امریکا کے لیے عالمی قیادت کا دور ختم

233

کورونا سے بچاؤ کی ویکسین دنیا کو دے کر اپنا کھویا مقام حاصل نہیں کیا جا سکتا، پوری پالیسی تبدیل کرنا ہوگئی

امریکی کانگریس بہت جلدبائیڈن کی طرف سے پیش کیے جانے والے1900ارب ڈالرکے کووڈ بل کی منظوری دینے والی ہے۔ اس سلسلے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس منظوری سے جوبائیڈن کایہ نعرہ کامیاب بنانے میں خاصی مددملے گی کہ امریکاواپس آگیاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نعرہ اب تک محض ایک بڑھک سے زیادہ کچھ نہیں رہا۔ اس حقیقت سے بھی کوئی انکارنہیں کرسکتاکہ امریکا اب بہت زیادہ کمزور پڑ چکا ہے۔ وہ عالمی سطح پراپنی برتری سے غیر معمولی حد تک محروم ہوچکا ہے۔ جوبائیڈن کی انتخابی مہم کے دوران امریکا کی واپسی یعنی عالمی سطح پراسے پہلی سی برتری اور سبقت واپس دلانے کے نعرے نے بیشترامریکیوں کی توجہ پائی۔ امریکاکچھ مدت سے متنازع ہے اوراس کی برتری بھی گم ہو چکی ہے۔ وہ عالمی برادری میں الگ تھلگ اور بہت حدتک اس کی ساکھ خراب ہوگئی ہے۔ جوبائیڈن امریکاکی غیرمتنازع عالمی سربراہ کی حیثیت بحال کرانے کی تگ ودومیں مصروف ہیں۔ اب امریکامیں بھی یہ بحث زورپکڑرہی ہے کہ امریکاکوعالمی سطح پرقائدانہ کردار ادا کرناچاہیے یانہیں۔بہت سے امریکیوں کاخیال ہے کہ کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی کوشش ضرورکرنی چاہیے اورایساہو بھی سکتاہے کہ امریکااپناکھویاہوامقام دوبارہ حاصل کر لے ۔
اس حقیقت کا اب ادراک اب کر ہی لینا چاہیے کہ امریکاکی برتری کا دور اب جا چکا ہے۔ امریکا معاشی اورعسکری قوت کے ملاپ سے بہت کچھ کر چکاہے۔ایک زمانے تک اس کی حیثیت مست وبے لگام ہاتھی کی سی رہی ہے۔ اب مشکل یہ ہے کہ طاقت کے کئی مراکزابھرکر سامنے آچکے ہیں۔ چین ہی نہیں،برازیل اور انڈونیشیا جیسے ممالک بھی بہت کچھ کرنے کاعزم رکھتے ہیں۔ اسلامی دنیامیں ترکی ہے جواپنی کھوئی ہوئی قائدانہ حیثیت بحال کرنے کی طرف تیزی سے قدم بڑھا رہا ہے۔ ایسے میں امریکا کے لیے باقی دنیاکواپنی مٹھی میں لینے یاجیب میں رکھنے کا دور ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں رہا۔ امریکا باقی دنیا کی قیادت کرسکتاہے یانہیں،یہ سوال اہم ہے،مگراس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ امریکاکہاں کھڑا ہے۔ امریکی پالیسی سازجوکچھ بھی سوچتے ہیں، زمینی حقیقتوں کی روشنی میں سوچتے ہیں۔ کوشش کرنے سے پہلے یہ دیکھ لینالازم ہے کہ امریکاباقی دنیاپراپنی برتری ثابت کرنے اوران کی قیادت کرنے کی پوزیشن میں ہے بھی یانہیں۔
ٹرمپ کے عہدِصدارت میں امریکانے اپنے اتحادیوں سے کنارہ کرلیا۔ وہ تنہاآگے بڑھنے کی ذہنیت کے ساتھ سامنے آیاتورابطے کم رہ گئے اوربہت سے اتحادی شدید ناراض ہو گئے۔ ایک سال کے دوران ایک بڑی تبدیلی یہ رونماہوئی کہ کوروناوبانے امریکاکوباقی دنیاکے سامنے بے نقاب کردیا۔وہ اتحادیوں اورپسمانددہ ممالک کی مددکی پوزیشن میں نہیں رہا۔ کوروناوباجب تیزی سے پھیلی توامریکااوریورپ شدیددباؤمیں آگئے۔یہ افتادان کے لیے خاصی پریشانی کاباعث بنی۔امریکااوریورپ میں کوروناوائرس سے بہت بڑے پیمانے پراموات واقع ہوئیں۔ کوروناکی وباپھیلی تودنیانے امریکاکی طرف دیکھاکہ وہ اس وباسے نمٹنے میں باقی دنیاکی مدد کیسے کرے گا۔کوروناوبانے خودامریکاکوبحران کی نذرکر دیا۔ ایسے میں دوسروں کی مددکرنے کی گنجائش ہی کہاں رہی تھی؟
اس وقت امریکا کے لیے سب سے بڑاچیلنج پوری دنیاکے لوگوں کوکوروناوائرس سے بچاؤکی ویکسین لگانے میں مدددینے کا ہے۔ پس ماندہ اورترقی پذیرممالک امریکاکی طرف دیکھ رہے ہیں۔ چین نے کوروناوائرس سے نمٹنے کے حوالے سے غیرمعمولی نوعیت کے اقدامات کیے ہیں۔اس نے کوروناوائرس کی وباکے دوران پسماندہ ممالک کوحفاظتی تدابیر اختیار کرنے میں خاصی مدددی۔ امریکاتوماسک کی پیداوارکے معاملے میں پیچھے رہ گیا۔چین نے میدان مارلیا۔ کوروناوبانے چین کوعالمی سطح پرتیزی سے اور غیرمعمولی حدتک ابھرنے کاموقع فراہم کیا ہے۔ امریکا کو برابری کی بنیادپراتحادیوں کوبھی کوروناوائرس سے بچاؤکی ویکسین لگانے کااہتمام کرناہے۔اس مدمیں وہ 4 ارب ڈالرخرچ کرے گا۔ رواں سال کے آخرتک 2 ارب خوراکوں کااطلاق کرنے کاہدف ہے۔ اب تک کم آمدنی والے صرف7فیصدممالک کوروناوائرس سے بچاؤکی ویکسین تک رسائی پانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ایسے میں یہ بات بہت اہم ہے کہ امریکاپسماندہ دنیاکوکوروناوائرس اوردوسری بہت سے وباؤں سے بچانے میں کیاکرداراداکرسکتاہے۔اب امریکاکواپنی عالمی قائدکی حیثیت ثابت کرنا ہے۔ اس موسمِ گرمامیں کوروناویکسین کے حوالے سے امریکاکی ضرورت توپوری ہوجائے گی مگربائیڈن کوڈیفنس پروڈکشن ایکٹ کے تحت کوروناویکسین کی پیداوارمیں اضافے کی راہ ہموارکرناہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال کے لیے بڑی تعداد میں کوروناویکسین موجودہو۔
دواسازادارے جانسن اینڈ جانسن نے ایک ارب خوراکیں تیارکرنے کاوعدہ کیا ہے۔ پسماندہ ممالک کوکوروناویکسین فراہم کرنے کے وعدے پرعمل کے بعدبھی بہت بڑے پیمانے پرویکسین محفوظ کی جائے گی تاکہ کسی بھی ناگہانی صورتِحال میں الجھن اورخِفت کاسامنانہ ہو۔ فائزرویکسین دنیاکے بیشترممالک میں استعمال ہورہی ہے۔ایسی صورت میں کوروناویکسین کی پیداواربڑھے گی مگر سب سے بڑامسئلہ اب بھی لاگت کاہے۔افریقی ممالک کے لیے زیادہ لاگت کسی بھی طورموزوں نہیں۔ یہ ممالک کچھ زیادہ ادا کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہیں۔افریقی اتحادکی تنظیم نے3ڈالرفی ویکسین کے نرخ سے خریداری پرآمادگی ظاہرکی ہے۔امریکی دواساز ادارے دیگر (بالخصوص ترقی یافتہ) ممالک سے جوکچھ وصول کر رہے ہیں یہ اس کا صرف20فیصدہے۔دنیابھرمیں ایک ارب افراد کوفوری طورپرکوروناویکسین دیناہے۔اب ٹرمپ دورکی کمپنی’’ نوواویکس‘‘ بھی میدان میں ہے۔امریکاکواس مشن میں کامیاب ہوناہی ہے۔
اگر امریکا نے کوروناویکسین کے حوالے سے اہداف حاصل کرلیے اوردنیاکواس کی ضرورت کے مطابق ویکسین فراہم کردی تو عالمی سیاست ومعیشت میں اس کی واپسی کے حوالے سے کوئی امکان نظر آ سکتا ہے، تاہم امریکا کا کردار صرف یہیں تک محدود نہیں۔ اسے ثابت کرناہے کہ وہ دنیابھرمیں عام آدمی کے لیے بہت کچھ کرنے کی صلاحیت وسکت کاحامل ہے۔ آج بھی کئی بیماریاں ہیں جو عالمی سطح پرخرابیاں پیداکرتی رہتی ہیں۔ ہرسال کم وبیش 20 کروڑ افراد ملیریا کا شکارہوتے ہیں۔ ہلاکتوں کی تعدادبھی بڑھتی جارہی ہے۔ کینسر کے مؤثر علاج کے حوالے سے امریکاکچھ خاص کرنے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکاہے مگرخیر،یہ کوئی شرمندگی کی بات نہیں، کیونکہ کینسرکے علاج کے لیے کئی بیماریوں سے نبردآزماہونا پڑتا ہے۔ ہاں، افریقامیں ایبولاوبا جیسے معاملات سے نمٹنے میں امریکاکوواضح طورپر قائدانہ کرداراداکرناہے۔اس حوالے سے امریکاکوجہاں دیگرترقی یافتہ ممالک سے مل کرکام کرنا پڑے گاوہاں اس کواپنے پرانے حلیفوں سے بے وفائی ختم کرکے اخلاص کے ساتھ ان کاہاتھ تھامنا ہوگا۔ جنوبی ایشیامیں مسئلہ کشمیرکو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کے لیے اپنی حمایت اور اپنا کردار ادا کرتے ہوئے امریکا کو اپنی کھوئی ہوئی حیثیت واپس لینے کی جانب بڑھنا ہوگا۔ وگرنہ بڑے پیمانے پرمسائل پیدا کرنے والی بیماریوں پرقابو پانے کے معاملے میں وقتی طورپرسہاراتومل سکتاہے لیکن کھویاہوا وقارنہیں۔ ساتھ ہی امریکا کی ہمیشہ کی یکطرفہ پالیسی خصوصاً ٹرمپ دور میں دنیا بھر کو دھوکا دینے اور سب کا ساتھ چھوڑ کر صرف امریکا امریکا کی رٹ لگائے رکھنے سے امریکا کو نہ صرف ہر میدان میں شکست کا سامنا ہوگا بلکہ وہ اپنا رہا سہا وقار بھی خاک میں ملا دے گا۔