ترکی کے خلاف عالمی سازشیں شروع

643

مشرقی بحیرہ روم میں انقرہ پرغیرمعمولی دباؤہے اوراسے مستقبل قریب میں الگ تھلگ پڑجانے کے خدشے کابھی سامنا ہے، تاہم اگراس کی حکمتِ عملی کامیاب رہی تویونان کی حکمتِ عملی پسپا بھی ہو سکتی ہے۔ یونان کے وزیراعظم کاریاکوزمٹسوٹاکس نے حال ہی میں جرمن اخبار ’’فرینکفرٹرالگنامائن زائٹنگ‘‘ میں اپنے ایک مضمون میں ترکی کومشرقی بحیرہ روم کے خطے میں معاملات کوخراب کرنے والاملک بتاتے ہوئے یورپی یونین کے لیے ایک بڑاخطرہ قراردیا ہے۔ یونانی وزیراعظم نے صدر رجب طیب اِردوان کوایک ایسی شخصیت کے روپ میں پیش کرنے کی کوشش کی، جواپنے مفادات کی تکمیل کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے جبکہ یہ حقیقت کے سراسرمنافی ہے۔ سب سے بڑھ کریہ کہ یونانی وزیراعظم نے پناہ گزینوں کے 5 سال پرانے مسئلے کو چھیڑکر یورپی یونین میں دائیں بازوکی انتہا پسندی اوراسلاموفوبیاکوہوادینے اورمعاملات کوالجھانے کے سواکچھ نہیں کیا۔
یونانی وزیراعظم نے ہرزہ آرائی کرتے ہوئے مزید لکھاکہ ترکی نے 2020ء کے اوائل میں پناہ گزینوں کویونان بھیجاتاکہ فضاکشیدہ کی جاسکے اور دوسری طرف لیبیاسے ایک بحری معاہدہ بھی کیا، اوریہ کہ ایسا معاہدہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا کیوں کہ ترکی جغرافیائی طور پر

لیبیا کا ہمسایہ نہیں۔ یونانی وزیراعظم نے ترکی پر1974ء سے قبرص کے شمالی حصوں پرقابض رہنے کاالزام بھی عائدکیا۔
زہر اگلتے ہوئے یونانی وزیراعظم یہ بھول گئے کہ انہوں نے رواں سال کے اوائل میں یونان میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے پناہ گزینوں کودیکھتے ہی گولی ماردینے کاحکم دیاتھااوریہ وہی ہیں جنہوں نے ترکی اوریونان کے درمیان واقع ایسے تمام جزائرپرعسکری موجودگی یقینی بنانے کی کوشش کی ہے، جنہیں 1923ء کے معاہدہ لوزین اور1947ء کے معاہدہ پیرس کے تحت عسکری موجودگی سے پاک رکھاجاناہے۔
یونان کی ریاست اپنے زیرتصرف قبرص اور عالمی طاقتوں کوعلاقے میں فوجی اڈے قائم کرنے پراکساتی ہے۔ عہدِعثمانیہ کی تعمیرکی ہوئی مساجد کوبیت الخلامیں تبدیل کرتی ہے، ایتھنز میں مسجد قائم کرنے کی مخالفت کرتی ہے اورمغربی تھریس کے ترکوں پرزوردیتی ہے کہ وہ اپنی شناخت چھوڑکرمغربیت میں گم ہو جائیں۔ ویسے معاہدہ پیرس کے تحت مغربی تھریس کے ترکوں کومکمل عالمی تحفظ حاصل ہے۔ یہ وہی یونانی قائدین ہیں، جوپناہ گزینوں کوشدیدغیرانسانی حالات میں رکھنے کی وکالت کرتے ہیں اور ایاصوفیہ کودوبارہ مسجدمیں تبدیل کیے جانے پرترکی کاپرچم نذرِآتش کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی لازم ہے کہ یونانی قبرصیوں کی جانب سے جزیرے میں آبادترکوں کاقتلِ عام روکنے کے لیے 1974ء میں ترکی کی طرف سے کیے گئے آپریشن کویونان کی کورٹ آف اپیل نے1979ء میں بالکل درست قرار دیا تھا۔ مزید برآں، ترکی نے رواں سال کے اوائل میں پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحد یورپی یونین کومشتعل کرنے کے لیے نہیں کھولی تھی بلکہ اس کا مقصدبرسلزکواحساس دلاناتھاکہ شام کے معاملے میں اس کے فیصلے اوراقدامات انتہائی ناموافق تھے۔ ساتھ ہی یورپی یونین کوبھی یاددلاناتھاکہ اس نے اپنے حصے کے فنڈفراہم نہیں کیے،جس کے نتیجے میں پناہ گزینوں کابوجھ ترکی کوتنہا برداشت کرنا پڑاہے۔
یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ جرمن اخبارمیں یونان کے وزیراعظم کامضمون سیاسی مقصدکے تحت تھا، یعنی اس لیے کہ جرمنوں کی حمایت حاصل ہوسکے۔یونانی قبرص کے صدر نکوس اینسٹاسیاڈیس نے بھی حال ہی میں جرمن اخبار’’ڈائی ویلٹ‘‘میں ایک مضمون لکھاتھا،جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ یونانی قبرص کی انتظامیہ کومشرقی بحیرہ روم کے خطے میں ترکی کے ہاتھوں جرائم کاسامناہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
یونان کے وزیراعظم نے اپنے مضمون میں بعض تکنیکی اصلاحات دانستہ استعمال کیں تاکہ معاملے کوالجھاکرپیش کیاجائے۔ اس سے ان کے اندازِقیادت اور قائدانہ صلاحیت کابھی اندازہ لگایا جا سکتاہے اوریہ بھی دیکھاجاسکتاہے کہ وہ کس حدتک دھوکادینے پریقین رکھتے ہیں۔ یونان مشرقی بحیرہ روم کے خطے میں گزشتہ چندماہ سے فرانسیسی صدر عمانویل ماکروں، امریکا، اسرائیل اور یونانی قبرص کی انتظامیہ کے ساتھ مل کرخفیہ کھیل میں مصروف ہے۔
عرب دنیا میں بیداری کی لہراورترکی میں2016ء کی ناکام فوجی بغاوت کے بعدامریکاعظیم ترمشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے اپنے منصوبے کوعملی جامہ پہنانے میں ناکام رہاتھا۔ واشنگٹن اب ٹرمپ انتظامیہ کی ’’ڈیل آف دی سینچری‘‘ کے ذریعے پورے خطے کی نئے سرے سے ڈیزائننگ چاہتا ہے۔ اس حوالے سے ٹرمپ کوامن کے نوبل انعام کے لیے نامزدبھی کیاجاچکاہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ یہ خبرذرابھی حیرت انگیزنہیں۔ مشرق وسطی کے لیے نئے امن منصوبے کے تحت پہلے مرحلے میں فلسطین کاالحاق کیاجا چکاہے۔اس کے بعدخطے کے چند بڑے ممالک نے امریکاکے واضح اثرورسوخ کے تحت مقبوضہ بیت المقدس کواسرائیل کا دارالحکومت بھی تسلیم کیاہے۔اپنے سیاسی مقاصدکے تحت اورموسادکے منصوبوں کے ساتھ اسرائیلی حکومت بلقان، خطہ خلیج اورشمالی افریقا کو جیتنا چاہتا ہے۔ دلچسپ اورحیرت انگیزبات یہ ہے کہ یہ تینوں خطے ماضی کی سلطنتِ عثمانیہ کاحصہ تھے۔
متحدہ عرب امارات اوربحرین نے اسرائیل کوباضابطہ طورپرتسلیم کرلیاہے۔اب خلیج کی دیگرریاستیں بھی ایساہی کریں گی اور ممکنہ طورپرسربیااورکوسووبھی خلیجی ریاستوں کے نقشِ قدم پرچلنے والے ہیں۔ خلیج فارس اوربلقان کے خطے کی ریاستیں امریکاکی بات ماننے پرمجبورہیں کیوں کہ یورپی یونین نے بالعموم اورفرانس سے مفادات کے ٹکراوکے بعدجرمنی نے بالخصوص دونوں خطوں کونظر انداز کیا ہے۔ اسرائیل اب اس خطے میں کھل کرسامنے آرہا ہے۔ وہ اپنی سیاسی وعسکری طاقت میں اضافے کے ساتھ نئی شناخت چاہتاہے اورنئی حکمتِ عملی کے تحت اس خطے میں زیادہ اثرورسوخ بھی چاہتا ہے۔ اسرائیل خطے کے مسلم ممالک سے تعلقات کومعمول کی سطح پرلاکرثابت کرناچاہتاہے کہ فلسطین کوضم کرکے وہ کچھ غلط نہیں کررہا۔ دوسری طرف اسرائیل سابق سلطنتِ عثمانیہ کے پرچم تلے رہنے والے علاقوں میں ترک اثرونفوذختم کرنااورخطے کے ممالک کوترکی کے مقابل کھڑاکرکے اسے الگ تھلگ کرناچاہتاہے۔
اسرائیلی قیادت، امریکا، یونان، یونانی قبرص کی انتظامیہ اورکسی حدتک مصرکی مددسے جوکچھ بھی کرنے کے موڈمیں ہے، وہ یونانی وزیراعظم کے جرمن اخبارمیں شائع ہونے والے مضمون سے بھی بالکل واضح ہے۔ خطے کے ممالک سے تعلقات معمول پرلاکراسرائیل ذرائع نقل وحمل اورلاجسٹکس کے حوالے سے نئے روٹس تلاش کررہاہے۔اسے ایک بڑی مارکیٹ میں اپنامال بیچنے کاموقع بھی ملے گااورسب سے بڑھ کریہ کہ علاقائی بالا دستی کااس کاخواب کسی حدتک شرمندہ تعبیرہورہے گا۔مشرقی بحیرہ روم کے خطے سے اسرائیل جو قدرتی گیس حاصل کرتاہے،اس کی فروخت کے لیے اسے خطے میں کئی ممالک سے معمول کے تعلقات درکارہیں۔ترکی اورلیبیاکے درمیان معاہدہ طے پاجانے کے بعداسرائیل اب ایسٹ میڈ پائپ لائن کے ذریعے قدرتی گیس کی ترسیل نہیں کرسکتا۔
اگر یہ سازش کامیاب رہے تو اسرائیل علاقائی طاقت بن کرابھرسکتا ہے اورشام ولبنان میں اپنے اثرات کادائرہ وسیع کرسکتا ہے۔ یوں ان ممالک میں اپنے کٹردشمن ایران کی موجودگی کی صورت میں جوخطرات موجود ہیں ان سے زیادہ خوف کھانے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔اسرائیل ایک طرف ایران کومشرق وسطیٰ میں اپناسب سے بڑادشمن ٹھہرا کر اور دوسری طرف ترکی کو(سلطنتِ عثمانیہ کے احیاکی دیوانگی کے الزام تلے) اکیسویں صدی میں مشرقی بحیرہ روم کی جیوپالیٹکس کاسب سے بڑا ہدف بناناچاہتاہے۔اس حوالے سے اسرائیل کے خفیہ ادارے موسادنے گمراہ کن رپورٹس کوپھیلاناشروع کردیاہے۔ ترکی کے بارے میں بے بنیادطورپرکہاجارہاہے کہ وہ مصر کے علاوہ بلقان کی ریاستوں کے گرد گھیراتنگ کرناچاہتا ہے۔
فرانس نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ یورپی یونین کوامریکاکے مضبوط ترین حریف کی حیثیت سے سامنے لائے۔ فرانس نے ایک طرف توانگریزی سے دوررہنے کی روش اپنائی ہے اوردوسری طرف وہ علاقائی طاقت کی حیثیت بھی اختیارکیے ہوئے ہے۔ افریقاکے جوممالک فرانس کی نوآبادی رہ چکے ہیں، ان میں فرانس نے مالیاتی معاملات میں اپنی بات منوانے کی کوشش کی ہے اوراس میں بہت حدتک کامیاب بھی رہا ہے۔ معاہدہ شمالی بحراوقیانوس کی تنظیم نیٹوکے متبادل کے طورپر مشترکہ دفاعی نظام کے منصوبے ’’دی پرماننٹ اسٹرکچرڈ کوآپریشن پیسکو) کے ذریعے فرانس یورپی یونین کوایک واضح نئی شکل دینا چاہتا ہے۔ اب اگراس عمل میں جرمنی داؤپرلگتاہے تولگ جائے۔ فرانس نے مشرقی بحیرہ روم کی نشاندہی کرکے ایک ایسی مشترکہ یااتحادی فوج تیارکرنے کی ضرورت پرزوردیاہے،جوکسی بھی خرابی کوتیزی سے دورکرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
ترکی چونکہ نیٹوکارکن ہے، اس لیے فرانس اچھی طرح جانتاہے کہ وہ ترکی کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے سکتااوریہ بھی کہ ترکی کوبین الاقوامی معاہدوں کے تحت خاصااستحکام حاصل ہے اوریہ حقیقت بھی نظراندازنہیں کی جاسکتی کہ ترک فوج غیر معمولی مضبوط اورمستعد ہے۔ ترکی کوعشروں سے جاری لڑائی میں پی کے کے جیسی دہشت گردتنظیم کے خلاف فتح یقینی بنانی ہے۔ اس دہشت گردتنظیم کومغربی طاقتوں کی واضح حمایت ومددحاصل ہے۔
فرانسیسی قیادت نے بھی ماضی کوذہن سے کھرچ کرپھینکانہیں ہے۔ اگست میں جب لبنان کی بندرگاہ پردھماکے ہوئے تھے، تب فرانس نے آگے بڑھ کرمیڈیامیں خودکونجات دہندہ کے طورپرپیش کیا۔ تب فرانس کی استعماری سوچ بے نقاب ہوئے بغیرنہ رہ سکی۔فرانس لبنان میں داخل ہوکراسرائیل کے سخت حریف بشار الاسد کو زیراثرلیناچاہتاہے تاکہ حزب اللہ ملیشیاکوکنٹرول کرکے لبنان سمیت پورے خطے میں ایران کا اثرونفوذکم کیاجاسکے۔ ساتھ ہی وہ خطے میں یورپی یونین کی فوج تعینات کرکے ترکی پربھی دباؤبڑھاناچاہتاہے۔
اس سلسلے میں پہلاقدم طیارہ بردارجہازچارلس ڈیگال کومشرقی بحیرہ روم میں تعینات کرکے یونان اوریونانی قبرص کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں کااہتمام اوریونانی قبرص کے نزدیک فریگیٹس کی مستقل تعیناتی ہے۔ فرانسیسی صدر عمانویل ماکروں نے حال ہی میں اپنی ایک تقریرمیں کھل کرکہاکہ وہ صدر اِردوان کو تنہا کرناچاہتے ہیں۔ یہ بات انتہائی لغواورفرانس کی برتری پسندذہنیت کی عکاس ہے۔
سب سے بڑھ کریہ کہ فرانس قبرص کے علاقے میں بھی دکھائی دینے کی کوشش کررہاہے جبکہ وہ قبرص کے معاملے میں ضامن کادرجہ رکھتاہے، نہ اس کی سمندری سرحدقبرص سے ملتی ہے۔ امریکا کی طرح فرانس کابھی اس خطے کے معاملات سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یونان اوریونانی قبرص چونکہ یورپی یونین کے ارکان ہیں، اس لیے صرف یورپی یونین اس خطے کے معاملات درست کرنے ک لیے کچھ کرسکتی ہے۔ ماکروں اورجرمن چانسلر انجیلا مرکل کے درمیان پالیسی کے حوالے سے شدید اختلافات پائے جاتے ہیں، اس لیے یورپی یونین کے لیے فی الحال مشرقی بحیرہ روم کے حوالے سے کوئی جامع پالیسی متعین کرنا ممکن نہیں۔فرانس اس معاملے میں اپنے مفادات کے تحت کوئی علاقائی پالیسی یقینی بنانے کی پوزیشن میں نہیں۔ ہاں،فرانس کی امنگیں خطے میں کشیدگی کم کرنے کی کوششوں کی راہ میں رکاوٹ ضرورہیں توپھرحل کیاہے؟
یہ حقیقت تواب واضح ہے کہ امریکا، اسرائیل، فرانس، یونان اور یونانی قبرص مل کرترکی کواس کے تمام حقوق سے دست بردار کرکے الگ تھلگ کرناچاہتے ہیں اورساتھ ہی مشرقی بحیرہ روم کے قدرتی وسائل میں اس کے حصے کی بھی نفی کرنا چاہتے ہیں۔ اب ترکی کے سامنے تین راستے ہیں۔
پہلا راستہ: ترکی کومصرکے ساتھ سمندری حدودکامعاہدہ کرلینا چاہیے۔ ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبروں سے پتا چلتا ہے کہ مصری خفیہ ادارے نے عندیہ دیا ہے کہ مصرکی قیادت ایسے کسی بھی معاہدے کے لیے تیار ہے۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے لیے سودمندثابت ہوگا۔
دوسراراستہ: روس اورایران کی مددسے شام کے بحران کاجامع اورقابلِ قبول حل تلاش کیاجائے اوردمشق سے تعلقات معمول پر لائے جائیں۔
تیسراراستہ: روس، ترکی اور ایران کوباہمی تعاون شام تک ہی نہیں بلکہ مشرقی بحیرہ روم تک پھیلاناپڑے گا۔ بالخصوص توانائی اورسلامتی کے حوالے سے۔
اگرترکی نے معاملات کو اپنی بہترین حکمت عملی سے نمٹانے کی کوشش نہ کی توعالمی برادری میں الگ تھلگ پڑجانے کاخدشہ بھی ہے، جیسا کہ 1915ء میں آرمینیائی الزامات کے تحت ہوا تھا۔ یہ الزامات بھی مغرب کے گھڑے ہوئے تھے۔ اگر ترکی کامیاب ہوکرابھراتومشرقی بحیرہ روم میں گریک کامیڈی کاخاتمہ ہوگا اور گریک ٹریجڈی کوراہ ملے گی۔