امریکا: سیاہ فام کا مطلب سزائے موت؟

364

انٹرنیشنل ڈیسک
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام شخص کی گردن دبوچنے کی وڈیو منظر عام پر آنے اور بعد ازاں پولیس حراست میں اس کی ہلاکت کے بعد منیاپولس سمیت کئی شہروں سے شروع ہونے والا احتجاج اب کئی ریاستوں میں پھیل چکا ہے جبکہ اس دوران مشتعل مظاہرین نے اہم مقامات اور عمارتوں پر پتھراؤ کے علاوہ نذر آتش کرکے تباہ کردیا ہے۔ملک بھر میں پولیس کے نسل پرستانہ رویے کے خلاف سڑکوں پر شدید غم و غصے کی صورت حال واضح دکھائی دے رہی ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر وائرل ہونے والے وڈیو کلپ میں ایک سفید فام پولیس افسر ایک غیر مسلح جارج فلوئیڈ نامی سیاہ فام شخص کی گردن دبوچے یعنی اس پر پورے وزن کے ساتھ گھٹنے ٹیکتا ہوا نظر آتا ہے اور واقعے کے چند منٹ بعد 46 سالہ جارج فلوئیڈ ہلاک ہو جاتا ہے۔ وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جارج اور اس کے آس پاس موجود لوگ پولیس افسر سے اسے چھوڑنے کی التجا کر رہے ہیں۔ خود جارج بھی مرنے سے قبل پولیس افسر کے گھٹنے کے نیچے بار بار کہتا ہے کہ ’’میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں‘‘۔
پولیس افسر ڈیریک چاون کو جارج کی گردن پر گھٹنا رکھے دیکھا گیا ہے، جسے بعد ازاں قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ وڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد بہت سے لوگ صدمے میں ہیں اور بہت سے غم و غصے کا کھل کر اظہار کررہے ہیں۔ امریکا سمیت دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ پر امریکی پولیس کو نسل پرست کہا جا رہا ہے جبکہ منی سوٹا شہر سمیت امریکا بھر میں مظاہرے شدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔ نیشنل ایسوسی ایشن فار ایڈوانسمنٹ آف کلرڈ پیپل نامی تنظیم نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے ’’ان (پولیس والوں) کے اعمال نے ہمارے معاشرے میں سیاہ فام لوگوں کے خلاف ایک خطرناک نظیر قائم کی ہے جو نسلی امتیاز اور تعصب پر مبنی ہے اور ہم اب مرنا نہیں چاہتے ہیں‘‘۔ اس واقعے کے بعد امریکا میں نسلی تشدد کی تاریخ پر بحث شروع ہو چکی ہے۔ پولیس کی جارحیت کے ختم نہ ہونے والے سلسلے کے خلاف لوگوں کا غم و غصہ بڑھتا جارہا ہے۔ پولیس کے ذریعے ہونے والے تشدد کے واقعات کی نگرانی کرنے والی ایک ویب سائٹ ’’میپنگ پولیس وائلنس‘‘ کے مطابق: 2013ء سے 2019ء کے درمیان ہونے والے 99 فیصد قتل کے معاملات میں افسران کے خلاف کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جارج فلوئیڈ کے کنبے کی دل کی گہرائیوں سے تعزیت کی ہے، لیکن ان کے ایک تبصرے کی وجہ سے ان پر شدید تنقید ہو رہی ہے، جس میں انہوں نے لکھا کہ ’’جب لُوٹ شروع ہوتی ہے تو پھر شوٹ (گولی مارنا) بھی شروع ہوجاتی ہے‘‘۔
دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ شاہد ہیں کہ حالیہ قتل سے پہلے بھی اسی طرح کے کئی واقعات میں سیاہ فام افراد کی جان لی گئی ہے، مثلاً 23 فروری کو مبینہ طور پر مسلح سفید فام لوگوں نے 25 سالہ احمد آربیری کا پیچھا کیا اور اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اسی طرح 13 مارچ کو بریونا ٹیلر کو اس وقت ہلاک کردیا گیا جب ان کے گھر پر ایک سفید فام پولیس افسر نے مبینہ طور پر چھاپا مارا۔منیا پولس کے میئر جیکب فرائی نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’’امریکا میں سیاہ فام برادری سے تعلق رکھنے کا مطلب سزائے موت نہیں ہونا چاہیے‘‘۔
سوشل میڈیا پر ’’بلیک لائیوز میٹر‘‘ اور ’’جسٹس فرار جارج فلوئیڈ‘‘ جیسے ہیش ٹیگز ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ سڑکوں پر مظاہرہ کرنے والوں کے لیے جارج فلوئیڈ کے آخری الفاظ ’’میں سانس نہیں لے سکتا‘‘ ایک متاثر کن نعرہ بن چکا ہے۔
پرانے واقعات
سابق صدر اور پہلے سیاہ فام امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے بیان میں ایک درمیانی عمر کے افریقی-امریکی تاجر کے بیان کو نقل کرتے ہوئے لکھا: ’’دوست، میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ منی سوٹا میں جارج فلوئیڈ کے ساتھ پیش آنے والا واقعے نے تکلیف پہنچائی ہے۔ میں نے وہ وڈیو دیکھی اور میں رو پڑا۔ اس وڈیو نے مجھے ایک طرح سے توڑ دیا ہے‘‘۔ اوباما نے کہا: 2020 کے امریکا میں یہ معمول نہیں ہونا چاہیے۔ یہ کسی بھی صورت میں معمول نہیں ہوسکتا ہے۔
اس واقعے نے ایک بار پھر امریکی معاشرے اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں میں نسلی امتیاز کی گہری جڑوں کے متعلق بحث کو جنم دیا ہے جس کے تحت پولیس کی طرز عمل، وفاقی حکومت کے کردار اور فوجداری مقدمات کے نظام پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب ملک میں کورونا کی وجہ سے ایک لاکھ سے زیادہ جانیں ضائع ہوچکی ہیں، 4 کروڑ افراد کی ملازمت ختم ہو گئی ہے اور اس نے سماج کی اقلیتی برادری اور بطور خاص سیاہ فام لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔
امریکا میں طویل عرصے سے پولیس کے ہاتھوں ہلاکتیں بڑا مسئلہ رہی ہیں۔ اس مخصوص طبقے کے لوگوں کے خلاف پولیس کی جارحیت کو چیلنج کرنے کے لیے 1966ء میں آک لینڈ میں بلیک پینتھر پارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ مائیکل براؤن کے قتل اور ’’بلیک لائیوز میٹر‘‘ کے وجود میں آنے کے بعد اس مہم میں تیزی سے اضافہ ہوا – اس احتجاجی تحریک کا مقصد ’’سفید فام بالادستی کا خاتمہ اور سیاہ فام لوگوں کی برادری کے خلاف تشدد کے معاملات میں مداخلت کرنا تھا‘‘۔2014ء میں ایک سفید فام پولیس افسر نے فرگوسن میں 18 سالہ غیر مسلح مائیکل براؤن کو گولی مار دی تھی۔ اس کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔ مرنے والوں کی اس فہرست میں جیمار کلارک، جیریمی میکڈول، ولیم چیپمین دوم، والٹر سکاٹ سمیت کئی نام شامل ہیں۔
حیران کن اعدادشمار
جنوری 2015ء میں واشنگٹن پوسٹ نے پولیس فائرنگ کا ایک ڈیٹا بیس بنانا شروع کیا، جس میں اب تک 4 ہزار 400 مہلک فائرنگ کے واقعات درج ہیں۔ ڈیٹا بیس کے ذریعے پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام امریکیوں کی بے دردی کے ساتھ ہلاکت کی بات سامنے آئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ’’سیاہ فام افراد امریکا کی کل آبادی کا صرف 13 فیصد ہیں لیکن اگر ہم پولیس کی گولی سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد پر نظر ڈالیں تو وہ کل اموات کا ایک چوتھائی حصہ ہیں اور غیر مسلح افراد کی ہلاکت کی صورت میں یہ امتیازی سلوک اور بھی کھل کر سامنے آتا ہے کیونکہ سیاہ فام کل اموات کا ایک تہائی حصہ ہوتے ہیں‘‘۔
ڈیٹا بیس میں مندرجہ ذیل چیزیں سامنے آئیں:
O ایک غیر مسلح سیاہ فام شخص کا پولیس کے ہاتھوں غیر مسلح سفید فام شخص کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہلاکت کا امکان ہے۔
O پولیس کی گولی سے مرنے والے زیادہ تر افراد مرد ہیں۔ ان میں سے نصف کی عمر 20 سے 40 سال کے درمیان ہے۔
O 2015ء سے لے کر اب تک پولیس کی فائرنگ سے اوسطاً 3افراد روزانہ ہلاک ہوئے ہیں۔
میپنگ پولیس وائلنس کے مطابق پولیس نے صرف 2019ء میں ایک ہزار 99 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ویب سائٹ پر موجود اعداد شمار کے مطابق: ملک کی کل آبادی کا 13 فیصد ہونے کے باوجود مرنے والے 24 فیصد لوگ سیاہ فام لوگ تھے۔ 2019ء میں صرف 27 دن ایسے تھے جب پولیس نے کسی کو نہیں مارا تھا۔
زمینی حقائق
بالٹیمور پولیس ڈیپارٹمنٹ سے متعلق محکمہ انصاف کی 2016ء کی ایک رپورٹ زمینی سطح پر بڑے پیمانے پر نسلی امتیاز کو بے نقاب کرتی ہے۔ ’’افریقی امریکیوں کے خلاف امتیازی سلوک‘‘ کے عنوان سے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’بالٹیمور پولیس ڈیپارٹمنٹ غیر متناسب طور پر افریقی امریکیوں کو سڑک کے کنارے چلنے سے روکتی ہے‘‘۔
‘ایک درمیانی عمر کے افریقی نژاد امریکی شخص کو 40 برس میں تقریباً 30 بار روکا گیا تھا۔ بار بار روکے جانے کے باوجود کبھی ان 30 مرتبہ روکے جانے کا ذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس پر مجرمانہ مقدمات درج کیے گئے۔ ‘سڑکوں پر گشت کرتے ہوئے بالٹیمور پولیس ڈیپارٹمنٹ غیر متناسب طور پر افریقی نژاد امریکیوں کو روکتا ہے۔ بالٹیمور پولیس ڈیپارٹمنٹ میں جن پر مقدمات درج کیے جاتے ہیں ان میں 86 فیصد افراد افریقی نژاد امریکی ہیں۔ اگر چہ وہ بالٹیمور کی کل آبادی کا صرف 63 فیصد ہیں۔
سیاہ فام شہریوں کے ساتھ نسلی بنیاد پر امتیازی سلوک کے علاوہ پولیس کے ہاتھوں قتل کی وجوہات میں زیادہ عسکریت پسندی، شفافیت کا فقدان اور احتساب کا فقدان وغیرہ شامل ہیں۔ کچھ ماہرین امریکی پولیس میں نسلی تنوع کی کمی کو بھی ایک اہم وجہ قرار دیتے ہیں۔
2016ء کے اعداد شمار بتاتے ہیں کہ 7 لاکھ ایک ہزار کل وقتی پولیس افسران میں سے 71 فیصد سفید فام تھے جبکہ 27 فیصد افسران دوسرے تھے۔ اس سے 2017ء میں ہونے والی ایک تحقیق کو سمجھنے میں کس طرح مدد ملتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پولیس افسران سیاہ فام لوگوں سے زیادہ گوروں کا احترام کرتے ہیں۔ ایک اور تحقیق کے مطابق 2016ء میں سیاہ فام اور سفید فام امریکی ایک ہی شرح سے منشیات کی فروخت اور استعمال میں ملوث ہیں لیکن سیاہ فام لوگوں کو اس طرح کے معاملات میں گرفتار کیے جانے کا امکان 2.7 گنا زیادہ ہے۔تاہم بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ پولیس کی زیادتی کے معاملات کا نسلی امتیاز سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ایسے لوگ ڈینیئل شیور کی مثال دیتے ہیں، جنہیں ایک پولیس افسر نے 2016ء میں قتل کیا تھا۔
مصنف ریڈلی بالکو نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا: جب سفید فام کسی سفید فام کے خلاف پولیس تشدد والی وڈیو دیکھتے ہیں تو اس پر ہمیں غصہ آتا ہے، ہم اداس اور بے چین ہو جاتے ہیں لیکن ہم سے زیادہ تر لوگ خود کو اس سفید فام کی جگہ نہیں دیکھتے ہیں۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ اگر ہم سنجیدہ اور باوقار ہوں گے تو اس بات کا کم امکان ہے کہ ہم پولیس کے ساتھ جھڑپ میں شامل ہوں گے۔ اور اس بات کا کم ہی امکان ہے کہ ہماری حالت ڈینیل شیور جیسی ہو۔ لیکن جب کوئی سیاہ فام شخص کوئی وڈیو دیکھتا ہے جس میں ڈیریک چاون جیسا افسر جارج فلوئیڈ کی گردن پر گھٹنا ٹیک کر بیٹھا ہو تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ فلوئیڈ کی جگہ وہ سکتا تھا یا اس کا بیٹا، بھائی یا دوست ہوسکتا ہے۔
امریکا میں ڈیموکریٹک پارٹی سے صدارتی انتخاب کی دوڑ میں ممکنہ امیدوار کے لیے جو بائیڈن کی حمایت سیاہ فام لوگوں کے ووٹوں سے ہوئی ہے اور صدارتی انتخابات کے نزدیک آنے کے ساتھ ہی پولیس تشدد کا یہ معاملہ انتخابی مہم کے اہم مسائل کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔ (بشکریہ: بی بی سی اُردو)