ترقیاتی منصوبوں کے نام پر کشمیریوں کاعزم خریدنے کی ناکام بھارتی کوششیں

328

28 اکتوبر 1947ء کو سری نگر ائرپورٹ پر مسلح دستے اور جنگی سامان اتارا جارہا تھا، کشمیری اس کے خلاف رام باغ پل سری نگر میں احتجاج کررہے تھے لیکن بھارتی فورسز کو وہ احتجاج پسند نہیں آیا۔ صبح 10بجے فائرنگ کر کے 16افراد کو شہید، درجنوں کو زخمی و گرفتار کیا گیا ۔اس دن سے اب تک احتجاج رُکا اور نہ فائرنگ۔ نتیجے کے طور پر اب تک 7لاکھ افراد شہید ہوچکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں قتل عام اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ بھارتی قبضے کے پہلے ہی روز سے جاری ہے۔
74 برس سے آزادی اور پاکستان کا نام لینے والوں کو چن چن کر قتل کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کا سب سے زیادہ قتل عام جموں میں ہوا، جہاں 3 دن کے اندر کٹھوعہ کے ندی نالے لاشوں سے ایسے بھرے کہ نکاسی بند اور پانی کھیتوں اور کھلیانوں تک پھیل گیا۔ یورپی میڈیا نے اس وقت رپورٹ کیا تھا کہ 3 دن میں ساڑھے 3 لاکھ لوگوں کو قتل کیا گیا۔ محمود ہاشمی کی کتاب ’’کشمیر اداس ہے‘‘ جس نے بھی پڑھی، وہ سن 1947ء میں مسلمانوں پر توڑے جانے والے مظالم کے پہاڑ بھول نہیں سکتا۔
گزشتہ 3 دہائیوں میں ایک لاکھ نوجوانوں کو شہید اور 16ہزار کو غائب کردیا گیا اور 5اگست 2019ء کے بعد تو کشمیر جیل بن چکا ہے جبکہ اپریل 2021ء شروع ہوتے ہی مظالم میں تیزی آئی۔ اس وقت وادی کشمیر کے 4 اضلاع، شوپیاں، ترال، انت ناگ اور بارہ مولہ مکمل لاگ ڈاؤن میں ہیں اور تب سے اب تک 27 افراد کو شہید، 50 سے زائد کو گرفتار، ایک مسجد سمیت درجنوں گھروں کو مسمار یا نذر آتش کیا جا چکا ہے اور کئی بستیاں اجاڑ کر رکھ دی گئی ہیں۔ ان اضلاع میں نہ کوئی باہر جاسکتا ہے نہ اندر آسکتا ہے۔ لوگ گھروں میں بند ہیں۔ جن گھروں پر گولہ باری اور آگ لگائی جا رہی ہے ان کے مکین سڑکوں پر ہیں۔ فوج چاہے جس گھر میں گھسے، وجہ بتائے بغیر تہس نہس کرے، یا عزت کی پامالی کرے۔ ظلم کا یہ عالم ہے کہ ان سے نہ کوئی کچھ پوچھتا ہے اور نہ کچھ پوچھ سکتا ہے۔
بے شک بھارت تا کشمیر سیکڑوں کلو میٹر طویل ریل لائن منصوبے پر دنیا کا بلند ترین پل اور ہمالیائی پہاڑوں کے پیٹ کو چیرتے ایک سے دوسری جانب نکلتے راستے ’’چمتکار‘‘ ہی ہیں، لیکن کشمیریوں کے دلوں پر لگے زخم اتنے گہرے ہیں کہ اس سے بڑا بھی کوئی چمتکار وہ گہرے زخم نہیں بھر سکتا۔
ایک لاکھ شہید، 14 ہزار قیدی 16 ہزار گمنام قبریں، اولیا کے مزارات پر پچوں کی واپسی کے لیے دعائیں مانگتی ماؤں کی سسکیاں، جوان بھائیوں کے لاشوں پر گریہ و زاری کرتی بہنیں، سر شام ماؤں سے ابو کی واپسی کا پوچھتے بچے یہ سب نہ ماضی بھولنے دیتے ہیں اور نہ ہی ان پر کسی چمتکار کا کوئی اثر ہوتا ہے۔ جب تک کشمیر کو حق خود ارادیت اور آزادی نہیں مل جاتی، اُس وقت تک یہاں کی صورت حال تبدیل ہو سکتی ہے اور نہ ہی خطے میں ترقی اور امن کی ضمانت مل سکتی ہے۔
سیکڑوں نہیں ہزاروں میل ریل چلے، پٹڑی سونے چاندی کی ہو، مرمر کی سڑکیں ہوں یا تانبے کے کھمبے یہ ورلڈ ریکارڈ تو بن سکتے ہیں لیکن کشمیر اور کشمیریوں کے دلوں میں موجود نفرت آگ بجھا سکتے ہیں نہ ان کا احساس محرومی ختم ہو سکتا ہے۔ اقدامات نمائشی اور نیت قبضے کی ہو تو بھارت کی یہ حسرت ہی رہے گی کہ کشمیری کبھی اپنے موقف سے ہٹ بھی سکیں۔ کشمیریوں کے لیے یہ خبر بالکل بھی نوید سحر نہیں کہ دریائے چناب پر دنیا کا بلند ترین ریلوے پل ورلڈ ریکارڈ قائم کرنے والا ہے جو تعمیر کےحتمی مراحل میں پہنچ چکا۔ نہ ہی مقامی انتظامیہ اور فوج کو اس ہدایت میں کوئی خوشی کا پہلو ہے کہ کشمیر کےعام شہری کے ساتھ حسن سلوک، اور قریبی رابطہ رکھا جائے۔ فوجی اہلکاروں کے ہاتھوں میں سرخ پرچموں کو نیلے اور سفید رنگ سے تبدیل اور فوجی گاڑیوں پر ’’کشمیری کو سلام‘‘کا پیغام تحریر کرکے سوشل میڈیا پر جاری کرنے سے کشمیریوں کے دکھوں کا کتنا مداوا ہو گا۔ اس دکھاوے، کھیل تماشے کی حقیقت تو کوئی اندھا بھی سمجھ سکتا ہے، لیکن عقل کے اندھوں کو سمجھ نہیں کہ جھنڈے کا رنگ تبدیل کرنے سے احساس محرومی کے خاتمے کا کیا تعلق۔ اب سری نگر میں فوجی گاڑیوں پر سرخ پرچم کے بجائے سفید اور نیلے جھنڈے لہرا رہے ہیں کہ ایسا کر کے حکومت کشمیر سے احساس محرومی ختم کر رہی ہے جب کہ کشمیریوں پر اس کا ذرہ برابر بھی اثر نہیں ہوگا کیوں کہ وہ بہادر کشمیری پرعزم ہیں کہ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر دیا گیا کوئی بھی لالچ ان کی بے شمار قربانیوں اور حق خود ارادیت کا متبادل نہیں ہو سکتا۔
میڈیا پر بتایا گیا ہے کہ جموں کے ضلع ریاسی میں دریائے چناب پر دنیا کا بلند ترین ریلوے پل تعمیر کیا جا رہا ہے جوکشمیر کو ریلوے لائن کے ذریعے بھارت سے جوڑے گا۔ یہ پل فرانس کے ایفل ٹاور سے 35 میٹر بلند ہو گا‘ لیکن کشمیری اس ورلڈ ریکارڈ سے بھی متاثر نہیں ہوئے، حالاں کہ اس پل کی تعمیر ایک معجزے سے کم نہیں۔ جموں و سری نگر 12 گھنٹے کا سفر 6 گھنٹے میں طے ہو گا۔ کشمیری ان سب منصوبوں سے اس قدر بے گانہ ہیں اور انہیں اس بات کا یقین ہے کہ یہ سب تو ان کی سہولت کے لیے نہیں، بلکہ ان کی ریاست پر قبضہ مضبوط کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
چناب بریج سطح آب سے 359 میٹر اونچا ہو گا جب کہ لمبائی 1315 میٹر ہو گی۔ بھارتی ریلوے کا کہنا ہے کہ آرچ کا کام مکمل ہو چکا۔ اب کیبلز کو ہٹانے، پہلوؤں میں کنکریٹ بھرنے اور ریلوے لائن بچھانے کا کام مکمل کیا جا رہا ہے۔ اس پل کی تکمیل 111 کلو میٹر براستہ جموں کٹرا۔ بانہال ریلوے سیکشن کو مکمل کرنے کی جانب ایک بڑی پیش رفت ہے۔ یہ منصوبہ بلند پہاڑی سلسلہ ہمالیہ کی پہاڑیوں کو کھودکر دنیا کا عجوبہ تعمیر ہو رہا ہے ۔ اسی لیے بھارتی وزیر اعظم اس کو چمت کار کا نام دیتے ہیں یعنی عجوبہ ۔ کشمیر کو بھارت سے ملانے کے لیے 27 ہزار 949 کروڑ روپے کی تخمینی لاگت سے 272 کلو میٹر طویل زیر تعمیر ریل لائن میں 927 پل اور 38 سرنگیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ ابھی تک ادھم پور سے کٹرا 25 کلو میٹر، کٹرا سے براستہ بانہال قاضی گنڈ 18 کلو میٹر اور قاضی گنڈ سے بارہ مولہ کے 118 کلو میٹر طویل ریلوے لائن بچھائی جا چکی، جس پر ریل گاڑیاں رواں دواں ہیں۔ کٹرا سے بانہال 111 کلو میٹر کا حصہ انتہائی دشوار اور کوہ ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ 97 کلو میٹر سرنگوں پر مشتمل ہو گا۔ گویا کل 85 فیصد حصے پر ریل کوہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں زیر زمین چلے گی۔ اس منصوبے کا اعلان 1990ء کی دہائی میں بھارتی وزیر اعظم پی وی نرسہما راؤ نے کیا تھا۔ آنے والی حکومتوں نے بھی اس کو جاری رکھا۔ 2002ء میں اٹل بہاری واجپائی نے اسے قومی منصوبہ قرار دیا۔ نریندر مودی کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے کشمیر کی تصویر اور تقدیر بدلنے والی ہے۔ بھارتی حکمران تو اس کو کشمیریوں کے لیے ایک تحفہ کہہ رہے ہیں لیکن بھارتی ریلوے کی طرف سے جاری وڈیو نے حقیقت آشکار کردی ہے اور بھارت کی نیت کو ظاہر

کر دیا ہے کہ 27 کھرب روپے کشمیریوں کے مسائل حل کرنے کے لیے خرچ کیے جا رہے ہیں یا قبضہ مزید مضبوط کرنے کے لیے۔ وڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ریلوے لائن پر مال بردار گاڑیاں جنگی ساز و سامان سے لدی کشمیر کی طرف رواں دواں ہیں۔ وڈیو کی وائس اوور میں کہا گیا ہے کہ کشمیر دو بین الاقوامی سرحدوں سے گھرا ہوا ہے۔ یہ ریلوے لائن اسٹریٹجک اہمیت کی حامل ہے جو بھارتی فورسز کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی۔ اگر یہ مان بھی لیتے ہیں کہ دنیا کا عجوبہ بھارت کشمیری عوام کی سہولت کے لیے ہی تعمیر کر رہا ہے تو اس کے باوجود کشمیری بھارت کی اتھارٹی اور حاکمیت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی ترقیاتی منصوبے احساس محرومی ختم کرنے کی وجہ بن سکتے ہیں، جس کی آڑ میں مودی کشمیریوں اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کررہے ہیں۔
بھارتی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل موسوی نے سری نگر میں تسلیم کیا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد شہریوں کی
مشکلات کو کم سے کم کرنا، شہریوں اورفوجیوں کے درمیان رابطے کو بہتر بنانا ہے تاکہ دونوں جموں وکشمیر میں عسکریت پسندی کے چیلنج کو حل کرنے کے لیے مل کر کام کریں لیکن ہم کشمیریوں میں احساس محرومی کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ امور کشمیر کے ماہرین نے بھارت کے ان نمائشی اقدامات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ایک تنازع ہے اور اس کو استصواب رائے کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے جس کا وعدہ اقوام متحدہ نے کیا تھاجبکہ بھارتی فورسز علاقے میں محض ایک قابض کی حیثیت رکھتی ہے۔ حق خودارادیت کے مطالبے پر ان فورسز کی طرف سے کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کو ایک طرف بھی رکھا جائے تو علاقے میں ان فورسز کی صرف موجودگی ہی کشمیریوں میں احساس

محرومی پیدا کرنے کے لیے کافی ہے۔
بھارت کی جانب سے کھربوں روپے کے ترقیاتی منصوبے کشمیریوں میں موجود احساس محرومی ختم نہیں کر سکتے تو جھنڈے کا رنگ بدلنے سے یہ کیا ختم ہوگا۔ علی گیلانی سمیت حریت رہنما متعدد بار کہہ چکے کہ ترقیاتی منصوبے آزادی اور حق خودارادیت کا متبادل نہیں ہیں اور کشمیری اس سے کم کسی بات پر راضی نہیں ہو سکتے۔
ہتھیاروں اور جنگوں کے شوقین مودی کو خود سوچنا چاہیے کہ فوجی قافلوں کے جھنڈوں کا رنگ تبدیل کرنے سے نہتے کشمیریوں کے بے رحمانہ قتل کوہرگز نہیں چھپایا جا سکتا۔ کشمیریوں کو اچھی طرح یاد ہے کہ اسی فوج نے جعلی مقابلوں اور حراست کے دوران ہزاروں کشمیریوں کو شہید اورلاپتا کردیا اور سیکڑوں ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی بے حرمتی کی ہے۔ فوجی قافلوں کے جھنڈوں کا رنگ تبدیل کرنے اور پرکشش نعروں سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور جرائم کیوں کر چھپائے جا سکتے ہیں۔ بھارت نے 1947ء میں کشمیر پر یلغار کے پہلے ہی دن 28 اکتوبر کو سری نگر کے علاقے رام باغ پل پر 16 بے گناہ کشمیری شہید کر کے تشدد کا آغاز کیا تھا۔اب تک 7 لاکھ کشمیری شہید کر دیے گئے۔ گزشتہ 3 دہائیوں میں ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا گیا ہے۔ اس صورت حال میں احساس محرومی ختم نہیں بلکہ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔