لبنان میں شامی مہاجرین پر بدترین ظلم کے واقعات

323

اقوام متحدہ اور لبنانی حکام کے مطابق لبنان کی جنوبی کمشنری کے ضلع بشری کے شامی مہاجرین کیمپ میں مقامی آجر اور شامی پناہ گزینوں کے درمیان پیسوں کے لین دین کے معاملے پرجھگڑے میں ایک شامی کے ہاتھوں لبنانی شہری جوزف طوق کی ہلاکت کے بعد بلووں نے 200 شامی خاندانوں پرمشتمل قصبے کی ساری مہاجرآبادی کوتلپٹ کرکے انہیں پناہ کی خاطر محفوظ مقامات کے لیے در در بھٹکنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس دوران انخلا اور نقل مکانی نہ کرنے والوں کو جسمانی تشدد کرکے سخت سزاسے دوچار کیا گیا۔ نسلی امتیاز کا بدترین اظہار شمالی لبنان کے علاقے منیہ میں شامی مہاجرین کی خیمہ بستی پرمقامی نوجوانوں کے ایک جتھے نے حملہ کرکے کئی جھگیوں کو آگ لگاکر کیا، جس کے بعدکیمپوں میں مقیم مہاجرین سے ان کی مڈبھیڑہوئی۔ لبنان میں مقیم کئی ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کے خلاف پرتشدد واقعات میں حالیہ مہینوں کے دوران تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔ قابل مذمت بات تویہ ہے کہ عوام اورحکومت دونوں ہی ان واقعات کوروزمرہ کامعمول سمجھ کران سے لاتعلق دکھائی دیتے ہیں۔ 1375نفوس پرمشتمل منیہ کی خیمہ بستی پرحملے خطرناک رجحان کاعکاس ہے۔ ملک کی تباہ کن معاشی صورتحال کے تناظرمیں لبنان میں مقیم 15 لاکھ شامی مہاجرین بڑھتے ہوئے تشدد اوردھمکیوں کانشانہ بن رہے ہیں جس کی وجہ سے کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔
جبران باسل جیسے سیاستدانوں نے لبنان کی تباہی کاالزام شامی مہاجرین پرلگاکرغیرملکیوں کے خلاف نفرت کے جذبات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ یادرہے جبران باسل عام سیاستدان نہیں بلکہ وہ سابق وزیرخارجہ اور صدرمیشل عون کے داماد ہیں۔ اور وہ مہاجرین کو ہمیشہ خوف کی علامت کے طورپرپیش کرتے چلے آئے ہیں۔ ماضی میں ان کایہ بیان ریکارڈپرموجودہے کہ لبنان کو درپیش بحرانوں میں شامی مہاجرین کا مسئلہ سب سے بڑا ہے۔ بشارالاسد حکومت کاتختہ الٹنے کے حامی حلقوں میں یہ تاثرتیزی سے راسخ ہورہا ہے۔ بشری کاواقعہ اس کی ایک مثال ہے لیکن ایسی بہت سی اورمثالیں بھی موجودہیں۔
صورت حال میں بہتری اورسکون کی خواہاں آوازیں اپنی موجودگی کااحساس دلانے لگی ہیں۔منیہ اوربشری کے علاقوں میں سعد الحریری کی فیوچرموومنٹ اورسمیرجعجہ لبنانیزفورسزکی حامی ہے۔ دونوں رہنماؤں نے کھلے عام لبنان میں مقیم شامی مہاجرین کوتحفظ دینے کامطالبہ کیا ہے۔ حریری اعلان کرچکے ہیں کہ جب تک بشارالاسد کی حکومت قائم ہے اس وقت تک مہاجرین شام واپس نہیں لوٹیں گے۔ اقوام متحدہ سے مہاجرین کی محفوظ وطن واپسی کااشارہ ملنے تک میں کچھ نہیں کرسکتا۔ شامی آبادی کی ملک سے بے دخلی کے مطالبات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ لبنان کی روایتی سیاسی جماعتوں کواس معاملے میں اپنے حلقہ ارادت پرقابوحاصل نہیں رہا۔ مقامی میڈیابھی غیرملکیوں کے خلاف منافرت کوہوادینے میں پوری طرح شریک جرم ہے۔ شامی مہاجرین کی لبنان میں ملازمتوں کے حصول کی کوششیں میڈیابڑھاچڑھاکرپیش کرتاہے جبکہ انہی مہاجرین کے خلاف ہونے والی پرتشدد کارروائیوں کو توتکار جیسے معمولی تنازع کے طورپرپیش کیاجاتاہے۔
حزب اللہ اوران کے اتحادیوں کے زیرنگین علاقوں میں ہونے والی پرتشدد کاروائیوں کوذرائع ابلاغ رپورٹ کرنے سے گریز کرتا ہے، جس کی خالصتاوجہ ان تمام مہاجرین کوبشارالاسدحکومت کامخالف سمجھا جاتا ہے۔ لبنان کی سلامتی کے لیے خطرہ خیال کیے جانے والے مہاجرین کی سرحدی قصبے عرسال سے زبردستی بے دخلی کی خبربھی مذکورہ پالیسی کی وجہ سے میڈیا میں جگہ نہ پاسکی۔ مہاجرین کوملک میں قیام کی اجازت دینے میں لبنانی ریاست سازبازسے کام لے رہی ہے۔ بعض حالات میں مہاجرین لبنان میں شام سے زیادہ سخت حالات کاسامناکرنے پر مجبور ہیں۔ مختلف اقدامات کے ذریعے مہاجرین کوقانونی حقوق سے محروم کرکے انہیں ظلم کانشانہ بنایاجاتاہے۔
ان جرائم سے نظریں چرانا لبنانی حکومت کی پالیسی کاحصہ ہوسکتا ہے، تاہم لبنانی عوام کوبھانین کیمپ کونذر آتش کرنے جیسے جرائم پرپردہ پوشی کے لیے جوازتراشنے سے بازرہناچاہیے۔ بھانین کیمپ میں آتشزدگی غیرلبنانیوں کے خلاف سیکڑوں سنگین نسل پرستانہ اقدامات کی صرف ایک ادنیٰ مثال ہے۔ شامی مہاجرین کابحران بلاشبہ لبنان کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ لبنانیوں کانسلی امتیاز، تشدد اور شامی مہاجرین کی بے دخلی اس بحران سے سوا ہے۔ سوال پیداہوتاہے کہ ہچکچاہٹ کی شکاربین الاقوامی برادری ایک ایسے ملک میں کیونکر سرمایہ کاری کرے گی جہاں کی مقامی آبادی دوسروں کااحترام ملحوظ نہ رکھتی ہو؟
دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان خراب رشتوں کی ایک اہم وجہ ماضی کی رقابتیں بھی ہیں۔ایک دورتھاجب شامی افواج کاپڑاؤ لبنان ہوا کرتا تھا اور تقریباً 3 عشروں تک پڑوسی ملک لبنان پرشام کادبدبہ قائم رہا۔ 2005ء میں لبنانی وزیراعظم رفیق حریری کے قتل کے بعداس وقت شامی فوجیں واپس ہوئیں جب ملک بھرمیں شام کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔ ملک میں جاری خانہ جنگی سے بچ کرآنے والے شامی پناہ گزینوں اورمقامی لبنانیوں کے مابین کشیدگی کوئی خطرناک موڑبھی اختیارکرسکتی ہے۔ 50 لاکھ کی آبادی والے ملک لبنان میں 10 لاکھ سے بھی زیادہ شامی پناہ گزین مقیم ہیں اوراس طرح ملک کے انفراسٹرکچرپر کافی بوجھ اوردباؤہے۔
شمالی لبنان میں پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کی ایجنسی کے ترجمان خالدکباراکاکہناتھاکہ’’مذکورہ عارضی کیمپ کرائے کی ایک زمین پرقائم ہے جس میںمقیم شامی مہاجرین باقاعدہ کرایہ اداکرکے رہائش پذیر تھے۔ اس سانحے کے بعدکیمپ پوری طرح سے جل کرخاک ہوگیاہے اوریہ تمام شامی پناہ گزین نہ صرف اپنی تمام پونجی سے محروم ہوگئے ہیں بلکہ کھلے آسمان کے نیچے بے یارومددگارکسی غیبی امدادکے منتظرہیں جوابھی تک ان کومیسرنہیں آسکی‘‘۔ منیہ خیمہ بستی میں جلتی ہوئی جھگیوں کادردناک منظر صرف انسانیت کے خلاف جرم ہی نہیں بلکہ اس سے جہاں لبنان کی روح اوراخلاقی اقداربھی شعلوں کی نذرہوگئیں وہاں حزب اللہ اوران کے اتحادیوں کی مکمل خاموشی بھی اپنی ہی روایات کاقتل اور انسانی جرم سے کم نہیں۔