فحش گوئی

2142

ترمذی میں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: جو مسلمان ہے وہ طعنے نہیں مارتا اور نہ لعنت بھیجتا ہے اور نہ فحش گوئی کرتا ہے اور نہ بد زبانی کرتا ہے‘‘۔
فحش گوئی یعنی بے ہودہ باتیں کرنے کا مطلب ہے کہ انسان اپنی زبان سے ایسی باتیں نکالے جو شرافت وتہذیب اور شرم وحیا کے دائرہ سے خارج ہوں، جیسے کسی کو گالی دینا، طعنہ زنی کرنا یا کسی پر لعنت بھیجنا۔ اس حدیث میں فحش گوئی کی بنیادی صورتوں کو ذکر فرمایا گیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ بیہودہ گوئی کا تعلق یا تو خلاف تہذیب وشرافت باتوں سے ہوگا، جیسے زبان سے گالی گلوچ کرنا، کسی پر طعنہ زنی کرنا ، کسی سے بدزبانی کرنا یا کسی کو کوسنا اور یا وہ گوئی سے کام لینا۔ یا فحش گوئی کا تعلق شرم وحیا کے خلاف باتوں سے ہوگا کہ ایسی باتوں کو صاف صاف اور کھلم کھلا دوسرے کے سامنے بیان کرنا جو انسانی شرم وحیا کے خلاف ہوں۔
بیہودہ گوئی کی پہلی قسم کو قرآن وحدیث میں اس کی تمام صورتوں کے ساتھ ممنوع قرار دیا گیا ہے اور بد زبانی کو بے حیائی وبے غیرتی میں داخل کر کے اس سے روکا گیا ہے۔ ترمذی کی حدیث میں آیا ہے کہ جس کے اندر حیا آجائے تو وہ اس کو زینت یعنی شرافت وعزت دیتی ہے اور جس کے اندر بد زبانی اور تند خوئی آجائے تو اس کو عیب دار بنا دیتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بد زبانی ذلت ورسوائی کا اور شرم وحیا عزت وعظمت کا سبب ہیں۔
بد زبانی اور گالی گلوچ سے مغلظ اور گندی گالیاں ہی مراد نہیں ہیں، بلکہ اسلامی تعلیمات کے اعتبار سے ہر وہ بات اس میں داخل ہے جو دوسرے کی توہین وتحقیر یا اس کی دل آزاری کا سبب ہو، نبیؐ اکرمؐ نے نہایت بلیغ اور مؤثر انداز میں ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی اپنے ماں باپ کو بْرا بھلا نہ کہے، لوگوں نے عرض کیا کہ کیا کوئی اپنے ماں باپ کو بْرا بھلا کہہ سکتا ہے؟ یعنی یہ بات تو کسی بھی شخص سے نہیں ہو سکتی۔ آپ نے فرمایا کہ جو دوسرے کے ماں باپ کو گالی دے گا تو وہ پلٹ کر اس کے ماں باپ کو ایسا ہی کہے گا، گویا اس کی گالی سبب بن گئی ہے، اپنے ماں باپ کی گالی کا، اس لیے ایسی بد زبانی نہ کی جائے۔ بخاری شریف کی حدیث میں آیا ہے کہ کسی مسلمان کو گالی دینا بہت بڑا گناہ ہے اور اس سے قتل وقتال کرنا تو گویا کفر ہے… بد زبانی یا گالی گلوچ کرنا اتنا سنگین گناہ ہے کہ اس کی معافی اس وقت تک نہ ہوگی جب تک وہ شخص معاف نہ کرے جس کے ساتھ بد زبانی کی گئی ہے کیوں کہ یہ حقوق العباد میں سے ہے۔
نبی اکرمؐ نے اپنی اْمت کو بد زبانی اور گالی دینے سے اس حد تک روکا ہے کہ اپنے زیر دستوں، اپنے نوکر چاکر اور اپنے خادموں کے ساتھ بھی یہ معاملہ نہ صرف جْرم قرار دیا بلکہ اس کو دور ِ وحشت اور زمانۂ جاہلیت کی یاد گار قرار دے کر اس سے دلوں میں نفرت بھی پیدا کر دی، بخاری شریف میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ ابوذر غفاریؓ نے اپنے غلام کو گالی دے دی، نبی اکرمؐ کو معلوم ہوا تو آپ نے تنبیہ فرمائی اور فرمایا کہ تم میں ابھی تک دورِ جاہلیت کا اثر باقی ہے، یہ تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں، جن کو اللہ تعالی نے تمہاری خدمت پر لگا دیا ہے، مطلب یہ ہے کہ ان سے بھائیوں جیسا معاملہ کرو۔