کورونا کی آڑ میں مسجد اقصیٰ پر قبضے کی اسرائیلی سازشیں

338

مرکز اطلاعات فلسطین
جیسے ہی فلسطین میں کورونا کی وبا کا بحران شروع ہوا، اسرائیل اور انتہا پسند یہودی تنظیموں نے اس وبائی بیماری کو استعمال کرنے اور اس کی آڑ میں مسجد اقصی و دیگر مقدس مقامات کے خلاف مختلف انداز سے سازشیں شروع کردی ہیں۔ قابض پولیس نے قبلہ اول اور نمازیوں سے متعلق اپنے طریقہ کار کو سخت کرنے کے لیے وائرس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں مسجد اقصیٰ کے کچھ حصوں کو بند کردیا ہے۔
فروری کے وسط میں مزعومہ ہیکل سلیمانی کا پرچار کرنے والے شرپسند گروپوں نے مسجد اقصیٰ میں فجرعظیم کےعنوان سے جاری مہم کے تحت مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائی پر پابندی عاید کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور صہیونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی جانب سے 100 سے زیادہ افراد کے جمع ہونے سے پر پابندی کا اعلان ہوتے ہی مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
اسرائیلی وزیر برائے داخلی سلامتی گیلاد اردن نے بھی قومی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بیت المقدس میں کورونا کے کیسز سامنے آنے کے بعد مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے سے روکے۔ اس تناظر میں القدس انٹرنیشنل کارپوریشن کے نائب صدر ایمن زیدان نے اس بات پر زور دیا کہ قابض صہیونی ریاست مسجد اقصیٰ پراپنی گرفت مضبوط کرنے اور کورونا کی وبا سے فائدہ اٹھا کر قبلہ اول پراپنا تسلط قائم کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔
ایمن زیدان نے مرکزاطلاعات فلسطین کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل نے مسجد کے خلاف ہر ممکن انداز سے کورونا وبا کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کے کھلے شواہد اس وقت سامنے آیئے جب فجر عظیم نماز کی مہم میں القدس اور غرب اُردن کے فلسطینیوں کو قبلہ اول میں نماز فجر کی ادائی سے روک دیا گیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ مسجد اقصیٰ کی بندش کے آغاز ہی سے زبردست تشویش کا سبب یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کی انتظامیہ اور نمازیوں کو مسجد کے معاملات سے دُور رکھ کر کورونا کی بندشوں کو قبلہ اول کے حوالے سے اپنے مذموم مقاصد کو آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی۔
مسجد اقصیٰ کی بندش کے دوران قابض اسرائیل کی جانب سے کیے گئے اقدامات سے متعلق انہوں نے مزید بتایا کہ صہیونی ریاست نے مسجد کے 2 دروازوں ’’باب اسباط‘‘ اور ’۔باب سلسلہ‘‘ کے سوا محافظوں اور اوقاف ملازمین کے لیے تمام دروازے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان دروازوں پربھی اسرائیلی پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی جو فلسطینیوں کے مسجد میں داخلے کو روکنے کے لیے طاقت کے استعمال سمیت تمام حربے استعمال کررہی تھی۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ’’باب مجلس القدس‘‘ میں اسلامی محکمہ اوقاف کو الگ تھلگ کرنے کے لیے بند کردیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ کے اندر محکمہ اوقاف کے لیے داخلہ میں داخلہ مشکل بنا دیا گیا۔ 1967ء کی جنگ کے بعد اسرائیل نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ محکمہ اوقاف کے ملازمین کے دفاتر اور مسجد اقصیٰ کو الگ الگ رکھا جائے۔
ایمن زیدان کے مطابق صہیونی ریاست نے انتظامی اعدادشمار سے متعلق معلومات طلب کرنا شروع کردی ہیں۔ مسجد اقصیٰ کے نمازیوں سے خالی ہونے کے باوجود صہیونی فوج اور پولیس کی بھاری نفری کی وہاں پر تعیناتی ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیل ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کورونا کی وبا کو قبلہ اول پراپنا تسلط قائم کرنے کے لیے استعمال کررہا ہے۔اگرچہ کورونا کی وبا کی وجہ سے فلسطینی علما اور محکمہ اوقاف نے مسجد میں ماہ صیام کے دوران عبادات نہ کرنے کا اعلان کیا تھا، مگر اس کے باوجود یہودی آباد کاروں کو وقفے وقفے سے قبلہ اول میں داخل ہونے اور انہیں مذہبی رسومات کی آڑ میں اشتعال انگیزی کی کھلی اجازت دی گئی تھی۔