اسرائیلی مقاصد کے لیے امریکی پھرتیاں

246

منیب حسین

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے گزشتہ ماہ اپنے 5 روزہ دورۂ مشرقِ وسطیٰ کے دوران اسرائیل، سوڈان، بحرین، متحدہ عرب امارات اور سلطنت عمان میںمیں اہم ملاقاتیں کیں۔ اس دوران ہونے والی پریس کانفرنسوں اور اعلامیوں میں حسب توقع (اسرائیلی خطرے کو نظر انداز کرکے) ’’خطے میں ایرانی خطرے‘‘ کی بازگشت سنائی دیتی رہی جب کہ حقیقت میں امریکی وزیر خارجہ کی اس آمد کا مقصد باقی ماندہ عرب ممالک کے لیے اسرائیل کو قابل قبول بنانا تھا۔ یہ ڈھکا چھپا معاملہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو باضابطہ تسلیم کرنے سے متعلق اعلان کے بعد ذرائع ابلاغ میں کھل کر سامنے آ گیا ہے۔
اسرائیل میں مائیک پومپیو نے صہیونی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو، شریک اقتدار دوسرے بڑے سیاسی رہنما ووزیر دفاع بینی گینٹس اور اپنے ہم منصب گبی اشکنازی سے ملاقاتیں کیں۔ اس دوران اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے متحدہ عرب امارات کے اعلان کردہ معاہدے، ابوظبی کو ہتھیاروں کی فراہمی اور ایران کے مسئلے پر بات ہوئی۔ امریکی وزیر خارجہ اس کے بعد تل ابیب سے براہِ راست پرواز پر سوڈان کے دارالحکومت خرطوم پہنچے۔ (یہ دونوں شہروں کے درمیان پہلی براہِ راست پرواز تھی، کیوں کہ سوڈان عمر البشیر کے دور سے اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا)۔ جب کہ امریکا نے سوڈان پر پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔ بعد ازاں سوڈانی وزیراعظم عبداللہ حمدوک ملاقات کے حوالے سے وضاحت پر مجبور ہوئے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور پابندیوں کے معاملے کو الگ رکھا جائے۔
پومپیو کی تیسری منزل بحرین کا دارالحکومت منامہ تھا، جہاں انہوں نے شاہ حمد بن عیسیٰ الخلیفہ سے ملاقات کی۔ اس موقع پر بھی ایران کا مبینہ خطرہ موضوع رہا، اگرچہ بحرین اسرائیل تعلقات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس کے بعد امریکی وزیر خارجہ متحدہ عرب امارات پہنچے، جہاں انہوں نے اپنے ہم منصب عبداللہ بن زاید النہیان اور قومی سلامتی کے مشیر طحنون بن زاید النہیان سے ملاقات کی۔ اس دوران بھی خطے میں مبینہ ایرانی خطرے کے ساتھ لیبیا کی خانہ جنگی پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، جب کہ اسرائیل کے ساتھ امارات کے تعلقات سے متعلق معاہدے اور ابوظبی کو ہتھیاروں خاص طور پر امریکی لڑاکا طیارہ ایف 35 دینے پر بھی بات کی گئی۔ پھر انہوں نے مسقط میں شاہ عمان سلطان ہیثم بن طارق السعید سے ملاقات کی۔
مائیک پومپیو کے اس دورے کے دوران زیادہ شور ایران سے کشیدگی کا سنائی دیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا بنیادی مقصد 13 اگست 2020ء کو اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام سے متعلق اعلان کے تناظر میں تھا۔ واضح رہے کہ کئی اسلامی ممالک میں سرکاری اور مختلف سطحوں پر امارات اسرائیل تعلقات کو غیر اہم ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جو مسلمانوں کو دھوکا دینے کے سوا کچھ نہیں۔ اس معاہدے کا نام ہی ایک بڑے خطرے کا پتا دیتا ہے۔ ’’معاہدہ ابراہیمی‘‘ کو درحقیقت حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منسوب کیا گیا ہے، جو ان کے نام لیوا تینوں آسمانی مذاہب کو ایک کرنے کی جانب بھی اشارہ ہے۔ خیال رہے کہ وحدتِ ادیان کے صہیونی ایجنڈے کی خطے میں قیادت متحدہ عرب امارات کے پاس ہے اور ابوظبی میں ’’ابراہیمی گھر‘‘ کے نام سے ایک احاطہ بھی تعمیر کیا جارہا ہے، جس میں ایک ہی طرز کی مسجد، چرچ اور ہیکل ہوگا۔
اس معاہدے کے نتیجے میں اگرچہ متحدہ عرب امارات اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا عرب ملک نہیں ہے، کیوں کہ اس سے قبل مصر اور اردن صہیونی ریاست کو تسلیم کرچکے ہیں، لیکن اس اقدام کے ذریعے دیگر عرب اور خلیجی ممالک کو حوصلہ فراہم کیا گیا ہے کہ وہ امریکی منشا کے مطابق ارضِ فلسطین پر قائم اس غاصب ملک کو قبول کریں۔ مصر اور اردن کے اس بے حس اقدام کے بعد عوامی دباؤ کے باوجود کسی اسلامی ملک میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے یا اس سے تعلقات قائم کرنے کا سوچے، لیکن متحدہ عرب امارات کا یہ فیصلہ ایک ایسے دور میں کیا گیا ہے، جب اسلامی ممالک کی حکومتیں اپنے ذرائع ابلاغ خاص طور پر سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اس قسم کی خیانتوں کو ملمع سازی کے ساتھ مسلمان عوام میں قابل قبول بنانے میں مصروف ہیں، اس لیے یہ ایک خطرناک اقدام ہے۔
صہیونی ریاست کو تسلیم کرنا اسلامی نقطۂ نظر سے ایک سنگین ملی جرم ہونے کے ساتھ اخلاقی طور پر بھی ایک گھناؤنا جرم ہے۔ اسرائیل کا قیام فلسطینیوں کی تاریخی سرزمین پر برطانوی قبضے کے نتیجے میں عمل میں آیا۔ سامراج نے بڑے یہودی ساہوکاروں کے ایما پر مشرق وسطیٰ میں یہود کو وطن دیا تھا، لہٰذا ہمیں قبضے اور حق کے درمیان واضح فرق کو سمجھنا ہوگا۔