پی آر سی کے زیر اہتمام ’’کشمیر اور امت مسلمہ کی ذمے داری‘‘ پرسمپوزیم

239

مجلس محصورین پاکستان کے زیر اہتمام حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کرنے والے کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ’’کشمیر اور امت مسلمہ کی ذمے داری‘‘ کے عنوان سے ایک سمپوزیم کاانعقاد مقامی ریستوران میں ہوا، جس کی صدارت معروف سعودی دانشور اور سابق سفارت کار ڈاکٹر علی الغامدی نے کی، جب کہ مہمان خصوصی سعودی پاک فرینڈ شپ کے صدر خالد رشید تھے۔ دیگر مہمانوں میں اسلم تنویر، سید وصی امام، سید غضنفرحسن، ڈاکٹر سعد ہاشمی اورانجینئرز ویلفیئر فورم کے محمد عمرشامل تھے۔
قاری محمد آصف نے تلاوت قران پاک اور خالد جاوید نے نعت رسول مقبولﷺ سے پروگرام کا آغاز کیا، جس کے بعد ڈاکٹر علی الغامدی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ بھارت اقوام متحدہ کی کشمیر پر تمام قراردادوں سے انحراف کررہا ہے۔ بھارت کی 9 لاکھ فوج کشمیریوں کی تحریک آزادی پر قابو نہیں پاسکتی۔ انہوں نے کہا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ امت کو متحد کیا جائے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے قائدانہ کردار ادا کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ دو قومی نظریے کے مطابق کشمیر پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے تھا۔ 1947ء میں اس وقت کے ہندوستانی وزیر اعظم نہرو نے اقوام متحدہ کے ساتھ یہ عہد کیا تھا کہ بھارت جلد ہی کشمیر میں رائے شماری کا اہتمام کرے گا، لیکن 72 سال گزر جانے کے بعد بھی بھارت یہ وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین قدیم مسئلہ ہے، جسے حل کرنے میں اقوام متحدہ ناکام رہا۔ انہوں نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان پر بھی زور دیا کہ وہ 48 برس سے بنگلا دیش میں مقیم محب وطن پاکستانیوں کی وطن واپسی اور ان کی بحالی کے وعدے پورے کریں۔
مہمان خصوصی خالد رشید نے کشمیر پر سمپوزیم کے انعقاد پر پی آر سی کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ جلد ہی کشمیریوں کو ان کے حقوق ملیں گے ان شاء اللہ ۔ انہوں نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ کشمیر میں رائے شماری کے لیے اپنی قرارداد پر عمل کے لیے موثر اور ٹھوس اقدامات کرے۔
تصور چودھری نے بھی کشمیر پر سمپوزیم کے انعقاد پر پی آر سی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ بھارت مقبوضہ وادی میں رائے شماری کے وعدے سے مکر چکا ہے اور اب وہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر حقائق چھپانے کی کوشش کررہا ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی فورمز پر مسئلہ کشمیر سے متعلق دو ٹوک موقف اختیار کرنے پر مرحوم ذوالفقار بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی تعریف کی۔ تصور چودھری کا کہنا تھا کہ محب وطن پاکستانی بنگلا دیشی کیمپوں میں انتہائی دکھی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں اور یہ ہماری حکومت کا فرض ہے کہ وہ انہیں پاکستان واپس لانے کے اقدامات کرے۔
شاہد نعیم نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت اورکشمیر میں بھارتی مظالم کو بند کرنے کے لیے کل وقتی اسٹریٹجک کشمیر کمیٹی بنائے۔ نورالحسن نے تقریب کے انعقاد پر پی آر سی کی تعریف کی۔ انہوں نے او آئی سی اور اس کے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ تحریک آزادی میں کشمیریوں کا ساتھ دیں۔
انجیر سید نیاز احمد نے کہا کہ دو بڑے مسائل کا حل فوری اور ناگزیر ہے جن میں ایک کشمیر اور دوسرا بنگلا دیش میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی وطن واپسی ۔ سماجی رہنما شمس الدین الطاف نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ لاکھوں بے گناہ کشمیریوں کے خلاف بھارتی فوج کی وحشیانہ کارروائی روکنے کے لیے سخت کارروائی کرے۔انہوں نے بنگلادیش میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی وطن واپسی پر بھی زور دیا۔
صحافی محمد امانت اللہ نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل اجلاسوں اور باتوں سے حل نہیں ہو سکتا، اس کے لیے ہمیں بھارتی افواج کی جارحیت کا انتقام لینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ محصورین کے مسئلے کو ترجیحی بنیاد پر حل کرے۔ بشیر سواتی نے سمپوزیم کے انعقاد پر پی آر سی کا شکریہ ادا کیا اورمطالبہ کیا کہ بھارت کشمیریوں کو انسانی حقوق فراہم کرے۔
تقریب کی نظامت کے فرائض سید مسرت خلیل نے انجام دیے۔ آخر میں پی آر سی کے کنوینیئر انجینئر سید احسان ا لحق نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا، خصوصاً ڈاکٹر علی الغامدی کا جنہوں نے ناسازی طبیعت کے باوجود سمپوزیم کی صدارت قبول کی۔ اس موقع پر انہوں نے درج ذیل قرار دادیں پیش کیں جو کثرت رائے سے منظور ہوئیں۔
1۔ ہم مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کی مذمت کرتے ہیں جو کئی ماہ سے غیر انسانی حالات میں رہ رہے ہیں۔ پاکستان حکومت اقوام متحدہ ، امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کے اثر رسوخ کو بھارت پر استعمال کرے تاکہ وہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق کشمیر میں رائے شماری کو یقینی بنائے۔
2۔ ہم بھارت کے مسلمانوں کی آواز کچلنے اور بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے مودی سرکار کے اقدامات اور متنازع قوانین کی مذمت کرتے ہیں۔
2۔ ہم وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ محصورین پاکستانیوں کو پاسپورٹ جاری کریں اور ان کی وطن واپسی اور آبادکاری دوبارہ شروع کریں۔ فنڈ کی قلت پر قابو پانے کے لیے ’’سیلف فنانس‘‘ کی پی آر سی کی تجویز پر عمل کریں۔ بنگلا دیش کو بھی اس مسئلے کے حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
3۔ ڈھاکا میں پاکستانی ہائی کمشنر کو بنگلا دیش میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی خوراک، صحت اور زندگی کا خیال رکھنے کی ذمے داری دی جائے۔