بھارت دہشت گردوں کا سرپرست بی بی سی

760

مالیاتی جرائم کی تحقیقات کرنے والے امریکی ادارے (فن سین) کی خفیہ دستاویزات منظر عام پر آنے کے بعد سے مختلف ملکوں میں اس پر بات ہو رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ امریکی محکمہ خزانہ کی فن سین فائلز نے انڈیا کی منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ اس سلسلے میں اب ’’ایف اے ٹی ایف کہاں ہے؟‘‘ بھارت کو کالعدم سرگرمیوں کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟‘‘ اسی طرح عالمی اداروں سے بھارتی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے علاقائی دہشت گردی کا نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔
بھارتی بینکوں پر ’مشکوک لین دین‘ میں ملوث ہونے کا الزام
حال ہی میں بھارت کے اخبار ’’دی انڈین ایکسپریس‘‘ کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بھارتی بینکوں کی مدد سے رقوم کی منتقلی کے ذریعے منی لانڈرنگ اور دیگر مالی جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ رپورٹ کی تفصیلات کے مطابق امریکی حکام کو کم از کم 44 بھارتی بینکوں کی مشکوک ادائیگیوں سے مطلع کیا گیا۔ 2011ء سے 2017ء کے دوران 2 ہزار سے زیادہ لین دین کے واقعات میں مجموعی طور پر ایک ارب ڈالر سے زیادہ رقم کی مشکوک منتقلی کی گئی ۔ بھارتی اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس مشکوک لین دین میں کئی بھارتی بینک، کمپنیاں اور کاروباری شخصیات ملوث تھیں۔
بھارتی بینک امریکی ڈالر میں رقم منتقل کرنے کی نگرانی اور منظوری کے لیے بڑے امریکی بینکوں پر انحصار کرتے ہیں۔ اس سروس کو ’’کارسپونڈنٹ بینکنگ‘‘ کہتے ہیں۔ بین الاقوامی لین دین کے لیے مقامی بینک کو غیر ملکی بینکوں (کارسپونڈنٹ بینک) سے رابطہ قائم کرنا ہوتا ہے۔ کارسپونڈنٹ بینک کے لیے حکام کو الرٹ کرنا لازم ہوتا ہے اگر وہ جرائم کی کسی ممکنہ سرگرمی کا علم رکھتے ہوں، جیسے منی لانڈرنگ یا دہشت گردی کی مالی معاونت۔ یہ کرنے کے لیے انہیں سسپیشیئس ایکٹیویٹی رپورٹ (ایس اے آر) نامی دستاویزات درج کرنی ہوتی ہیں۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ میں کئی ایس اے آرز کا ذکر کیا گیا ہے جن میں ’’منی لانڈرنگ کا بڑا خطرہ، دوسرے مالی جرائم، نامعلوم فریق، پیسوں کے ذرائع اور رقم کی منتقلی کی وجہ غیر واضح ہونا‘‘ جیسی شکایات شامل ہیں۔ اخبار نے بینکوں کا موقف جاننے کے لیے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا تھا۔ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے ترجمان نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ ’’رازداری کے قوانین کی وجہ سے ایس اے آر سے متعلق درخواست کردہ معلومات بینک کے پاس موجود نہیں ہے۔‘‘ اس خبر میں بھارتی بینکوں میں سے پنجاب نیشنل بینک، اسٹیٹ بینک آف انڈیا، بینک آف برودا، یونین بینک آف انڈیا اور کنارا بینک کے نام لیے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ فن سین فائلز کے مطابق متحدہ عرب امارات کا مرکزی بینک (سینٹرل بینک) ایران پر عائد پابندیوں کے باوجود اس سے لین دین روکنے میں ناکام رہا تھا اور بی بی سی کی جانب سے رابطہ کرنے پر سینٹرل بینک نے جواب نہیں دیا تھا۔
فن سین فائلز کیا ہیں؟
فن سین کی خفیہ دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ کس طرح بڑے بینکوں نے مجرموں کو جرائم سے حاصل ہونے والا پیسہ دنیا بھر میں منتقل کرنے میں مدد دی۔ ان دستاویزات سے یہ بھی سامنے آیا کہ کیسے برطانیہ کو اکثر مالیاتی نظام کی کمزور کڑی سمجھا جاتا ہے اور کیسے لندن روسی دولت سے بھرا ہوا ہے۔
یہ فائلز میڈیا ادارے بزفیڈ نیوز نے حاصل کیں جس نے انہیں انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹیو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) اور دنیا بھر میں 400 صحافیوں تک پہنچایا۔ ان دستاویزات سے یہ بھی علم ہوا کہ کس طرح روسی حکومت کے اراکین نے بینکوں کا استعمال کرتے ہوئے ان پابندیوں سے خود کو بچایا جو انہیں اپنی دولت مغرب بھیجنے سے روکتی تھیں۔ فن سین فائلز 2657 لیک شدہ دستاویزات ہیں، جن میں 2100 دستاویزات مشتبہ سرگرمیوں کے بارے میں رپورٹس یا ایس اے آر ہیں۔ ان میں سے بیشتر وہ فائلیں تھیں جنہیں مختلف بینکوں نے 2000ء سے 2017ء کے درمیان امریکی حکام کو بھجوایا تھا اور جن میں ان کے صارفین کے مالی معاملات کے متعلق تحفظات اٹھائے گئے تھے۔ ان دستاویزات میں بین الاقوامی بینکاری نظام کے انتہائی اہم اور خفیہ راز تھے۔
فن سین فائلز سے کچھ ثابت ہوتا ہے؟
آئی سی آئی جے کا کہنا ہے کہ ایس اے آر سے مراد ممکنہ غیر قانونی سرگرمی ہوتا ہے اور اسے قانون کی خلاف ورزی کے ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ ایس اے آر کسی غلط کام کا ثبوت نہیں ہوتیں۔ بینک یہ رپورٹس حکام کو اس وقت بھیجتے ہیں جب اننہیں یہ شک ہوتا ہے کہ ان کے صارف کچھ غلط کر رہے ہیں۔ قانون کے تحت ان کے علم میں ہونا چاہیے کہ ان کے کلائنٹس کون ہیں، صرف ایس اے آر فائل کرتے رہنا اور کلائنٹس سے جرائم کے پیسے لیتے رہنا کافی نہیں ہے کیونکہ اس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے یہ امید باندھ لی جاتی ہے کہ وہ مسئلے سے خود ہی نمٹ لیں گے۔ اگر بینکوں کے پاس مجرمانہ سرگرمی کا ثبوت ہو تو انہیں رقم کی منتقلی کو روکنا ہوتا ہے۔
لیک دستاویزات سے علم ہوتا ہے کہ کس طرح دنیا کے سب سے بڑے بینکوں کے ذریعے ممکنہ طور پر کالا دھن سفید کیا گیا اور کیسے مجرموں نے گمنام برطانوی کمپنیوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنا پیسہ چھپایا۔ یاد رہے کہ آئی سی آئی جے وہی تنظیم ہے جس نے پاناما پیپرز اور پیراڈائز پیپرز پر رپورٹنگ کی قیادت کی تھی جن میں دولتمند اور مشہور لوگوں کی بیرونِ ملک مالیاتی سرگرمیوں کے بارے میں خفیہ دستاویزات سامنے آئی تھیں۔
فن سین کن الفاظ کا مخفف ہے؟
فن سین کا مطلب امریکی فنانشل کرائمز انفورسمنٹ نیٹ ورک ہے۔ یہ محکمہ امریکی وزارت خزانہ میں مالی جرائم کی روک تھام کرتا ہے۔ اگر دنیا بھر سے امریکی ڈالر میں کی گئی کسی مالی ٹرانزیکشن پر شبہ یا تحفظات ہوں تو اس کی تفصیل فن سین کو بھیجی جاتی ہے۔ مشکوک سرگرمی رپورٹ یا سسپشیس ایکٹیوٹی رپورٹ (ایس اے آر) اس کی ایک مثال ہے جس کے ذریعے ان تحفظات کا اندراج رکھا جاتا ہے۔ اگر بینک کو اپنے کسی کھاتے دار

کے مالی معاملات پر شبہ یا تحفظات ہوں تو وہ اس کے لیے ضروری ہے کہ صارف کی ٹرانزیکشنز کی تفصیل لکھ کر حکام کو بھجوائی جائیں۔
کنسورشیم سے تعلق رکھنے والے فرگوس شیل کا کہنا ہے کہ فن سین فائلز اس بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں کہ بینکوں کو دنیا بھر میں منتقل ہوتے ہوئے کالے دھن کے بارے میں کیا کیا معلوم ہوتا ہے۔ جس نظام کو کالے دھن کی منتقلی روکنی ہے وہی نظام خامیوں کا شکار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لیک ہونے والی دستاویزات سے علم بھی ہوتا ہے کہ اس عمل میں غیر معمولی طور پر بڑی رقم کی ٹرانزیکشنز شامل ہیں۔ لیک ہونے والی ان رپورٹس میں تقریباً 20 کھرب (دو ٹریلین) ڈالر کی لین دین کا احاطہ کیا گیا ہے جو کہ اس عرصے کے دوران جمع کروائی گئیں ایس اے آر رپورٹس کا ایک معمولی حصہ ہیں۔