برس سے اسرئیلی مظالم کا شکار نہتے فلسطینی عوام73

211

(گزشتہ سے پیوستہ)
1991ء کے اوائل میں جنگ خلیج کے دوران عراق نے اسرائیل کو کئی اسکڈ میزائلوں سے نشانہ بنایا مگر کویت پر عراقی قبضہ، فلسطینی تحریک مزاحمت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔ بعد ازاں سویت یونین کے بکھرنے سے مغرب کی توجہ اپنے مخصوص مسلم دشمن اہداف پر مرکوز ہوگئی۔ مغرب کے دباؤ کی وجہ سے فلسطینی قیادت بتدریج مزاحمت سے دست بردار ہوتے ہوئے ایک پر امن مگر بے اثر سیاسی حل پر مجبور ہو گئی۔ 1991ء میں پہلی مرتبہ میڈرڈ میں عرب ریاستوں نے اسرائیل سے مذاکرات کا آغاز کیا۔ میڈریڈ مذاکرات کے 2 برس بعدتک عرب نمایندے اسرائیل سے کوئی قابل ذکر مطالبہ نہ منوا سکے سوائے ان خفیہ مذاکرات کے جو بالآخر اوسلو معاہدے کی بنیاد بنے۔
ستمبر 1993ء میں امریکا اور روس کی ثالثی میں، شمعون پیریز اور پی ایل او کےمحمود عباس نے اوسلو معاہدے پر دستخط کیے۔ اوسلو معاہدے میں عرب قیادت نے اسرائیل کو ایک جائز ملک تسلیم کرلیا تھا۔ فلسطینی اراضی کے 77فیصد حصے پر اسرائیل کا حق تسلیم کر لیاگیا اور تحریک انتفاضہ کو کالعدم تنظیم اوراسرائیل کے خلاف مسلح کارروائی کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔ اسی طرح عرب قیادت ہر قسم کے مسائل کا حل پر امن مذاکرات میں تلاش کرنے اور اسرائیل کی سلامتی کو نقصان نہ پہنچانے پر متفق ہونے کے ساتھ پورے فلسطین کی آزادی کے متفقہ مطالبے سے دست بردار ہو گئی۔ عرب قیادت نے اوسلو معاہدے پر دستخط کرکے عملاً تحریک آزادی فلسطین اور دوسرے مطالبات کا گلا گھونٹ دیا۔ دوسری طرف اسرائیل نے صرف اتنا تسلیم کیا تھا کہ عرب قیادت(الفتح) کو فلسطین کے مسئلے کی قیادت کا حق حاصل ہے اور یہ کہ اسرائیل غزہ اور مغربی کنارے کے بعض حصوں میں فلسطینی قیادت کو محدود سطح پر آزاد ی دینے کا پابند ہو گا اور دوسرے اہم نوعیت کے مسائل اگلے 5 برس میں طے کیے جائیں گے۔
فلسطینی اتھارٹی کے نام پر فلسطینی انتظامیہ نے 5 جولائی 1994ء کو دستوری حلف اٹھایا۔ اس فلسطینی انتظامیہ کے سامنے چند بڑے مسائل تھے، جن میں اسرائیلی مطالبے پر اسرائیل اور غرب اردن میں حماس اور اسلامی جہاد کی مسلح کارروائیوں کا خاتمہ، اپنے علاقے میں امن برقرار رکھنا، مجرموں کو سزائیں دینا، حکومتی اخراجات پورے کرنے کے لیے ٹیکس وغیرہ جمع کرنا تھا۔ فلسطینی اتھارٹی کے پاس ان مسائل پر قابو پانے کی طاقت اوروسائل نہیں تھے، چنانچہ اسرائیل نے اسے اوسلو معاہدے پر عمل درآمد کی سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا۔ دوسری طرف امن و امان قائم نہ کر سکنے کی وجہ سے فلسطینی اتھارٹی کی مقبولیت میں کمی آتی گئی اور عوام نے اس کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ اس اتھارٹی کی بین الاقوامی اور اندرونی پوزیشن بہت خراب ہو گئی اور اسرائیل کو یہ موقع مل گیا کہ وہ اس صورت حال کو اپنے حق میں استعمال کرے۔ صورت حال سے اسرائیل کی انتہاپسند لیکوڈ پارٹی نے فائدہ اٹھا ہوئے 1996ء کے نتخابات جیت کر فلسطینیوں کے راستے میں مزید مشکلات پیدا کردیں۔ اسی دوران 1994ء میں اسرائیل اور اُردن کے درمیان امن معاہدہ ہوا جس سے اُردن اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے والا دوسرا ملک بن گیا۔
1999ء میں ایہود باراک وزیرِ اعظم منتخب ہوئے اور نئے ملینیم کے آغاز پر اسرائیلی افواج جنوبی لبنان سے نکل گئیں اور فلسطینی اتھارٹی کے چیئرمین یاسر عرفات اور ایہود باراک کے درمیان کیمپ ڈیوڈ میں امریکی صدر بل کلنٹن کی ثالثی میں مذاکرات ہوئے۔ ان مذاکرات میں ایہود باراک نے ایک بے اثر فلسطینی ریاست کے قیام کی پیشکش کی لیکن ان 6 لاکھ فلسطینی مہاجرین کو واپس لینے سے انکار کر دیا جو 1948ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بے گھر ہو گئے تھے۔ صدرکلنٹن نے تجویز پیش کی کہ فلسطینی مہاجرین کو فلسطینی ریاست میں آباد کیا جائے اور آبادکاری کے اخراجات میں امریکا مدد کرے گا۔ ایہود بارک نے یہ فارمولا منظور کر لیا لیکن یاسر عرفات نے اسے مسترد کر دیا۔
ان مذاکرات کی ناکامی سے وزیراعظم ایہود بارک کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی کیونکہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ معاہدے کے وعدے پر برسراقتدار آیا تھا۔ اس کے حریف لیکوڈ پارٹی کے لیڈر ایرل شیرون نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور فلسطینیوں کے خلاف سخت گیر موقف اختیار کرتے ہوئے دسمبر 2000ء میں قبۃ الصخرہ (مسجد اقصیٰ میں ایک چٹان کے اوپر گنبد) کا دورہ کرکے فلسطینی عوام کو اشتعال دلایا۔ اس کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے، جن میں سیکڑوں فلسطینیوں کو قتل کیا گیا، جس کے نتیجے میں ایک نیا انتفاضہ شروع ہو گیا۔ بالآخر ایہود بارک کو نئے انتخابات کا اعلان کر نا پڑا، جس میں شیرون نے کامیابی حاصل کی۔
29ستمبر 2000ء کو شروع ہونے والی دوسری تحریک انتفاضہ نے ایک مرتبہ پھر اس بات کو ثابت کیا کہ فلسطین پر فلسطینیوں کا حق ہے۔ تحریک انتقاضہ بہت جلد نہ صرف فلسطینی عوام کی ہر دل عزیز تحریک بن گئی بلکہ عرب ممالک کے ساتھ ساتھ دوسرے اسلامی ممالک میں بھی انتقاضہ کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور فراموش شدہ فلسطینی مسئلہ دوبارہ زندہ ہو گیا۔ انتفاضہ نے صہیونی عزائم سے پردہ ہٹا تے ہوئے ان کے امن مذاکرات کا پول کھو لا اور ثابت کیا کہ ان معاہدوں میں فلسطینیوں کے جائز حقوق سلب کیے گئے تھے۔ تحریک انتفاضہ کے سرگرم ہوتے ہی فلسطینی عوام پر اسرائیلی دہشت گردی مزید بڑھ گئی۔ جیلیں فلسطینی نوجوانوں سے بھر دی گئیں اور فلسطین کی بیشتر اراضی پر قبضہ کرلیا گیا۔ صرف 5 برس میں فلسطینی شہد کی تعداد 4160تک پہنچ گئی جبکہ 45ہزار فلسطینی اسرائیلی بمباری سے زخمی ہو ئے۔ برسر روزگار فلسطینیوں میں سے 58فیصد بے روزگار کردیے گئے۔
شیرون نے وزیر اعظم بننے کے بعد دوسرے انتفاضہ کو بے اثر کرنے کے لیے فلسطینیوں کی طرف سے کی جانے والی ہر کارروائی کا 10 گنا زیادہ ردعمل دے کر ظلم و جارحیت کے نئے دور کا آغاز کیا۔ کئی کئی دن تک یاسر عرفات کے دفتر کا محاصرہ کرکے دفتر کی بجلی، پانی اور خوراک کی فراہمی بند کر کر دی گئی۔ بلڈوزروں کے ذریعے مشتبہ افراد کے گھر مسمار کیے گئے۔ 25 جنوری 2006ء کو منعقدہ ’’فلسطینی قانون ساز کونسل‘‘ کے انتخابات میں حماس نے شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے 132میں سے 74 نشستیں حاصل کی مگر جمہوریت کے دعوے دار امریکا اور اسرائیل نے حماس کی جمہوری حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اسرائیلی حکومت نے اس انتخابات میں حماس کو کامیابی دلانے والے غزہ کے عوام کو سزا کے طور پر 2007ء کے بعد سے مسلسل محاصرے میں رکھا۔ ان کی خوراک، پانی، بیرونی امداد بند کیے رکھی اورجب اس سے بھی دل نہیں بھرا تو کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کرکے غزہ پر مسلح حملے کیے گئے۔
جولائی 2006ء میں حزب اللہ نے شمالی اسرائیل پر حملہ کرتے ہوئے 2 اسرائیلی فوجی اغوا کر لیے جس کے نتیجے میں لبنان سے ایک ماہ تک جنگ ہوتی رہی۔ 6 ستمبر 2007ء کو اسرائیلی فضائیہ نے شام کے جوہری ری ایکٹر کو تباہ کیا۔ دسمبر 2008ء میں اسرائیل نے آپریشن کاسٹ لڈ 22 روز تک جاری رکھا اور اس دوران 1400 فلسطینی شہید ہوئے۔ 2009ء میں غزہ قدرتی آفات کا شکار ہو گیا اور گندھک کی بارش ہوئی اور پھر اسرائیلی بلڈوزروں نے غزہ کےگھروں کو کھنڈرات میں بدل دیا۔
14 نومبر2012ء میں آپریشن پلر آف ڈیفنس کیا گیا جو 8 روز تک جاری رہا۔ پھر جولائی 2014 میں آپریشن پروٹیکٹیو ایج شروع کیا گیااور کئی روز تک غزہ پر بمباری ہوتی رہی۔ اس میں 337 فلسطینی شہید اور 2300 سے زائد زخمی ہوئے۔ اس آپریشن میں 1200 سے زائد گھروں کو مسمار کیاگیااور تقریباً 14 ہزار گھروں کو نقصان پہنچا۔ ایک امریکن تنظیم ’’اِف امریکین نیو” کے اعداد شمار کے مطابق 29 ستمبر 2000ء سے 17 جولائی 2014ء تک 7112 فلسطینی شہید ہو ئے جن میں 1523 معصوم بچے شامل تھےاور زخمی ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 59025 تھی۔ 5271 فلسطینی اسرائیل کے ہاتھوں قید ہوئے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ 1967ء سے لے کر 2014ء تک اسرائیل نے 28 ہزار سے زائد فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کیا اور فلسطین میں بیروزگار ی کا تناسب مغربی کنارے میں 22.6 اور غزہ میں 27.9 فیصد تھا۔ امریکا کی جانب سے اسرائیل کو روزانہ 85 لاکھ ڈالر کی فوجی امداد دی جاتی رہی جبکہ فلسطینیوں کو کوئی فوجی امداد نہیں دی گئی۔
ان آپریشنز کے دوران اسرائیلی پارلیمان کی رکن آئیلیٹ سیکڈ نے فلسطین کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’صرف بچوںکو مارنا کافی نہیں بلکہ عورتوں اور آنے والی نسلوں کو بھی نشانہ بنایا جائے‘‘۔ اسی طرح پارلیمان کے ڈپٹی اسپیکر موشی فیلن نے کہا کہ ’’ہمیں چاہیے کہ ان کو خیموں میں یکجا کرکے انکا قلع قمع کر دیں‘‘۔ اس موقع پر نیتن یاہو نے ہر قسم کی تباہی، جانوں کے ضیاع اورمصائب و آلام کا ذمے دار حماس اور غزہ کو ٹھیرایا، جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ اسرائیل، فلسطینیوں کے حق خود ارادیت، خود مختاری اور ان کی حاکمیت کو کبھی قبول نہیں کرے گا۔ وہ چاہتا ہے کہ فلسطینی ان کے زیر رہیں اور صرف ایسی ریاست کا مطالبہ کریں، جس کی سیکورٹی، سرحدیں، فضائی حدود، سمندری حدود، تعلقات، وسائل حتیٰ کہ ان کی حاکمیت بھی اسرائیل کے پاس ہو۔
اسرائیلی جب حماس پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ اسرائیل پر راکٹ برساتے ہیں یا محاصرےسے بچنے کے لیے سرنگیں کھودتے ہیں تو یہ محض ایک دھوکا اور بہانہ ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امن کے عوض زمین واپسی کے اصول کے تحت فلسطینی سربراہ یاسر عرفات نے اسرائیل کو تسلیم کر کے امن کا سمجھوتا طے کیا تھا مگر اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین کی ایک انچ زمین بھی فلسطینیوں کو واپس نہیں کی بلکہ ارض فلسطین پر مستقل تسلط جمانے کے لیے بڑے پیمانے پر یہودی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا۔ اقوام متحدہ نے ان بستیوں کی تعمیر غیرقانونی قرار دی لیکن امریکا کی حمایت اور مدد سے بستیوں کی تعمیر مسلسل جاری رکھی گئی۔
اسرائیلی حکومت نے کئی حملوں میں غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف غیر روایتی اور غیر قانونی ہتھیاروں کا استعمال بھی کیا۔ اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ریچرڈ گولڈ اسٹون کی رپورٹ میں بھی اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ اسرائیل نے غزہ کے عوام کے خلاف سفید فاسفورس کے بموں کا استعمال کرتے ہوئے پناہ گزینوں کو امداد پہنچانے والی ایجنسیوں کے علاوہ القدس اور الوفا اسپتالوں پر بھی حملے کیے۔ اقوام متحدہ کے سکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی ان جارحانہ اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ غزہ کا بحران ایک انسانی المیہ ہے
، اس علاقے کی بنیادی تنصیبات کو تباہ کرنے بچوں اور عورتوں کے قتل عام سے یہ بحران ایک دردناک سانحے میں تبدیل ہوگیا ہے۔

دنیا کے نقشے پر پانچویں صدی سے بحیرہ روم اور دریائے اُردن کے درمیان موجود علاقہ، مستقل بنیادوں پر فلسطین کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مگر 25 جولائی 2016ء کو گوگل نے فلسطین کی تاریخی اور جغرافیائی حیثیت کو پس پشت ڈالتے ہوئے نیا نقشہ جاری کیا جس میں فلسطین کا وجود سرے سے غائب کرتے ہوئے غزہ اور فلسطین کی حدود کو اسرائیل کا حصہ دکھایا۔ امریکا نےآج تک نہ فلسطین کو بطور ملک تسلیم کیا اور نہ وہاں اپنا سفارتخانہ کھولا۔ امریکی سفارتخانہ صرف اسرائیل میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گوگل نے فلسطین کو دنیا کے نقشے سے ہٹا کر اس کو متنازع علاقے کے طور پر دکھایا۔ گوگل کی اس حرکت پر مسلم ممالک میں شدید غم و غصےکے جذبات کا اظہار کیا گیا۔ اس طرح کے سازشی ہتھکنڈے استعمال کرنے کے لیے اسرائیل نے ایک نیشنل انفارمیشن ڈاریکٹوریٹ قائم کر رکھا ہے جس کا رابطہ دنیا بھر کے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں تک پھیلا دیا گیا ہے۔ جونہی اسرائیل کسی علاقے میں حملہ کرتا ہے تو اس کے سفارتکاروں، صحافیوں، کالم نگاروں، بلاگرز اور حامیوں کے ذریعے ایسی خبریں پھیلائی جاتی ہیں کہ اسرائیل مظلوم دکھائی دینے لگے۔ مغرب کے تمام بڑےٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا، اسرائیل کے اس نظام کا حصہ ہیں اورسفارتی سطح پر بھی اسرائیل اور امریکا اکھٹے کام کرتے ہیں تاکہ اسرائیل کو فوجی اور مالی امداد جاری ر ہے۔
دسمبر 2017ء میں امریکی صدر نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان کو دنیا بھر میں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اقوام متحدہ میں امریکا کے اس اقدام کے خلاف قرار داد بھی منظور ہوئی۔ دوسری جانب امریکی سفارتخانے کی یروشلم منتقلی اور اس کے افتتاح کے لیے خاص طور پر 15 مئی کا دن مخصوص کیا گیا، کیونکہ اس دن اسرائیل کے قیام کو 70 برس مکمل ہورہے تھے اور اس تقریب میں شرکت کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صاحبزادی ایوانکا ٹرمپ خصوصی طور پر اپنے شوہر جیرڈ کشنر کے ہمراہ اسرائیل پہنچیں تھیں۔ ان کے وہاں پہنچنے سے قبل 14 مئی کو اسرائیلی سرحد سے ملحقہ غزہ پٹی پر 6 ہفتوں سے جاری احتجاج میں شدت آگئی تھی اور ہزاروں فلسطینی پر امن احتجاج کے لیے غزہ پٹی پر موجود تھے۔ اس پر امن احتجاج پر اسرائیلی فوج نے وحشیانہ فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں 62 فلسطینی جاں بحق اور 2700 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
اسرائیلی فوج کی نہتے فلسطینیوں پر وحشیانہ فائرنگ کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی تھی اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں احتجاج کیا گیا۔ اس کے علاوہ ترکی سمیت دیگر ممالک نے امریکا اور اسرائیل سے اپنے سفیروں کو احتجاجاً واپس بلا لیا جبکہ اقوام متحدہ کی جانب سے اس معاملے کی آزاد اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ تاہم امریکی مداخلت پر اس مطالبے کو روک دیا گیا۔ امریکا نے موقف اپنایا کہ اسرائیلی فوج نے اپنے دفاع کے لیے فائرنگ کی تھی۔
2018ء میں اسرائیلی فورسز نے 313 فلسطینیوں کی جان لی جن میں 8 ماہ کے بچے سے لے کر 74 سالہ بزرگ شامل تھے۔ 26اکتوبر 2018ء کو پرامن مظاہرین پر فائرنگ کرکےصہیونی افواج نے کئی افراد کو غزہ اور مغربی کنارے میں شہید کیا اور 100 سے زیادہ افراد کو زخمی کر ڈالا۔ اس کے جواب میں جب حماس نےاسرائیلی علاقے میں چند راکٹ داغے تو صہیونی افواج نے ٹینکوں سے پیش قدمی کی اور جنگی طیارے اور گن شپ ہیلی کاپٹر نے 2 گھنٹے سے زیادہ تک غزہ میں متعدد مقامات پر بم برسائے اور کئی عمارتوں کو نقصان پہنچایا جن میں حماس کی جنرل سیکورٹی کا 4 منزلہ ہیڈکوارٹر اور شمالی غزہ میں واقع انڈونیشیائی اسپتال بھی شامل تھا۔ اس پر عالمی عدالت نے اسرائیل کو متنبہ کیا کہ وہ مشرقی بیت المقدس کے نواحی قصبے خان الاحمر کو مسمار کرنے اور وہاں فلسطینی شہریوں کو ہجرت پر مجبور کرنے سے باز آئے لیکن صہیونی فوج اور پولیس نے اس تنبیہ کو بالائے رکھتے ہوئے مسلمان آبادی والے مقامات جیسےجبل المکبر، الخلیل، خان الاحمر وغیرہ میں لوگوں کو گھر وں سے باہر نکال کر بلڈوزرسے ایک ایک گھر کو مسمار کیا۔
اسرائیلی مظالم سے تنگ کچھ فلسطینی نوجوانوں نے اگست 2020ء میں غزہ سے کچھ غبارے ہوا میں چھوڑے جن میں آتشگیر مادہ نصب تھا۔ ان سے جنوبی اسرائیل میں کچھ مقامات آگ کی لپیٹ میں آئے۔ اسرائیل نے اس کے جواب میں بمباری کرکے غزہ میں حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ ماہی گیر کشتیوں کے سمندر میں جانے پر بھی پابندی عائد کی اور غزہ کے لیے تجارتی گزر گاہ پر انسانی ہمدردی کے امدادی سامان کو لے جانے سے بھی روک دیا۔ ایندھن کی فراہمی کے بغیر غزہ کا واحد پاور پلانٹ بھی بند ہو گیا جس سے اس علاقے کی 19 لاکھ آبادی صرف 8 گھنٹے فراہم ہونے والی بجلی سے بھی محروم ہو گئی۔
فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی مظالم اب نئی بات نہیں رہی۔ 1948ء سے لے کر آج تک 73 سالوں میں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب اسرائیلی حکومت نے نہتے فلسطینیوں پر کوئی حملہ نہ کیا ہو یا کسی کی جان نہ لی ہو۔ ہر روز کئی فلسطینی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہیں۔ اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں پر زندگی تنگ کردی ہے۔ آئے دن ان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جاتا ہے اور نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کو جیلوں میں ڈال کر ان پربدترین تشدد کیا جاتا ہے۔ اسرائیل کے اس تشدد سے بیت المقدس بھی محفوظ نہیں ہے۔ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بیت المقدس میں مسلمانوں کی آمد کو روکا جاتا ہے، وہاں پر عبادت کرنے والے مسلمانوں پر اسرائیلی پولیس اور یہودی شرپسند مل کر تشدد کرتے ہیں اور احتجاج کرنے پر مسلمانوں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے۔
دنیا بھر سے یہودی مسلسل آر ہے ہیں اور اسرائیل انہیں فلسطینیوں کی زمین پر آباد کرتا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کا علاقہ مسلسل سکڑتا جا رہا ہے۔ غزہ کی پٹی کا کل رقبہ 400 مربع کلومیٹر ہے اور اس میں 19 لاکھ فلسطینیوں کو قیدیوں کی طرح رکھا گیا ہے جن میں نصف سے زائد تعداد بچوں اور بوڑھوں کی ہے۔ ڈھائی لاکھ کے قریب لوگ پناہ گاہوں اور کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک طرف کھلےآسمان کے نیچے سائبانوں میں رہنے والے فلسطینی کورونا کی وبا سے جاں بحق ہو رہے ہیں اور دوسری طرف عالمی ادارہ خورک نے لاکھوں افراد کو بھوکا مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ علاج کی سہولتیں میسر نہ ہونے سے فلسطین کی کئی اہم شخصیات بھی کورونا سے ہلاک ہوچکی ہیں۔ اس کے ساتھ اسرائیلی مظالم ہیں کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتے۔ رات، دن فلسطینی بچوں اور عورتوں کے کانوں میں ڈرونز کی آوازیں گونجتی رہتی ہیں۔ ان لوگوں کو نہ اپنی سرحدوں پر کوئی اختیار ہے اور نہ ماہی گیری کے لیے سمندر تک رسائی حاصل ہے۔ وہ سرنگیں اور سڑکیں بھی تباہ کر دی گئی ہیں جن کے ذریعے مصر اور دوسرے ممالک سے اہلیان غزہ کو کھانے پینے کی اشیا، ادویہ اور ضروریات زندگی بھجوائی جاتی تھیں۔ اسرائیل کھلے عام انسانی حقوق کو پامال کر رہا ہے لیکن عرب و مسلم ممالک کے حکمران خاموش تماشائی ہیں اورعالمی ضمیر سو رہا ہے۔
جتنے امریکی صدور نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن سمجھوتوں کی نام نہاد کوششیں کیں، ان کی حیثیت محض دکھاوے سے زیادہ نہیں تھی کیونکہ اسرائیل ان میں سے کسی سمجھوتے کے لیے بھی آمادہ نہیں تھا۔ اسرائیل کسی صورت میں فلسطین پر اپنا تسلط ختم کرنا نہیں چاہتا۔ خاص طور پر گولان کی پہاڑیوں پر جو دریائے اُردن کے پانی کا منبع ہے۔
امریکا کی طرح اکثر یورپی ممالک بھی اسرائیل کے بارے میں رویہ رکھتے ہوئے درپردہ یہ چاہتے ہیں کہ مغرب میں جو یہودی باقی رہ گئے ہیں وہ بھی اسرائیل جا کر آباد ہو جائیں۔ نیز یورپی ممالک مشرق وسطیٰ کو اپنی نوآبادیات کی طرح ہی اثر و رسوخ میں رکھتے ہوئے توانائی کے ذرائع پر قابض رہنا چاہتے ہیں۔ غزہ کے قریب دریافت ہونے والے قدرتی گیس کے نئے ذخائر کی وجہ سے مغربی ممالک، اسرائیل کو غزہ کی پٹی پر غاصبانہ قبضے کو مضبوط بنانے کا جواز فراہم کر رہے ہیں۔ اسرائیل نے پہلے ہی سے فلسطینی اتھارٹی کی زمین، پانی، ساحل، سمندر، ہائیڈروکاربن، غرض تمام قدرتی وسائل کو اپنے اختیار میں رکھا ہوا ہے اور بین الاقوامی قوانین کو پیروں تلے روند رہا ہے۔ یہ ظلم کی انتہاہے کہ غاصب صہیونی ریاست تمام حدوں کو پارکرتے ہوئےجبر اور دہشت گردی کے ہر حربے اورہتھکنڈے کو بے آسرا فلسطینیوں پر آزما رہی ہے۔ مگر حقوق انسانی کے نام نہاد علمبرداروں کی زبانیں نہیں کھل رہی ہیں کہ وہ غاصب اسرائیلی ریاست سے پوچھیں کہ اس کے پاس اس ظلم، جارحیت، قتل قتل اوردہشت گردی کا کیا جواز ہے؟