امریکی جمہوریت کا تابوت

278

 ٹرمپ نے آکر امریکا کے چہرے سے جہاں بہت سے نقاب الٹے ہیں، وہیں ایک اور جھوٹا دعویٰ بھی سامنے آ گیا، جو امریکا کا سب سے بڑی اور قدیم جمہوریت ہونے کا علمبردار ہونا ہے۔ صدر ٹرمپ نے جاتے جاتے اس نظام کی حقیقت کو دنیا کے سامنے آشکار کردیا ہے۔ ٹرمپ نے حامیوں نے عین ان لمحات میں، جب کہ کانگریس انتخابی معاملات کے آخری مراحل میں تھی، ٹرمپ کے ٹویٹ کے بعد اس عمارت پر دھاوا بول دیا، جس میں ہلاکت بھی ہوئی، لوگ زخمی بھی ہوئے اور درجنوں حوالات کی نذر بھی۔ تشدد کی دعوت دینے پر ٹرمپ کے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹ بھی معطل کردیے گئے جب کہ کانگریس نے بالآخر جوبائیڈن کی جیت کی توثیق کردی۔ درج بالا تمام حالات کے بعد سے دنیا بھر میں امریکا اور اس کی نام نہاد جمہوریت کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔
امریکا کےلیے سب سے مقدم اس کا آئین ہی رہا ہے۔ امریکی تاریخ میں آج تک ایسا نہیں ہوا، جیسا اب ٹرمپ کی قیادت میں ہوا ہے۔ دیکھا جائے تو سب ہی ٹرمپ کو سمجھا رہے تھے کہ موجودہ سسٹم کو چلنے دیا جائے اور اسے خراب نہ کیا جائے، حتیٰ کہ نائب صدر نے بھی موجودہ حالات کی مذمت کی۔ اس واقعے کو دنیا بھر میں امریکی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا جا رہا ہے ساتھ ہی عالمی رہنما ٹرمپ کو سیاسی عمل جاری رکھنے اور انتقال اقتدار کی روایت برقرار رکھنے کی نصیحتیں کررہے ہیں۔
یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کی محفوظ ترین عمارت میں اتنی بڑی تعداد میں مظاہرین آخر داخل کیسے ہوئے؟ پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی سبکدوش ہونے والے صدر نے اپنے حامیوں کو مظاہروں اور تشدد کے لیے اُکسایا ہو۔ ان معاملات میں بنیادی طور پر سیکھنے کی بات یہ ہے کہ حکمرانی ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور اس میں مسخرہ پن نہیں ہوسکتا۔ ناتجربہ کار اور نااہل لوگوں کے ہاتھوں میں اتنے بڑے عہدوں کا ہونا بذات خود تباہی ہے۔ ایسے لوگ خود پرستی اور خود ستائشی کے چکر میں پورے نظام کو تباہ کردیتے ہیں۔
اناپرست انسان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ یہ وہی امریکا تھا جو کبھی جمہوریت کا چیمپئن تھا، آج اسی کے دارالحکومت میں اپنے ہی جمہوری نظام کا جنازہ نکال دیا گیا۔ وہی امریکا جو جمہوریت کا نام لے کر اپنے مفادات کے لیے حکومتیں بدل دیتا تھا، آج اپنے چہرے سے سیاہی مٹانے کی کوشش کررہا ہے۔ آپ کسی بھی سنجیدہ امریکی کو ان مظاہروں کی تصویریں دکھائیے جس میں لوگ کانگریس کی عمارت میں گھوم رہے ہیں، ایوان کی کرسیوں پر قابض ہیں، توڑ پھوڑ کی سیلفیاں بنا رہے ہیں، تو وہ شرمندہ ہوجائے گا کیوں کہ امریکی جمہوریت کے چہرے پر کسی غیر نے نہیں‘ خود امریکی صدر نے اپنے ہاتھوں سے سیاہ دھبہ سجایا ہے۔ ٹرمپ کی اس حرکت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امریکا وضاحتیں دیتا رہے گا، لیکن جمہوریت کے حوالے سے یہ طعنہ اسے ہمیشہ سننا پڑے گا۔ ٹرمپ کی تمام تر سیاست غیر سنجیدگی اور خودغرضی کے ساتھ سیاسی مخالفین اور حقیقت دکھانے والے میڈیا پر الزام تراشی اور انہیں گندا کرنے پر مرتکز تھی۔ اس طرز سیاست کے نتیجے میں امریکی نظام میں بوئے گئے نفرت کے بیج سے پھل پیدا ہونا شروع ہوگیا ہے۔ نسل پرستی اور عوام کو تقسیم کرنے کا یہ زہر اب آسانی سے نہیں نکلے گا۔ 20 جنوری کو ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس چھوڑ کر چلا جائے گا، لیکن امریکی نظام میں اس کے پیدا کیے گئے حالات کے اثرات دیر تک باقی رہیں گے اور نتیجتاً نومنتخب صدر جو بائیڈن کے لیے حکومت کرنا زیادہ مشکل ہو جائے گا۔