امریکی و اسرائیلی منصوبے اور مشرق وسطیٰ

281

شاید ہی کوئی سعودی شہزادہ عالمی سطح پراتنی تیزی سے ابھرا ہو، جس طرح محمدبن سلمان کاعروج ہواہے اورشاہ فیصل کے بعد شاید ہی سعودی خاندان کے کسی فرد سے متعلق دنیامیں اتنا تجسس پایا جاتا ہو، جتنا ولی عہدمحمد بن سلمان سے متعلق پایاجاتاہے۔ 31 اگست1985ء کوپیداہونے والامحمدبن سلمان موجودہ بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز السعودکی تیسری اہلیہ کے سب سے بڑے صاحبزادے ہیں۔ 2013ء میں محض ایک وکیل کے طور پر متعارف ہونے والا شاہی خاندان کا شخص آج عرب دنیا کا سب سے طاقت ور شخص بن کر سعودی شاہ کے اہم فیصلوں کی پشت پر نظر آتا ہے، اور اب حقیقی طور پر وہ تخت سے صرف ایک ہی قدم کی دوری پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ولی عہد کی اتنی تیزی سے قدامت پسند سعودی پالیسیوں میں جوہری تبدیلی سے متعلق جاننا چاہتے ہیں۔
محمد بن سلمان کو 2009ء میں اپنے والد کا خصوصی مشیر مقررکیاگیاجواس وقت ریاض کے گورنر تھے۔ شہزادے کے سیاسی سفرمیں ایک اہم موڑ اپریل 2015ء میں اُس وقت آیا، جب شاہ سلمان نے اپنی جانشینی کی قطارمیں نئی نسل کوشامل کیا اور اپنے سوتیلے بھائی مقرن بن عبدالعزیزکوہٹاکراپنے بھتیجے محمد بن نائف کوولی عہد مقرر کیا اور اپنے بیٹے محمد بن سلمان کونائب ولی عہد مقرر کردیا۔ محمدبن سلمان کی تخت تک رسائی ممکن بنانے کے لیے عارضی تبدیلی لائی گئی اور کچھ ہی عرصہ کے بعد محمدبن نائف کو ہٹاکرشہزادے کو ولی عہد مقرر کردیا گیا۔ اس طرح ولی عہد 29 برس کی عمرمیں نائب وزیرِاعظم کے ساتھ دنیا کا سب سے نوعمر وزیر دفاع بھی بن گیا، جس نے قلمدان سنبھالتے ہی اپنے جنوبی ہمسایہ ملک یمن میں عملی طورپرجنگی کاروائیاں شروع کردیں۔ اس وقت یمنی تنازع دراصل ایران اورسعودی عرب کے درمیان ایک خطرناک پراکسی وارکی شکل اختیار کرچکا ہے۔ یمن کی جنگ میں 2015ء سے اب تک ہزاروں افرادہلاک ہوچکے ہیں جبکہ لاکھوں بھوک کی وجہ سے موت کے دہانے پر ہیں، لیکن اب بھی دونوں فریق جنگ روکنے کا نام نہیں لے رہے۔
ولی عہدنے ایک بہت بڑا جوا کھیلتے ہوئے دوسرا دھماکا مئی2017ء میں کیا، جب انہوں نے درجنوں شہزادوں، امرا اور سابق وزرا کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ اس عمل سے شاہی خاندان کے رشتوں میں دراڑ پڑ سکتی تھی لیکن وہ نہ صرف اس میں کامیاب رہے بلکہ گرفتارکیے گئے شہزادوں اورامراسے پیسے بھی نکلوائے۔ اس طرح سارے حریف راستے سے ہٹا کر ولی عہد نے اپنی پوزیشن کو خاصا مستحکم کرلیا۔ قدامت پسند ملک میں عورتوں کے حوالے سے کئی اہم اقدامات کرکے تیسرا دھماکا کردیا اور عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت دینے کے ساتھ نہ صرف بغیر مرد کفیل کے کاروبارشروع کرنے کا موقع دیابلکہ ایک خاتون سعودی عرب اسٹاک ایکسچینج کی سربراہ بھی بن گئی۔ آزاد خیالی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اپریل 2018ء میں 35 برس بعد سعودی عرب کے سنیما میں دوبارہ فلم دکھائی گئی اور سعوی عرب میں ہزاروں میل رقبے پر پہلے انٹرٹینمنٹ سٹی کے منصوبے کااعلان کردیاگیاجس پر تیزی سے عمل جاری تھا، تاہم یمن کے جنگی اخراجات کی بنا پرتعمیرمیں تاخیرہورہی ہے۔
آج ایک نئی امریکی انتظامیہ وائٹ ہائوس میں آنے کی تیاری کررہی ہے اور نومنتخب صدر جوبائیڈن نے واضح کیا ہے کہ وہ کچھ سعودی معاملات پر اپنے پیش روسے زیادہ سخت مؤقف رکھیں گے۔ امریکانے ٹرمپ کے دورحکومت میں عرب اسرائیل تعلقات کے سلسلے میں خاصی کامیابیاں حاصل کیں اب مزیدبازومروڑنے کے لیے سعودی قیادت، بالخصوص طاقتور ولی عہد کے لیے خاصے کٹھن اوربے چینی سے بھرپوردورکاآغازمتوقع ہے۔ ولی عہدسعودی نوجوانوں میں آج بھی مقبول ہیں لیکن وہ بین الاقوامی طورپر2018ء میں سعودی صحافی جمال خاشق جی کے قتل سے متعلق شبہات دور کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
یمن میں جاری جنگ ان تمام ممالک کیل یے ایک سانحے سے کم نہیں، جواس کاحصہ ہیں تاہم اس کاسب سے زیادہ نقصان یمن کی غریب اورخوراک کی کمی کاشکارآبادی کواٹھانا پڑا ہے۔ دراصل سعودی عرب نے اس تنازع کی شروعات نہیں کی تھیں۔ اس کا آغازحوثی باغیوں نے اُس وقت کیاتھاجب وہ2014ء کے اواخرمیں یمن کے دارالحکومت صنعاتک مارچ کرتے ہوئے پہنچ گئے تھے اور انہوں نے ایک قانونی یمنی حکومت کاتختہ الٹ دیا تھا۔ حوثی باغی دراصل ملک کے شمال میں موجودپہاڑی علاقے میں رہنے والے قبیلوں میں سے ہیں اور یہ ملک کی 15 فیصد سے بھی کم آبادی کی نمایندگی کرتے ہیں۔
مارچ 2015ء میں موجودہ ولی عہد اوراس وقت کے وزیرِدفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے خفیہ اندازمیں عرب ممالک کا ایک اتحاد قائم کیا اور بھرپور فضائی قوت کے ساتھ جنگ کاحصہ بن گئے۔ انہیں امیدتھی کہ وہ چندہی ماہ میں حوثی باغیوں کوہتھیارڈالنے پر مجبورکردیں گے، لیکن آج تقریباً 6 برس اورہزاروں افرادکی ہلاکتوں، نقل مکانی اور دونوں طرف سے کیے جانے والے جنگی جرائم کے بعدبھی سعودی عرب کی سربراہی میں موجودیہ اتحاد صنعا اور گنجان آباد مغربی یمن سے حوثی باغیوں کونکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ایران کی مددسے حوثی باغیوں نے سعودی عرب پرمیزائل اورڈرون حملے بھی کیے اورسعودی عرب میں تیل کی تنصیبات کونشانہ بھی بنایاہے۔ یہ تنازع یقیناایک مہنگاتعطل ہے اوراس حوالے سے وضع کیے جانے والے اکثر امن کے منصوبے ناکام ہوچکے ہیں۔
یمن جنگ کے باعث جہاں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہورہی ہیں، وہیں سعودی عرب اورایران کے خزانے سے اس جنگ پرایک خطیررقم بھی خرچ ہورہی ہے اوربین الاقوامی میڈیامیں اس حوالے سے شدیدتنقیدبھی کی جارہی ہے۔ سعودی قیادت اس جنگ سے پروقار اندازمیں نکلنا چاہتی ہے تاہم ان کامؤقف ہے کہ وہ اس جنگ کاحصہ اس لیے بنے تھے تاکہ ’’اپنی جنوبی سرحد پر ایران کے بڑھتے اثر رسوخ کوروک سکیں‘‘ اس لیے وہ ایرانی حمایت یافتہ مسلح ملیشیاکواقتدارمیں نہیں دیکھ سکتے، تاہم اس حوالے سے اب سعودی عرب کے پاس وقت بہت کم رہ گیاہے۔
2016ء تک اپنی صدارت کے اواخرمیں سابق امریکی صدر بارک اوباما سعودی عرب کوامریکی حمایت دینے سے پیچھے ہٹ رہے تھے۔ جب ٹرمپ اقتدارمیں آئے توانہوں نے آتے ہی اس پالیسی کوختم کرکے ریاض کادل جیتنے کے لیے وہ تمام اقدامات کیے، جو انہیں اپنے مقاصد میں آگے بڑھانے میں کارآمد ہو سکتے تھے۔ دراصل ٹرمپ کی یہ پالیسی 2 مسلمان ملکوں کے مابین خوں ریز جنگ جاری رکھنے کی تھی، جیسا امریکانے عراق اورایران کے مابین جنگ میں گھناؤنا کردار ادا کیا تھا، تاہم اب بائیڈن انتظامیہ نے یہ عندیہ دیاہے کہ آیندہ ایسا نہیں ہوگا۔ اس جنگ کوجیسے تیسے ختم کرنے کے حوالے سے دباؤبڑھ رہاہے۔
ایک اور اہم مسئلہ جو سعودی قیادت کے لیے بین الاقوامی تعلقات عامہ کی حیثیت میں ایک سانحے سے کم نہیں، وہ سعودی جیلوں میں قید خواتین سماجی کارکنوں کا ہے۔یمن جنگ کی طرح یہ وہ گڑھاہے جوسعودی قیادت نے اپنے لیے خودکھوداہے اوراب وہ جیسے تیسے اس سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں کیوں کہ اتنے لمبے عرصے تک کوئی ثبوت منظرعام پرلائے بغیران خواتین کوحراست میں رکھنا، اب ریاض حکومت پر شدید دباؤ کی وجہ بنتا جا رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ بائیڈن انتظامیہ اس مسئلے کواجاگر کرے گی۔
تیسرا اہم مسئلہ قطری بائیکاٹ کا ہے جوظاہری طورپرتوپردے کے پیچھے کویت کی جانب سے کی جانے والی جامع ثالثی کے بعد حل ہونے کوہے، تاہم اس مسئلے کی جڑیں گہری ہیں۔ 2017ء میں ٹرمپ کے دورۂ ریاض کے کچھ ہی روزبعدسعودی عرب نے امارات، بحرین اور مصر کے ساتھ مل کراپنے خلیجی ہمسائے ملک قطر کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا تھا۔ وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ قطر ایسے عناصر کی حمایت کررہا ہے، جن کے تانے بانے مبینہ طور پر دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں اور یہ ناقابل قبول ہے، تاہم قطر کی جانب سے اس الزامات کو دو ٹوک انداز میں مسترد کیا گیا۔ انہوں نے ان 4 ممالک کے مطالبات پرعمل کرنے سے بھی انکار کیا، جن میں ملک کے معروف ٹی وی چینل الجزیرہ کو محدود کرنے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔
یمن کے حوثی باغیوں کی طرح قطری حکومت سے بھی یہی توقع کی گئی تھی کہ وہ بالآخر گھٹنے ٹیک دیں گے جوغلط ثابت ہوئی۔ اس کی ایک وجہ ان کے پاس موجوددولت کی فراوانی ہے۔ قطرکے پاس سمندر میں گیس کے ذخائرہیں اوراس نے صرف برطانیہ کی معیشت میں 40 ارب پاؤنڈکی سرمایہ کاری کررکھی ہے اور وہ ترکی اورایران کی مددبھی کرتا ہے۔ اسی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ میں ایک واضح دراڑ دکھائی دے رہی ہے۔ ایک طرف توقدامت پسند خلیجی ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر ہیں جب کہ دوسری جانب قطر ترکی اور کئی سیاسی اسلام پسندتحریکیں جن کی یہ دونوں حمایت کرتے ہیں، جیسے اخوان المسلمین اور حماس۔ ان تحریکوں کو یہ 4 ممالک اپنی سالمیت کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی سازش کے نتیجے میں ساڑھے 3 سال طویل قطری بائیکاٹ دونوں اطراف کے ممالک کے لیے معاشی اورسیاسی اعتبارسے نقصان دہ ثابت ہوا ہے لیکن اس بہتی گنگامیں امریکا اور مغربی ممالک نے خوب مال کمایاہے اور بدقسمتی سے یہ ممالک اس جال میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔
اس بائیکاٹ نے عرب خلیجی ممالک کے اتحادکوبھی کمزورکیاہے جبکہ عرب خلیجی ممالک کی قیادت میں ایران کے جوہری اورمیزائل پروگرام کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں مغربی دباؤ پر قائم کی گئی اپنی یہ سوچ تبدیل کرنا ہوگی۔ بظاہرتو ٹرمپ کا یہودی داماد اور سفارتی نمایندہ جیرڈ کشنر مشرقِ وسطی میں اس بائیکاٹ کے خاتمے کے لیے نام نہاد کوششوں میں مصروف نظر آیا، تاہم اس پورے فساد کی جڑ خود امریکا، اسرائیل اور ان کے حمایتی ہیں۔ توقع کی جارہی ہے کہ بائیڈن انتظامیہ قطری معاملے کا فوری حل چاہے گی کیوں کہ قطر العبید میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان کے سب سے بڑے غیرملکی فوجی اڈے کی میزبانی کرتا ہے۔
قطر کو اپنا بائیکاٹ کرنے والے ہمسایہ ممالک کو معاف کرنے اور ان 4 ممالک کو قطر پر اعتبار کرنے میں شاید برسوں لگ جائیں، لیکن جس طرح مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے تخلیق کیے گئے ورلڈآرڈرکے مطابق عرب بہارکے نام پر کئی مسلمان ملکوں کوتاراج کیاجاچکاہے، اب عربوں سے سفارتی تعلقات استوارکرنے کے بعد اسرائیل کے لیے خطے میں کھل کر مداخلت کرنے اور گریٹر اسرائیل کا منصوبہ پورا کرنے کے لیے جو راستہ ہموار کیا گیا ہے، اس سے ہر لمحہ چوکنا رہنا ہوگا۔