمرانہ ذہنیت کے لوگ میدان میں آگئے ہیں۔ ہرطرح کی بدعنوانی کوزیادہ سے زیادہ پروان چڑھانے کی سرتوڑکوشش کی جارہی ہے۔ جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والوں کاناطقہ بندکرنے کی طرف بھی بھرپورتوجہ دی جارہی ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ حقیقی نمائندگی کاعلم بلندکرنے والوں پرعرصہ حیات تنگ کردیاجا ئے تاکہ دوسروں کوعبرت حاصل ہواوروہ حقیقت پسندی کامظاہرہ کرتے ہوئے جمہوریت کی خاطرمیدان میں آنے سے گریزکریں۔
ای آئی یونے کئی سال سے اپنے سروے اوررپورٹس میں بتایاہے کہ دنیابھرمیں جمہوری اقداراورجمہوریت پسندی کے کلچرکو زیادہ سے زیادہ کمزورکرنے اورنیچادکھانے کی بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں۔عوام کے ذہنوں میں میڈیاکے ذریعے یہ نکتہ ٹھونساجارہاہے کہ جمہوریت کوئی ایساعمل نہیں جس سے بہترزندگی کی راہ نکلتی ہو۔عوام کے منتخب نمائندوں میں بھی بدعنوانی توپائی جاتی ہے مگراس بدعنوانی کوبہت بڑھاچڑھاکرپیش کیاجاتاہے تاکہ عام آدمی کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوجائے کہ عوام کی آرا سے منتخب ہونے والے توہوتے ہی بدعنوان ہیں اوریہ کہ ان سے ملک وقوم کی بھلائی کی توقع رکھنافضول ہے۔رہی سہی کسر کوروناوبانے پوری کردی۔دنیابھرمیں حکومتوں نے سخت گیررویہ اپناتے ہوئے جمہوری اقدارکومزید پامال کرنے پرتوجہ دی ہے۔ عوام سے رائے طلب کیے بغیران پرفیصلے تھوپے جارہے ہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن ٹرانسپیرنسی انڈیکس(سی ٹی آئی)کے ذریعے بتایاہے کہ180ممالک کاسروے کیاگیااورمعلوم یہ ہواکہ ان میں سے دوتہائی میں بدعنوانی غیر معمولی حدتک پائی جاتی ہے۔ کوروناوباکے دوران لاک ڈاؤن اوردیگراقدامات کے باعث بڑے پیمانے پرمالیاتی دشواریاں پیداہوئیں۔ پسماندہ ممالک بالخصوص بھارت کی حالت بہت بری ہے۔ اچھی خبریہ ہے کہ کوروناویکسین آچکی ہے اورمغرب کے ترقی یافتہ ممالک ویکسی نیشن کے مرحلے سے گزررہے ہیں۔معیشتیں بحالی کی طرف گامزن ہیں۔ مغرب کے ترقی یافتہ اوربالخصوص صنعتی ممالک نے اپنی معیشت کونئی زندگی دینے سے متعلق جواقدامات کیے ہیں وہ پوری دنیا کے لیے اچھی خبرلائے ہیں۔پسماندہ ممالک کوبھی اب معاشی بحالی کے حوالے سے کچھ نہ کچھ ملے گا۔ترقی پذیرممالک کی معیشتیں بھی بحالی کی طرف گامزن ہیں۔معیشتوں کی بحالی کا عمل شروع ہونے سے معاملات بہت حدتک درستی کی طرف مائل ہوں گے۔
یہ سب توٹھیک ہے مگرمسئلہ یہ ہے کہ جہاں حکمرانی کامعیارہی پست ہووہاں کیاہوسکے گا۔دنیابھرمیں ایسی حکومتوں کی تعداد کم نہیں جو پست معیارکی حکمرانی کے ہاتھوں ناقص کارکردگی کامظاہرہ کررہی ہیں۔جن کے ہاتھوں میں ملک کانظم ونسق ہے ان میں مطلوب اہلیت ہے نہ کچھ کردکھانے کاعزم۔ وہ چاہتے ہیں کہ معاملات ویسے ہی رہیں جیسے ہیں یعنی کوئی بڑی تبدیلی رونما نہ ہو۔کوئی بھی اندازہ لگاسکتاہے کہ جب معاملات یہ ہوں توکوئی بھی بڑی اورمجموعی طورپرمثبت تبدیلی کیونکرآسکتی ہے۔ حکومتوں کی بدعنوانی پرنظررکھنے والے ادارے بہت مایوس کن تصویرپیش کررہے ہیں۔بدعنوانی کادائرہ وسیع ترہوتاجارہاہے۔ ترقی پذیراورپسماندہ دنیامیں بیشترممالک قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ معاملات کودرست کرنے کے بجائے قرضے لے کر کام چلایاجاتارہاہے۔یہ کیفیت اب خطرناک شکل اختیارکرچکی ہے۔کئی ممالک کے اندرونی اوربیرونی قرضے تباہ کن سطح تک پہنچ چکے ہیں۔جنوبی افریقاکی حکومت نے کوروناوباکے دوران برملاکہاکہ خزانے میں کچھ ہے ہی نہیں،وہ کسی بھی اعتبارسے اس پوزیشن میں نہیں کہ عوام کے لیے کچھ کرسکے۔
ترقی پذیردنیاکامالیاتی بحران بھی گہرا ہوتا جارہا ہے۔ حکومتیں قرضے لے لے کرکام چلاتی آئی ہیں۔یہ سب کچھ مزیدنہیں چل سکتا۔ اندرونی قرضوں کاحجم حکمرانوں کی راتوں کی نیندیں اڑانے کے لیے کافی ہے۔سبھی پریشان ہیں کہ اس مصیبت سے چھٹکاراکیسے پائیں۔نجی شعبے کی مددسے کچھ کرنابھی اب ممکن نہیں رہاکیونکہ وہ صورتِ حال کی نزاکت دیکھتے ہوئے غیرمعمولی حدتک محتاط ہوچکا ہے۔ترقی پذیرممالک میں ایک عشرے قبل پرائیویٹ انوی سٹمنٹ منیجرزنے حکومتوں کونجی شعبے سے قرضے لینے کاراستہ سجھایا تھا۔اب یہ سب کچھ بھی ہاتھ سے نکل چکا ہے۔
اس وقت درمیانی اورکم آمدنی والے120سے زائد ممالک کے بیرونی قرضوں کا 85 فیصد خالص غیررعایتی نوعیت کاہے، یعنی جو کچھ بھی واجب الاداہے وہ ہرحال میں اداکرناہی ہے۔پنشن کادباؤبڑھتاہی جارہا ہے۔ عالمی بینک کے ماہرین معاشیات پیٹرنیگل اور ناوتا کا سگا وارانے ایک رپورٹ میں بتایاہے کہ مزید ممالک کے دیوالیہ پن کی حد تک پہنچنے کے خدشات برقرارہیں۔ان دونوں ماہرین معاشیات نے پھربھی کچھ محتاط رہتے ہوئے بات کی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ترقی پذیراورپسماندہ دنیاکے بیشترممالک دیوالیہ ہوہی جائیں گے۔ لبنان، ارجنٹائن اور زیمبیا کی طرح انہیں معیشتی ڈھانچے کی تبدیلی کے عمل سے گزرناپڑے گا۔ قرضوں کی بنیادپر جینے والے ممالک کایہی انجام ہوتاآیاہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت قرضوں میں دبے ہوئے ممالک میں سے کم وبیش40فیصدانتہائی نوعیت کے خطرے سے دوچارہیں۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈنے بہت سے ممالک کوبیل آوٹ پیکیج دے کرمعیشت کی بحالی کی راہ پرگامزن ہونے میں مدددی ہے۔ یہ سلسلہ رک گیاتھا۔ٹرمپ کے عہدِ صدارت کا امریکااس حوالے سے اپناکرداراداکرنے کے لیے تیارنہ تھا۔اب جی سیون ممالک نے قرضوں تلے خطرناک حدتک دبے ہوئے ممالک کونئی زندگی دینے کے حوالے سے کچھ سوچاہے توامریکانے بھی منصوبے کی حمایت کااعلان کیاہے۔صدربائیڈن اس معاملے میں خاصی دلچسپی لیتے دکھائی دے رہے ہیں۔آئی ایم ایف نے کئی ممالک کے لیے بیل آوٹ پیکیج تیار کیے ہیں اوراندازہ لگایاجارہاہے کہ اب کے موسمِ گرما کے دوران ہی متعدد ممالک کوبیل آوٹ پیکیج دے دیاجائے گا۔ مالیاتی امورکے بہت سے ماہرین اس صورتِ حال کوبھی خطرناک قراردے رہے ہیں۔ان کاکہناہے کہ بیل آوٹ پیکیجزسے بھی بعض ممالک مزید قرضوں تلے دب کررہ جائیں گے۔
قرضوں تلے خطرناک حدتک دبے ہوئے ممالک کے عوام کونئی اوربہترزندگی کی نویداس وقت مل سکے گی جب ان کے قرضے معاف کردیے جائیں۔ ایسا ہوگا توجمہوریت بھی پروان چڑھ سکے گی۔جب تک قرضوں کابحران ختم نہیں ہوتا،عوام کی حقیقی حکمرانی کاخواب بھی شرمندہ تعبیرنہ ہوسکے گا۔ اگرپسماندہ ممالک کے قرض خواہ تھوڑی بہت رعایت دیں یعنی ادائیگیاں کچھ مدت کے لیے موخر کردیں تویہ بھی ایک بڑی خدمت ہوگی۔ اس سے بحران توخیرختم نہیں ہوگا تاہم قرضوں تلے دبے ہوئے ممالک کو سکون کاسانس لینے کاموقع ضرور مل جائے گا۔
ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ قرضوں تلے دبے ہوئے ممالک کی مدد کرنے کے نام پرکیے جانے والے اقدامات وہاں پھیلی ہوئی بدعنوانی پرقابوپانے کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کرتے ۔ جمہوری معاشروں میں پھیلی ہوئی بدعنوانی پرقابو پانے سے متعلق کچھ کرناتودورکی بات ہے،کچھ سوچابھی نہیں جاتا۔یہی سبب ہے کہ بیل آوٹ پیکیج مل جانے پربھی بہت سے پس ماندہ ممالک ڈھنگ سے جینے کے قابل نہیں ہوپاتے،بدعنوانی برقراررہتی ہے اورجمہوریت کی کشتی گرداب ہی میں پھنسی رہتی ہے۔بدعنوانی پرقابو پانے کے حوالے کچھ نہ کیے جانے ہی کایہ نتیجہ برآمدہواہے کہ آج دنیابھرمیں جمہوریت زوال پذیرہے۔منتخب نمائندوں کی بدعنوانی پرچیک اینڈبیلنس کانظام لایاہی نہیں جارہا۔یہ سب کچھ جب حدسے بڑھتاہے تب آمریت کوراہ ملتی ہے۔لوگ سوچنے لگتے ہیں کہ ایسی جمہوریت سے توآمریت ہی بھلی۔کم ازکم یہ دکھ تونہ ہوگاکہ ہمیں ہمارے اپنے منتخب نمائندے لوٹ رہے ہیں۔
چندایک ممالک نے اپنے طورپرکچھ کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں جمہوریت کاگراف بلندکرنے میں مددملی ہے۔البانیابھی ایک ایساہی ملک ہے جس نے آمریت کوپیچھے دھکیل کرجمہوریت کوخاصے منظم اندازسے پروان چڑھایاہے اوریوں وہ جمہوری کلچرکے اعتبارسے کی جانے والی درجہ بندی میں اب امریکاکے ساتھ کھڑاہے، لیکن ہمیں یہ نہیںبھولناچاہیے کہ ماضی میں مغربی ممالک اورامریکانے درجنوں مرتبہ ہمیشہ اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے تیسری دنیاکے ممالک کے جمہوری اداروں کونہ صرف سبوتاژکیاہے بلکہ وہاں آمروں کی کھل کرحمایت کی ہے بلکہ بعض ممالک میں ان آمروں کوجمہوری اداروں کاتختہ الٹنے کے لیے باقاعدہ ان کی آشیربادشامل تھی۔ الجزائرمیں باقاعدہ ایک ایسے انتخاب میں جہاں تمام عالمی غیرجانبدار ادارے اس انتخاب کومکمل شفاف قراردے رہے تھے لیکن وہاں انتخاب جیتنے والی حکومت کاراستہ روکنے کے لیے فوجی بغاوت کروا دی گئی اورفرانس نے اپنے مغربی اتحادیوں کے ساتھ آج تک وہاں جمہوری حکومت کوشرمندہ تعبیرنہیں ہونے دیا۔اس سلسلے میں ایک اورواضح مثال مصرکے فوجی ڈکٹیٹرالسیسی نے منتخب صدرمحمدمرسی کو معزول کرکے اقتدارپرنہ صرف قبضہ کرلیا بلکہ ان کی جماعت اخوان المسلمون کے ہزاروں مردو خواتین پرجیلوں میں ظالمانہ تشددکانشانہ بنایا جارہاہے۔ محمد مرسی کاجرم یہ تھاکہ اس نے منتخب ہوتے ہی اقوام متحدہ میں اپنی پہلی تقریرمیں برملایہ اعلان کیاکہـ’’جومحمدﷺکی عزت کرے گا،ہم اس کی عزت کریں گے اورجوان کی عزت نہیں کرے گاوہ ہمارادشمن ہے‘‘ ـ۔
الیکٹرانک اورسوشل میڈیاکی خرابیوں کے باوجود لمحوں میں دنیابھرکی خبروں اوربدلتے حالات کو جس سرعت کے ساتھ لوگوں کوباخبررکھنے کابیڑہ اٹھایاہواہے اوراس نے اب تیسری دنیاکے عوام کواس قدرباشعورضرورکردیاہے کہ وہ اب مغربی ممالک اورامریکاکی طرف سے پیش کردہ مراعات کوبھی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس پریقین کرنے کے لیے تیارنہیں ہوتے اوروہ اب بخوبی سمجھ گئے ہیں کہ اب غیرجمہوری قوتوں کوہم پرمسلط کرکے ان کے دورحکومت میں قرضوں کے جال میں ہمیں پھنسا کرنئے اندازمیں غلام بنانے کی سازش ہے اور ہمیں حقیقی جمہوری آزادی کے لیے ان سے جان چھڑاناضروری ہے۔